خلاصہ سیرتِ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

خلاصہ سیرتِ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
از قلم: انجینئر علامہ محمد شعیب اکرام اختر القادری رضوی

جب ہم تاریخِ عالم کی جانب نظر کرتے ہیں تو ہمیں دنیا میں بڑے بڑے جرنیل نظر آتے ہیں، لیکن جب تاریخِ اسلام کی جانب نظر جاتی ہے تو دنیا کے وہ تمام جرنیل حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام امیر المؤمنین خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر ِاسلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانِ نبوت سے قبل صادق وامین کہا جاتا تھا اور اعلانِ نبوت کے بعد نعوذ باللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ہو گئے تھے۔

مشرکینِ مکہ کے مسلمانوں پر جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،یہاں تک کہ دینِ اسلام کی تبلیغ وعبادت بھی چھپ کرکی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے دعا کی کہ: "اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا "۔

حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں سے دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اے اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو اُسے عطا کردے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایمان کی دولت سے مالامال فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مُرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔

حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ ایمان لانے سے قبل نعوذ باللہ! حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ قتل کے ارادے سے ننگی تلوار لئے جارہے تھے کہ راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر (رضی اللہ عنہ)! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: نعوذ باللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ اُس شخص نے کہا کہ: عمر(رضی اللہ عنہ)! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا " بنو ہاشم وبنو زہرہ" تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،اُس شخص نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی بھی مسلمان ہوچکے ہیں ۔

جلال میں نکلنے والے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدھا بہن کے گھر پہنچے، یہاں حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا ،کون؟ آپ نے آواز لگائی، عمر (رضی اللہ عنہ)۔ نام سنتے ہی حضرت خباب رضی اللہ عنہ چھپ گئے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا : عمر(رضی اللہ عنہ)! وہ دین تمہارے دین سے بہتر ہے، تم جس دین پر ہو وہ گمراہی کا راستہ ہے، بس سننا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بہنوئی کو زمین پر دے مارا ، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے ان کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ بیٹھ کر کہنے لگے کہ: اچھا! لاؤ، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو ، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاؤں گی، آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کرتی جارہی تھی۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: مجھے بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم قیام پذیر ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل پڑے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ عمر (رضی اللہ عنہ) آرہے ہیں اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے، آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے عمر(رضی اللہ عنہ)! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟ بس یہ سننا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ مفسرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمر رضی اللہ عنہ
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)

قبولِ اسلام کے چند ہی لمحوں بعدحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم حق پر ہیں، آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: پھر ہم چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیں خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں۔حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مُرادِ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا ، لیکن کسی میں جرأت نہیں تھی کہ کوئی کچھ بولتا، اُس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمررضی اللہ عنہ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین :
• اے ابن خطاب (رضی اللہ عنہ) !اس پاک ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ (رضی اللہ عنہ)کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرلیتا ہے ۔ (صحیح بخاری)
• میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمر(رضی اللہ عنہ) کو دے دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔ (صحیح بخاری)
• حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک اور پھر عمر (رضی اللہ عنہ)کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔ (صحیح بخاری)
• اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر (رضی اللہ عنہ)ہوتے۔ (سنن ترمذی)
• تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمر(رضی اللہ عنہ)ہے۔(’’محدث وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے)۔ (صحیح بخاری)

قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا والہانہ عشق تھا جس کی مثال ہی نہیں ملتی ۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان اور یہودی کسی تنازع کے حل کے لیے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شواہد و دلائل کی بنیاد پر فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا مگر وہ منافق مسلمان مقدمہ اس امید پر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت میں لے آیا کہ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے فیصلہ میرے حق میں آجائے گا۔ مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ حضورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں ،تو فوراً تلوار اٹھائی اور اس منافق کا سر قلم کردیا کہ اس نے حضورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔

حضورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کے خلیفہ اول اور امیر المؤمنین بننے کی سعادت حاصل ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد خلیفہ دوم اور امیر المؤمنین بننے کی سعادت فاروقِ اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کو اتنی وسعت ملی کہ فارس و روم جیسی سلطنتیں آپ کے عہد میں فتح ہوئیں۔ اسی طرح مصر سے لے کر آذربائیجان تک کے علاقے فتح ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی تھی۔سلطنت کی وسعت کے ساتھ ہی انتظامی شعبہ جات کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ طور پر پہلی بار درج ذیل انتظامی شعبہ جات قائم فرمائے:

1۔ آپ نے اسلامی ریاست کے اندرونی و داخلی امن کے لیے باقاعدہ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قدامہ بن معظون رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین پر افسر مقرر کیا اور بازار کی نگرانی کی ذمہ داری عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی۔

2۔ محکمہ پولیس کے قیام کے بعد مجرموں کو سزائیں دینے کے لیے جیل کا قیام عمل میں لایا گیا، سب سے پہلے مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کا گھر چار ہزار درہم میں خرید کر جیل خانہ بنایا گیا۔

3۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے قبل جو کچھ مالِ غنیمت یا خراج و جزیہ کی صورت میں آتا، فوری تقسیم ہوجاتا تھا۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ جب بحرین سے واپس آئے تو ایک سال میں اپنے ساتھ پانچ لاکھ درہم بھی لائے۔ اس وقت ولید بن ہشام رضی اللہ عنہ کے مشورے سے بیت المال کا محکمہ قائم کیا گیا اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ پہلے وزیر خزانہ مقرر کئے گئے ۔

4۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دنیا میں پہلی مرتبہ نہری نظام کی بنیاد ڈالی، خوراک کی پیداوار میں اضافہ، زراعت کی ترقی، لائیو اسٹاک کے تحفظ اور بقا کے لیے پانی کی محفوظ ترسیل کا بندوبست کیا۔ زرعی زمینوں کی آباد کاری کے لیے نہری نظام قائم کیا گیا۔ بصرہ کے لوگوں نے پانی کی قلت کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو تحریر ی حکم بھیج کر دجلہ سے بصرہ تک 9 میل لمبی نہر کھدوائی۔ اس کے علاوہ نہرِ معقّل، نہرِ سعد اور نہرِ امیرالمؤمنین بہت مشہور ہیں۔ نہر امیرالمومنین کے ذریعہ دریائے نیل کو بحرِ قلزم سے ملایا گیا تھا اور اس نہر کی لمبائی 69 میل تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی نہر صرف چھ ماہ کے عرصے میں مکمل ہوگئی تھی۔

5۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تعلیم کے لیے باقاعدہ قراء و معلمین مقرر کرکے اُن کی تنخواہیں طے کر کےنظامِ تعلیم قائم کیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے چند حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حمص، دمشق اور فلسطین میں قرآن سکھانے اور حفظ کرانے کے لیے روانہ کیا۔

27 ذوالحجہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، ایک درّہ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس دن بھی آپ رضی اللہ عنہ نے ایساہی کیا اور نماز شروع کی ، صرف تکبیر تحریمہ کہی تھی کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ فیروز جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر کے ساتھ مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے شکم مبارک پر تین وار کئے، آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر مختصر نماز پڑھا کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ فیروزنے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جاؤں، لیکن نمازیوں کی صفیں مثل ِدیوار کے حائل تھیں، اس سے نکلناآسان نہ تھا، ابولؤلؤ فیروزنے دیکھا کہ میں گرفتار ہوجاؤں گاتو اس نے اپنے ہی خنجر سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا ۔

27 ذو الحجہ بروز بدھ کو آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے، بالآخر آپ رضی اللہ عنہ کی دعائے شہادت کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور یکم محرم بروز اتوار کو آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی ۔حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی نماز ِجنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ رضی اللہ عنہ کی قبرِ انوار تیار کی گئی۔

 

Muhammad Shoaib Ikram
About the Author: Muhammad Shoaib Ikram Read More Articles by Muhammad Shoaib Ikram: 25 Articles with 54777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.