قوم،قبائل،ذات، پات،رنگ اورنسل یہ توفقط انسانوں کی شناخت
اور پہچان کے لئے ہیں۔حقیقت میں توسب انسان برابرباالکل برابرہیں۔ہمارادین
کہتاہے کہ کسی انسان کو کسی انسان پر دین اور تقویٰ کے علاوہ کوئی فضیلت
وترجیح نہیں ۔پھرہم کون ہوتے ہیں سفیدکوکالے،عربی کوعجمی ،سندھی کوپنجابی
یابلوچی کوپشتون پرترجیح اورفوقیت دینے والے۔؟اسلام نے اس عمل اورفعل
کوگناہ بہت بڑاگناہ قراردیاہے لیکن افسوس آج ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ
بھی عصبیت وقوم پرستی کی آگ میں اس طرح جل رہے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔جوکام
دشمن سالوں اورصدیوں میں نہیں کرسکاوہ آج ہم اپنے ان ہاتھوں اورزبان سے
مہینوں ودنوں نہیں بلکہ گھنٹوں میں کررہے ہیں۔شہرقائدکراچی اورپورے سندھ
میں عصبیت وقوم پرستی کے نام پراس وقت آگ کے جوشعلے بھڑکائے جارہے ہیں
کیاہمارادین اس کی ذرہ بھی کوئی اجازت دیتاہے۔۔؟اسلام نے توتعصب کرنے والے
قوم پرست اور نسل پرست تعصبی کو گبر (غلاظت کے کیڑے) کی مانند قرار دیا ہے
جو گندگی سے پیدا ہوتا ہے،گندگی میں رہتا ہے اور گندگی ہی اس کا مشغلہ
زندگی بنی رہتی ہے۔ دین اسلام نے عصبیت،قوم پرستی،لسانیت اور نسل پرستی
کوجس طرح ناپسند اور قابل نفرت قراردیاہے وہ ہم سب کی نظریں کھولنے کے لئے
کافی ہے۔اﷲ کے پیارے حبیب حضرت محمدمصطفی ﷺ نے فرمایاکہ نسب کوئی ایسی چیز
نہیں جس کے سبب کسی کو برا بھلاکہا جائے یاکوئی عاردلائی جائے بلکہ تم سب
حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہو۔ایک اورمقام پرآقاعلیہ السلام نے
فرمایاکہ جسے عصبیت پر موت آئی وہ ہم میں سے نہیں۔یعنی قوم،قبائل،ذات
پات،رنگ اورنسل کاگھناؤناکھیل کھیلنے والااگراسی کھیل یاخباثت کے دوران
مرگیاتواس کاشمارپھرامت محمدیہ میں نہیں ہوگا۔احادیث میں توعصبیت کے حوالے
سے اﷲ کے محبوب نے یہاں تک کھل کر بیان فرمایاہے کہ جوعصبیت (قوم پرستی)کی
طرف بلائے وہ ہم میں سے نہیں،جوعصبیت کی بنیادپرلڑے وہ ہم میں سے نہیں
اورجوعصبیت میں مبتلاہوکرمرے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔اب خوداندازہ لگائیں کہ
قوم پرستی یہ کتنابڑاگناہ اورجرم ہے لیکن افسوس آج ہمیں اس کااندازہ نہیں۔
سندھ میں اس وقت عصبیت اورقوم پرستی کے نام پرجوبازارگرم کیاگیاہے یہ
خطرناک بہت خطرناک ہے۔اس آگ کواگرفوری طورپرپھیلنے سے نہ روکاگیاتوخدشہ ہے
کہ کہیں یہ پھرپورے چمن کوہی جلانہ دے۔سندھی نوجوان کی ہلاکت افسوسناک بہت
افسوسناک ہے ۔کوئی بھی ذی شعوراوردرددل رکھنے والا انسان اس طرح کے کسی ظلم
اورفعل کی حمایت نہیں کرسکتالیکن ایک نوجوان کی ہلاکت کوآڑاوربہانہ
بناکرپنجابی،پختون اوربلوچیوں سمیت پوری قوم کونشانے پرلے لینایہ اس سے بھی
زیادہ افسوسناک ہے۔کس قانون اورکس کتاب میں لکھاہے کہ ایک انسان کافعل،جرم
اورگناہ پوری قوم کافعل،جرم اورگناہ شمارہوگا۔؟جرم کی سزامجرم کوملتی ہے
پوری قوم کونہیں۔سندھ کے قوم پرست لیڈروں اورمولانافضل الرحمن کی پارٹی (جے
یوآئی)کے مرکزی رہنماء مولاناراشدمحمودسومرونے سندھی نوجوان کی بے جان لاش
کوجس طرح قوم پرستی کوہوادینے کے لئے استعمال کرناشروع کردیاہے وہ پوری قوم
کے لئے باعث تشویش ہے۔یہ پوراملک ہرپاکستانی
کاہے۔سندھ،پنجاب،خیبرپختونخوا،بلوچستان اورگلگت بلتستان کی ایسی کوئی تقسیم
نہیں ہوئی کہ سندھ سندھیوں کااوربلوچستان بلوچیوں کاہے یاہوگا۔یہ ہم سب
کامشترکہ پاکستان ہے باپ داداکی کوئی میراث نہیں کہ جسے ہم
قوموں،قبائل،ذات،پات اورصوبوں میں تقسیم کریں گے۔پی ڈی ایم کے سربراہ
مولانافضل الرحمن نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی ہے۔اپنے قائدکودیکھتے ہوئے ان
کے دست راست مولاناراشدمحمودسومروکونفاق کی سیاست سے گریزکرناچاہیئے
تھامگرافسوس وہ ایسے راستے پرچل پڑے ہیں کہ جوعلماء وصلحاء والاراستہ ہی
نہیں۔ راشدمحمودسومروایک عالم،ایک مولوی اورایک امام ہیں ۔ایک عالم،ایک
مولوی اورقوم کے ایک امام کویہ ہرگززیب نہیں دیتاکہ وہ اﷲ کے احکامات
اورحضورنبی کریم ﷺکے واضح ارشادات وفرمودات کوپس پش ڈال کرملک کے اندرعصبیت
،قوم پرستی اورلسانیت کوہوادیں۔معذرت کے ساتھ امام کاکام قوم کوجوڑناہوتاہے
توڑنانہیں۔چاہیئے تویہ تھاکہ مولاناکی شاگردی ومریدی کاحق اداکرتے ہوئے
مولاناراشدمحمودسومرونہ صرف اس آگ پرپانی ڈالتے بلکہ وہ سندھ کے قوم پرست
لیڈروں کوبھی عصبیت اورقوم پرستی کے اس گناہ سے بازرہنے یارکھنے کی تلقین
وکوشش کرتے مگرافسوس سندھ کے قوم پرست لیڈروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرقوم
پرستی کانعرہ بلندکرنے والے محترم سومروصاحب یہ بھی بھول گئے ہیں کہ اﷲ کے
پیارے حبیب ﷺ نے قوم پرستی کوکوئی گناہ بھی قراردیاہے۔سندھ ہماراہے کانعرہ
لگانے والے سومروجی کواب یہ بھی یادنہیں کہ اسلام میں قوم پرستی کی کوئی
گنجائش ہے بھی کہ نہیں۔ایک نوجوان کی ہلاکت پرآسمان سرپراٹھانے والے سندھ
کے سیاسی اورمذہبی پنڈتوں نے جس طرح قوم پرستی کاکارڈکھیلناشروع کردیاہے وہ
نہ صرف افسوسناک بلکہ دردناک بھی ہے۔اس وقت سندھ میں نہ صرف باہرسے آنے
والے بلوچیوں،پختونوں اورمہاجروں کے کاروباربندکئے جارہے ہیں بلکہ سندھ سے
تمام غیرمقامی افرادکوباہرنکالنے کے نعرے بھی لگائے جارہے ہیں۔بقول ان نام
نہادقوم پرست لیڈروں یاکیڑوں کے اب سندھ میں صرف سندھی رہیں گے اورکوئی
نہیں رہے گا۔کسی دورمیں کراچی کوسب کی ماں کانام اوردرجہ دیاجاتاتھا۔تاریخ
گواہ ہے کہ شہرقائدنے ہرکس وناکس کواپنے دامن میں پناہ دی لیکن آج علامہ
راشدمحمودسومروجیسے کچھ حادثاتی ،واقعاتی یاایجاداتی لیڈر، لوفراورلفنگے
قائدکے اسی شہرکوباپ داداکی میراث سمجھ کراسے اپنے نام کرنے کے خواب دیکھ
رہے ہیں۔ملک اورقوم کے اصل دشمن ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ان جہلا کی وجہ سے اس
وقت نہ صرف کراچی وسندھ کاامن داؤپرلگاہواہے بلکہ قوم پرستی کے اس اگ کے
شعلے دوردورتک بھی پھیلنے لگے ہیں،بلوچستان میں اس وقت سندھی بھائیوں کے
ساتھ جوکچھ ہونے لگاہے وہ اسی قوم پرستی کاچورن بیچنے کانتیجہ ہے۔اس لئے
قوم کو آستین کے ان سانپوں سے ہرحال میں بچناہوگا۔کراچی اورسندھ
کیا۔؟پنجاب،خیبرپختونخوااوربلوچستان بھی کسی کے باپ داداکی جاگیریا کوئی
میراث نہیں ۔سندھ،پنجاب،کے پی کے،بلوچستان،گلگت بلتستان اوراس ملک کاایک
ایک ذرہ پہلے بھی ہرپاکستانی کاتھا،آج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے
گا۔پنجابی،سندھی،بلوچی اورپختون یہ سب اس ملک کے شہری ہیں۔اس ملک کے آئین
اورقانون نے انہیں یہ حق دیاہے کہ وہ اس ملک کے اندرجب اورجہاں جاناچاہیں
بلاکسی خوف وخطراورروک ٹوک کے جاسکتے ہیں۔ علامہ راشدمحمودسومروہوں ،کوئی
بزنجوہوں،کوئی چانڈیوہوں یاپھرکوئی کانڈیو۔اس ملک کے کسی بھی شہری کووہ
سندھ،پنجاب،بلوچستان اورخیبرپختونخوا جانے اوروہاں رہنے سے نہیں روک
سکتے۔بہتریہی ہے کہ جس آگ پرعصبیت اورقوم پرستی والے تیل کاچھڑکاؤکرکے ان
قوم پرستوں نے اسے ہوادی ہے ۔اس آگ کویہ اب خودجلدسے جلدبجھادیں ورنہ
پھرقوم پرستی کی اس آگ سے چمن جلے یانہ جلے لیکن یہ سارے قوم پرست دونوں
جہانوں میں ضرورجلیں گے۔
|