#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورٙةُالواقعة ، اٰیت 58 تا 74
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افرءیتم
ما تمنون 58 ءانتم
تخلقونہ ام نحن الخٰلقون 59
نحن قدرنا بینکم الموت و ما نحن
بمسبوقین 60 علٰی ان نبدل امثالکم و
ننشئکم فی مالا تعلمون 61 ولقد علمتم النشاة
الاولٰی فلو لا تذکرون 62 افرءیتم ما تحرثون 63 ءانتم
تزرعونہ ام نحن الزٰرعون 64 لو نشاء لجعلنٰہ حطاما فظلتم
تفکھون 65 انالمغرمون 66 بل نحن محرومون 67 افرءیتم الماء
الذی تشربون 68 ءانتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون 69 لونشاء
جعلنٰہ اجاجا فلو لا تشکرون 70 افرءیتم النار التی تورون 71 ءانتم شجرتھا
ام نحن المنشئون 72 نحن جعلنٰہا تذکرة و متاعا للمقوین 73 فسبح باسم ربک
العظیم 74
اے ساکنانِ زمین ! تُم ذرا یہ تو سوچو کہ تُم ہماری اِس زمین پر اپنے دل
میں ہماری اِس زمین کی جن چیزوں کی تمنائیں لیئے پھرتے ہو اُن چیزوں کو تُم
نے اپنے لئے پیدا کیا ہے یا ہم نے تُمہارے لئے پیدا کیا ہے اور کیا یہ سچ
نہیں ہے کہ ہم نے ہی تُمہاری زندگی پر آنے والی موت کا وہ وقت مقرر کیا ہے
جو ایک لٙمحہ آگے یا ایک لٙحظہ پیچھے کبھی نہیں ہوتا کیونکہ ہم ہی تُمہاری
موت و حیات کو زمان و مکان میں ایک ترتیب اور ایک تدریج کے ساتھ لاتے ہیں
اور موت کے بعد تُم کو اُس جگہ پر لے جاتے ہیں جس کے بارے میں تُم کُچھ بھی
نہیں جانتے تاہم تُم اپنی پہلی پیدائش کے بارے میں یہ بات تو یقین کے ساتھ
جانتے ہو کہ تُم اِس زمین پر خود بخود پیدا نہیں ہوئے ہو بلکہ تُم کو ایک
پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تُم اپنے اُس خالق اور
اپنی اُس تخلیق کو کبھی بُھول کر بھی یاد نہیں کرتے اِس لئے سب سے پہلے تو
تُم اِس سوال کو سامنے رکھ کر اپنی تخلیق کے اِس پہلو پر غور کرو کہ تُم
حصولِ اولاد کے لئے اپنا جو مادہِ تولید اپنی عورتوں کے رحم میں مُنتقل
کرتے ہو اُس مادہِ تولید سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ اولاد تُم پیدا کرتے
ہو یا ہم پیدا کرتے ہیں ، اگر تُم جانتے ہو کہ تُمہاری اولاد کی تخلیق و
عدمِ تخلیق کا اختیار ہمارے پاس ہے تو پھر تُم یہ بھی جان لو کہ اگر ہم
چاہیں تو تُمہاری اولاد کی اِس آس کو ہمیشہ کے لئے تُمہاری ایک دائمی یاس
میں بدل دیں لیکن تُم بخوبی جانتے ہو کہ ہم ایسا ہرگز نہیں کرتے ، اِس کے
بعد تُم اپنے دل سے یہ سوال بھی کرلو کہ تُم ہماری اِس زمین میں جو بیج
بوتے ہو وہ بیج تُم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہیں
تو اِس زمین میں تُمہارے ڈلنے اور اُگنے والے اُس بیج کو جلا کر بُھس بنا
دیں اور تُم یہ کہنے لگو کہ ہم نے تو بلا وجہ ہی یہ مشقت اُٹھائی ہے کیونکہ
ہم اِس مشقت کے بعد بھی فصلِ گُل سے محروم ہیں ، اسی طرح تُم اِس بات پر
بھی غور کرو کہ تُم جو پانی پیتے ہو اُس پانی کو بادلوں سے نچوڑ کر تُم
زمین پر لاتے ہو یا ہم لاتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہیں تو اُس پانی کو
تُمہارے لئے بد ذائقہ اور زہریلا بھی بنا سکتے ہیں جو ہم کبھی نہیں بناتے
ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ تُم بُھول کر بھی کبھی حرفِ شکر زبان پر نہیں لاتے
، اٙچھا ذرا مزید سوچ کر ایمان داری کے ساتھ ہمیں یہ بات تو بتاوؑ کہ جن
لکڑیوں سے تُم آگ سُلگاتے ہو اُن لکڑیاں دینے والے درختوں کو زمین میں تُم
اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں لیکن تُم اِس بات پر جتنا بھی غور کرو گے تو
چار و ناچار اسی ایک نتیجے پر پُہنچو گے کہ اُن درختوں کو تُمہارے ساکنانِ
خانہ اور مسافرانِ خانہ کے لئے صرف ہم اُگاتے ہیں تاکہ تُم سفر و حضر میں
ہمیشہ ہماری عظمت کے گُن گاتے رہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مٙنظر و پٙس منظر بھی وہی عالٙمِ حیات و عالِمِ وفات ، وہی
عالٙمِ قیامت و عالٙمِ حسابِ قیامت اور وہی عالٙمِ جنت کی جزائے حیات اور
وہی عالٙمِ جہنم کی سزائے حیات ہے جو اِس سُورت کا وہ موضوعِ سُخن ہے جو
اِس بات کی دلیل ہے کہ انسان اِس عالٙمِ ہستی میں اپنی حیات کی پہلی سانس
سے لے کر اپنی حیات کی آخری سانس تک ایک مُختار ہستی کے سامنے ایک ایسی بے
اختیار ہستی ہے جو اپنی حیات کی ہر ایک سانس کے لئے اُس مُختار ہستی کے
سامنے ایک مُحتاج ہستی ہے لیکن قُرآن نے اپنی اٰیاتِ بالا میں انسان کی
حیات کی اِس طویل تاریخِ حیات کے اِس مٙنظر و پٙس منظر کو آسان بنانے کے
لئے چار سادہ سوالات و چار سادہ جوابات میں بند کر دیا ہے تاکہ انسان اپنی
موت و حیات اور اپنی نجات و عدمِ نجات کے اِس مُشکل معاملے کو آسانی کے
ساتھ سمجھ سکے ، اِس سلسلہِ کلام میں انسان سے کیا گیا پہلا سوال انسان کی
اپنی تخلیق ہے جس پر وہ جتنا بھی غور کرتا ہے اتنا ہی اُس کو اِس اٙمر کا
یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ اپنا خالق آپ نہیں ہے بلکہ اِس کا خالق وہی ہے
جو اِس سارے عالٙم و ساری اٙشیائے عالِم کا خالق ہے اور اِس عالٙم کی ہر
ایک چیز اسی طرح اپنی تخلیق و بقاء کے لئے اُس ایک خالق کی محتاج ہے جس طرح
وہ خود اپنی تخلیق و بقاء کے لئے اُس ایک ہی خالق کا محتاج ہے ، قُرآن نے
اِس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے یہ مثال دی ہے کہ تُم اپنے صنفی جوڑوں کے
ساتھ جو عملِ اتصال کرتے ہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اُس عملِ اتصال میں لذتِ
وصال بھی اُسی نے رکھی ہے اور تُمہارے لئے راحتِ اولاد بھی اُسی کے ارادے
اور اُسی کی مشیت پر مُنحصر ہے حالانکہ وہ چاہے تو تُم کو اِس عمل کے نتائج
سے محروم بھی کر سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا اور اُس کا یہ عمل تُم سے
اِس اٙمر کا تقاضا کرتا ہے کہ تُم اپنی حیات و خواہشات کے اِس ایک معاملے
میں ہی نہیں بلکہ اپنی حیات و خواہشات کے ہر ایک معاملے میں اُسی کی ذات پر
انحصار کرو اور اُسی کی ذات سے رجوع کیا کرو ، خواہشِ اولاد کے بعد انسان
کا سب سے بڑا معاملہ اُس اولاد کی بقائے حیات کے لئے اٙسبابِ حیات مُہیا
کرنا ہوتا ہے جس کا واحد ذریعہ زمین میں پیدا ہونے والا وہ رزقِ حیات ہے جو
اُس کو اور اُس کی اِس نسل کو زندہ رکھتا ہے اِس لئے پہلے سوال کے بعد
انسان سے دُوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا انسان واقعی یہ سمجھتا ہے کہ وہ
ہماری اِس زمین سے جو رزقِ حیات حاصل کرتا ہے وہ اُس کی ذاتی محنت و مشقت
کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن انسان جب اِس سوال پر غور کرتا ہے تو اِس کا بھی اُس
سے یہی ایک جواب بر آمد ہوتا ہے کہ زمین سے وہ جو رزقِ حیات لیتا ہے وہ رزق
بھی اُس کو وہی خالقِ حیات دیتا ہے جو اُس کو اور اُس جیسے ہر ذی حیات کو
رزقِ حیات دیتا ہے اور انسان کا اخذ کیا ہوا یہ جواب بھی اُس سے اِس اٙمر
کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے نہ صرف اِسی ایک معاملے میں اپنی
زندگی کے ہر ایک معاملے میں اپنے اُسی خالق کی ذات پر انحصار کرے اور اپنے
اُسی خالق کی ذات کی طرف رجوع کرے ، انسانی حیات کا تیسرا معاملہ انسانی
حیات کا وہ آبِ حیات ہے جس آبِ حیات پر اُس کی حیات قائم ہے اور انسان
قُرآن کے پیش کیئے ہوئے اِس سوال پر بھی جتنا غور کرتا ہے اُس غور کے بعد
وہ اسی ایک نتیجے پر پُہنچتا ہے کہ وہ جس طرح زندگی کی ایک ایک سانس کے لئے
اپنے خالق کا مُحتاج ہے اسی طرح اُس کی حیات بھی اپنی بقاء کے لئے اُس خالق
کے پیدا کیئے ہوئے ایک ایک قطرہِ آبِ حیات کے لئے اُس کی مُحتاج ہے اور یہ
بات بھی انسان سے انسان سے اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنی زندگی
کے اسی ایک معاملے میں نہیں بلکہ اپنی زندگی کے ہر ایک معاملے میں ہمیشہ
اپنے اُسی خالق کی ذات پر انحصار کرے اور ہمیشہ اپنے اُسی خالق کی ذات کی
طرف رجوع کرے ، اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان کی گئی انسان کی بڑی
ضرورتوں میں سے چوتھی بڑی ضرورت وہ شُعلہِ نار و نُور ہے جو عالٙم میں
موجُود نہ ہو تا تو انسانی جان شب کی حرارت سے تہی اور انسانی آنکھ شب کی
بصارت سے محروم ہو کر رہ جاتی اور اِس سوال کا وہ تفصیلی جواب بھی انِ
اٰیات کے اِس مضمون میں شامل ہے جو انسان سے اِس اٙمر کا تقاضا کرتا ہے کہ
وہ گنتی کے اِن چار معاملات میں نہیں بلکہ زندگی کے جُملہ معاملات میں
ہمیشہ اپنے خالق کی واحد ذات پر انحصار کرے اور ہمیشہ اُسی کی واحد ذات کی
طرف رجوع کرتا رہے !!
|