معاشرہ اور ہمارا کردار

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیاتم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ"كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً" تمام انسان امت واحدہ ہیں علماء اکرام اسکی تفسیر میں لکھتے ہیں کان الناس امۃ واحدۃ کے معنی ہیں کہ انسان سماجی زندگی گزارتا ہے وہ اس طرح کہ کوئی بھی شے انسان کو سماجی زندگی گزارنے سے بے نیاز نہیں کرسکتی۔
انسان فطرتاً تغیر و تبدل کا منبع ہے اس پہ کائنات کی جنبش عوامل کا اثر نمایاں ہوتا ہے وہ ان عناصر کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ خود کو ان کے مطابق ڈھالتا بھی ہے۔ قرآن انسانی نسل کی یگانگت کی تاکید کرنے کیساتھ ساتھ اختلافات کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے کہ
"اے لوگو ہم نے تمہیں نر اور مادے سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ پہچانے جاؤ اور بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے باعزت وہ ہے جس کا تقوی زیادہ ہے"۔

قرآن کریم نے غیر فطری اختلاف کی مذمت کی ہے ۔ان اختلافات کا سرچشمہ خودغرضی شقاوت،ظلم وطغیان بے بنیاد شک ، جھوٹ ، اورحق کے واضح ہونے کےبعد ان کا انکار کرنا جیسے امور قراردیا ہے۔

جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے جسکو اس معاشرے میں عمومیت حاصل ہے۔ ہر ذی شعور اپنے اردگرد بڑی شرح و بسط کے ساتھ بولتا ہے اور اس جھوٹ کے بھی عجیب وغریب توضیح پیش کی جاتی ہے کہ جناب میں نے بہانہ کر لیا ہے، وہ ہے تو ایک جھوٹ ہی نہ ۔ ایک بہت خوبصورت واقعہ آپکے سامنے پیش کرتی چلوں کہ جان عالم ﷺ نے جب نجران کے بادشاہ کو خط لکھا تو اس نے آپﷺ کے بارے میں پوچھ گچھ کی، حضرت ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں اس وقت تجارت کی غرض سے وہیں اس علاقے میں موجود تھا مجھے بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ مجھ سے بادشاہ نے جان کائنات ﷺکی حیات مبارکہ کے متعلق دریافت کیا ۔چونکہ مین اس وقت اسلام نہیں لایا تھا تو میں نے بتایا کہ وہ ساحر ہیں شاعر ہیں نعوذبااللہ میں نے وہ سب کہا جو اس وقت کفار کہا کرتے تھے ۔ بادشاہ نے تمام باتیں سن کر کہا کہ ایک بات بتاؤ کہ کیا کبھی انھوں نے ایسی کوئی بات کہی جو کہ جھوٹ پہ مبنی ہو تو میری غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ میں ان کے بارے یہ کہہ سکوں کہ وہ کبھی جھوٹ بولتے تھے ۔ آپ نے کہا کہ وہ میرے سامنے ہی پیدا ہوئے میری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئے لیکن کبھی آپﷺ کے منہ سے جھوٹ نہیں سنا ۔سفیان کہتے ہیں بادشاہ سمیت سب حواری رونے لگے ۔ کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ تم اب بھی ان کے پاس جاؤ گے تو بادشاہ نے کہا جس نے کبھی آج تک جھوٹ نہیں بولا تو پھر کیسے ممکن ہے جس بات کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں وہ جھوٹ ہو ۔ وہ بلاشبہ اللہ کے رسولﷺ ہیں ، دشمنوں میں بھی مشہور تھا صادق اور امین کا چرچا ۔
ہم آج جس جس فیلڈ میں ہیں چھوٹے منصب سے لے کر بڑے سےبڑے عہدے داران تک سب کو ہادئ برحق کی حسین سیرت مبارکہ کو اپنانا ہوگا ۔تبھی ایک باوقار ، باشعور معاشرہ معرض وجود میں آئیگا ۔اسی ظمن میں قرآن کا ایک حوالہ پیش نظر ہے
ترجمہ آیت کریمہ
"اور جوکچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لےلو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے ۔"
اس آیت کی روسے سب سے پہلے رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید کے حوالے سے بے توجہی اور بے عملی کا خاتمہ کرکے اس پرعمل پیرا ہونا چاہیے ورنہ احادیث کےمطابق خود قرآن بارگاہ احدیت میں شکایت کرے گا ۔
قرآن عدل و انصاف کی بات کرتا ہے
فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى (ص26)
تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ کرو اور خواھشات کی پیروی نہ کرو۔
لیکن ہمارے معاشرے میں اردگر عمیق نظر ڈالیں تو مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ غریب بیچارہ ظلم کی چکی میں پس جاتا ہے اور اثرورسوخ والے باآسانی بری کر دئیے جاتے ہیں ۔ عام گھروں میں یہ عمل ہر روز دہرایا جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ اسلام اسکی قطعی اجازت نہیں دیتا ۔ ہمیں بھی بالکل ویسا ہی عدل قائم کرنا ہوگا جو آج سے 1400 صدیاں پہلے قائم ہوا کہ جب قریش کو مخزومی عورت کی وجہ سے بڑی فکر ہوئی (وہ چوری میں گرفتار ہوئی)۔ وہ کہنے لگے اس کے مقدمہ میں رسول اللہﷺ سے کون عرض کرے (تا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں اور کوئی سزا نہ دیں یا معاف کر دیں) لوگوں نے کہا بھلا اتنی جرأت اسامہؓ کے سوا اور کون کر سکتا ہے وہ تو آپﷺ کے پیارے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں خیر اسامہؓ نے اسکے باب میں عرض کیا۔ آپ ﷺ نے (غصے میں) فرمایا ارے تو اللہ کی حد میں سفارش کرتا ہے۔ اس کے بعد آپؐ ﷺ نے کھڑے ہو کر خطبہ سنایا فرمایا لوگو! تم سے پہلے اگلی امتیں اس لئے تو گمراہ ہو گئیں۔ وہ کیا کرتے !!! جب کوئی امیر آدمی ان میں چوری کرتا اس کو تو چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب (بے وسیلہ) آدمی چوری کرتا تو اس پر اللہ کی حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہؓ بنت محمدﷺ بھی چوری کریں تو محمدﷺ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالے گا۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا "کسی شخص کو اگر دس افراد کی سرپرستی سونپی گئی ہو اور وہ ان کے ساتھ عدل وانصاف نہ کرسکے تو قیامت کے دن اسے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں اور سرپرلوہے کا ایک خود پہنا کرجسمیں لگام لگی ہوگی، لایاجاے گا
اسی طرح معاشرے میں اختلافات کا حل ، برابری اور محبت کی فضا قائم کرنا ، حسد ،کینہ توزی کے اسباب کا ازالہ ،اور پیار ومحبت پھیلانا پر امن معاشرہ قائم کرنا ہمارا فرض اولین ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لھذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی رکھو۔
اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ کسی مثزدہ جان فزا کی طرح روح کو سرشار کرتا ہے کہ جو شخص دو دلوں کو جوڑے گا ( یعنی دو ناراض لوگوں کو ملوائے گا ) اللہ اس پہ جنت کو واجب کر دیگا ۔
آج معاشرے میں بد امنی اور بے سکونی کا راج ہے آج تخت و تاج والے بغیر گولی کے پرسکون نیند نہیں لے سکتے ۔ شاپنگ مالز میں کارڈ سے ہزاروں لوٹا دینے والے یہ نام نہاد امیر جب کسی سبزی فروش کے پاس جائیں گے تو خوب بھاو تاو کرتے ہوئے انسانیت کی تمام حدیں عبور کر دیں گے ۔
انہیں میں بیشتر کاغذی ڈگریوں کا پلندہ گھر کے ڈرائنگ روم میں سجانے والوں کی علمی قابلیت کچھ اسطرح سامنے آتی ہے کہ ایک غریب بزرگ نیچے زمین پہ بیٹھا انتطار کر رہا ہے اور صاحب گولڈ میڈل لسٹ پاؤں پہ پاؤں چڑھا کے اس غریب کی بے بسی کا تماشا بنا رہے ہیں ۔ تف ہے ایسے اخلاق اور علمی قابلیت پر ،
وہ باپ جو ساری زندگی مزدوری کرکے اپنا راحت و چین قربان کرتا رہا ، اسکو آج کا جوش مارتا جوان خون کہے گا کہ ابا جی اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں اب آپکو ان معاملات کا علم نہیں ۔باپ کو دینے کے لئے وقت نہیں ، اور وہ بیچارہ یہ کہتا ہوا دنیا سے چلا جاتا ہے رہتا کہ دو گھڑی مجھ بوڑھے کے پاس بھی بیٹھ جاؤ ۔ آفرین تمہاری ایسی قابلیت اور ایسی کمائی پہ۔ کوئی سوالی سوال کرنے دروازے پہ آجائے تو اس کو جھڑک کر بھیج دیا جاتا ہے ۔
صاحب شہہ لولاکﷺ کی بارگاہ ناز میں چلو تمہیں ادب و آداب معاشرت کے یہ حسیں لمھات بھی دیکھنے کو ملیں ۔ بوڑھی مائی حلیمہ تشریف لاتیں ہیں تو اپنی مبارک کملی بچھا دیتے ہیں ۔ حلیمہ کے شوہر تشریف لاتے ہیں تو انکے اکرام میں اٹھ جاتے ہیں ۔ بیٹی بارگاہ بنوت میں آتیں ہیں تو فرحت محبت سے اٹھ کر استقبال کرتے ہیں ۔ مال آتا ہے تو سب غلاموں اور غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔ ساری زندگی کبھی زکوۃ واجب نہیں ہوئی کیونکہ کبھی مال رکھا ہی نہیں ۔ کہیں یتیم کی دلجوئی کی جارہی ہے کہیں بیوہ کی مدد کی جارہی ہے ، کہیں مسکین کو تسکین دی جارہی ہے ۔ کہیں خبشی کو قرار دیا جا رہا ہے ۔
ہر ہر پہلو میں آپکو اس معاشرے اور اس میں رہنے کے تمام اسلوب ملے گئے ۔
ہمیں اپنے آپکو اور اپنی نسلوں کو واپس تعلیمات قرآنی کی طرف لانا ہو گا ۔ فرداً فرداً ہر ذی ہوش اپنے دائرہ کار میں یہ عمل سرانجام دے ، چاہے وہ گھر میں رہنے والی خواتین ہیں یا باہر کام کرنے والی اسلام کی بیٹیاں۔ اسلامی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں آپکو ہر جگہ ایک بے مثال کردار ملے گا ۔عورتوں نے ہر میدان میں اپنا موثر اور باوقار روپ اپنایا ہے اور اپنا فرض ادا کیا ہے۔چاہے وہ گھریلو ہو یا ،سیاسی ،انتظامی، سفارتی، ہر صف میں وہ اول دکھائی دی ہیں ۔ روایت حدیث،قرات و کتابت، شعر و ادب نیز ہر میدان میں نمایاں رہیں۔ باعث تسکین ان کا نام لیتی چلوں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا( روایت حدیث ،فقہ قانون ،تاریخ علم الانساب ،شعر، طب ، علم نجوم۔
اسماء بنت ابو بکر ( روایت حدیث )
ام عبداللہ بن زبیر (روایت حدیث)
حضرت خدیجتہ الکبری ( ماہر تجارت )
حضرت سمعیہ( پہلی شہیدہ)
حضرت ام عمارہ ( خاتون احد) جو جنگ میں شریک ہوئیں اور ستر سے زائد زخم کھائے ۔
المختصر عرض کرتی چلوں کہ تاریخ کے جتنے پنے پلٹ کر دیکھو گے ہر ایک پر ایک لازوال داستان ملے گی ۔ ان سب کا دائرہ عمل اسلام کی پروکاری تھی۔
کسی مفکر کا بہت خوبصورت جملہ ذہن میں آگیا کہ اسلام کو اپنی زندگیوں میں شامل کرلو باقی اسلام آپکو سب خود سکھا دیگا ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری

Shaneela Princess
About the Author: Shaneela Princess Read More Articles by Shaneela Princess: 5 Articles with 3466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.