سپریم کورٹ کے بعد پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی سیشن عدالت نے بھی
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ضمانت دے دی۔ یہ سرکار کے گال پر دوسرا
طمانچہ تھا ۔ پہلے چانٹے سے یوگی سرکار کے گال لال ہوئے اور دوسرے نے شاہ
کے انتظامیہ کو سرخ رو کردیا ۔ اس انوکھی سرخ روئی کو دیکھ کر امن پسند
باشندوں کا دل خوش ہوگیا۔ ان دونوں فیصلوں میں سرکاری دلائل اور عدالتی
تبصرے بہت دلچسپ ہیں ۔ پٹیالہ ہاوس کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ ایک ہنومان
بھگت نامی صارف کی شکایت پر درج کیا گیا تھا ۔ اس ہنومان بھکت نے پہلے نہ
تو کوئی ٹویٹ کیا تھا اور نہ کوئی اس کا فالوور تھا۔ آگے چل کر اس کا
ٹویٹر اکاونٹ بھی ہٹا دیا گیا۔ پولیس نے اس کو بلا کر تفتیش کرنے کی زحمت
بھی نہیں کی مگر محمد زبیر کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ دنیا بھر کی عدلیہ کا
یہ سب سے منفرد واقعہ ہے جس میں مدعی سست نہیں بلکہ گدھے کے سر سے سینگ کی
مانند لاپتہ ہے اور گواہ یعنی امیت شاہ کی نگرانی میں کام کرنے والی دہلی
پولیس اس قدر چست ہے کہ اس نے ملزم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ۔
ہنومان بھکت صارف اور مودی بھکت پولیس کو محمد زبیر کے جس پر ٹویٹ پر
اعتراض ہے وہ سن 2018میں کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ہوٹل کی تختی پر ہنومان
ہوٹل کو ہنی مون ہوٹل میں بدلا ہوا دکھایا گیا تھا ۔ ہنومان چونکہ برہمچاری
یعنی مجرد تھے اس لیے ان کے نام کو ہنی مون سے جوڑنے کےباعث ہنومان بھکت کے
مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ چار سال سے یہ
ٹویٹ ٹوئٹر پر موجود ہے مگر اس دوران کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچی ۔
ہنومان بھکت کی دلآزاری کے بعد بھی اگر سرکار اس کو ٹوئٹر سے کہہ کر ہٹوا
دیتی اس کی سنجیدگی کا بھرم رہ جاتا لیکن اس نے یہ نہیں کیا یہاں تک کہ خود
ہنومان بھکت ٹوئٹر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ تصویر معروف ہدایتکار رشی کیش
مکرجی کی 1983میں بننے والی فلم ’کسی سے نہ کہنا ‘ سے لیا گیا تھا ۔ اس فلم
کو سنسر بورڈ سے سرٹیفیکیٹ حاصل ہے ۔ رام بھکت سرکار کو چاہیے تھا کہ کم
ازکم وہ اجازت نامہ منسوخ کردیتی ۔ یوٹیوب سے فلم کو ہٹانے کی سعی بھی ممکن
تھی لیکن وہ بھی نہیں ہوئی ۔
محمد زبیر پر طبقاتی دشمنی کا الزام لگانے والے بھول گئے کہ اس فلم یا ٹویٹ
کی وجہ سے کوئی فساد برپا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود دہلی پولیس نےمذکورہ
ٹویٹ پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت پھیلانے کا الزام لگا دیا اور
بعد میں غیر ملکی آمدنی کا الزام بھی جوڑ دیا مگردونوں محاذ پر اس کو منہ
کی کھانی پڑی اور وہ چاروں خانے چت ہوگئی ۔ اسے کہتے ہیں دھوبی پچھاڑ ۔
ایڈیشنل سیشن جج نے ضمات دیتے ہوئے کچھ دلچسپ تبصرے کیے مثلاًاگر عوام کو
اپنی رائے کےاظہار سے روک دیا جائے تو نہ جمہوریت کام کرسکتی ہے اور نہ پھل
پھول سکتی ہےنیز اظہار رائے کی آزادی جمہوریت پسند سماج کی اصل بنیاد ہے۔
جرمنی میں جاکر ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہنے والے وزیر اعظم کو عدلیہ
کی نصیحت پر غور کرنا چاہیے۔ویسے عدالت کے مذکورہ تبصرے کی روشنی میں تو
اترپردیش کی سرکار کے ذریعہ محمد زبیر کا گلا گھونٹنے خاطر قائم کی جانے
والی ایس آئی ٹی کو تحلیل کرکے ان کے خلاف دائر تمام مقدمات واپس لے لیے
جانے چاہیئں ۔
فاضل جج دیویندر کمار جنگلا نے یہ چونکانے والا انکشاف بھی کیا کہ ہندو
مذہب اور اس کے پیروکار فطرتاً روادار ہیں ۔ اس بات کو اگر درست مان لیا
جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوگی انتظامیہ ہندو فطرت سے منحرف ہو
چکا ہے؟ اورکیا یوگی کا گیروا لباس محض ایک پاکھنڈ ہے؟ 27 جون کو محمد زبیر
کی گرفتاری عمل میں آئی۔ 2 جولائی کو انہیں پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں چیف
میٹروپولین مجسٹریٹ سنیگدھا سروریہ کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے بھی
زبیر کے ضمانت کی عرضی کو خارج کردیا تو کیا یہ مان لیا جائے کہ وہ بھی
ہندو مذہب کی روادار فطرت سے ناواقِف حال ہیں جناب دیویندر جنگلا صاحب کے
فیصلے نے؟ اس طرح کے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں ۔ جج صاحب نے کہا چونکہ
ہندو اپنے بچوں اور اداروں کو دیوی دیوتاوں کے ناموں سے سے منسوب کرتے ہیں
اس لیے ایسا کرنے سے دفع 153A اور295A کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔
ان دونوں ضمانتوں باوجود محمد زبیر رہا نہیں ہوسکیں گے کیونکہ ان کے خلاف
یوپی انتظامیہ نے جملہ 6؍ ایف آئی آر درج کررکھی ہیں ۔ اس دھاندلی کے
خلاف محمد زبیر نے 14 جولائی کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں
ان سب کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بصورتِ دیگر انہوں نے ہر کیس
میں عبوری ضمانت کی درخواست بھی کی۔ اتر پردیش کے سیتا پور میں بھی ایف آئی
آر پر سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو اگلے احکامات تک عبوری ضمانت دے دی ہے ۔
اترپردیش کے خیرآباد پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر تو لاجواب ہے۔ راشٹریہ
ہندوشیرسینا کے ضلع صدر بھگوان شرن کو شکایت ہے کہ محمد زبیر نے یتی
نرسنگھانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سروپ کو اپنے ایک ٹویٹ میں نفرت
بھڑکانے والا قرار دیا تھا۔ اس بنیاد پر پولیس نے زبیر کے خلاف تعزیرات ہند
کی دفعہ 295A اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے دفعہ 67 کے تحت کیس درج
کرلیا ۔
معاملہ یہ تھا کہ محمدزبیر نے 27 مئی کو سلسلہ وار ٹویٹ میں ٹیلیویژن
چینلوں پر پرائم ٹائم مباحث پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نفرت انگیزی
کرنے والوں کیلئے ایک پلیٹ فارم بن گئے ہیں تاکہ دیگر مذاہب کو برا
بولاجاسکے۔ اپنے دعویٰ کے حق میں انہوں نے ٹائمس ناؤ چینل پر ”دی گیان واپی
فائلس“ نامی پروگرام مباحث کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا تھا۔ شکایت گزار
کےمطابق زبیر کے ٹویٹ سے ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے کیونکہ انہوں
نے معزز مہنت بجرنگ منی کو نفرت بھڑکانے والا شخص قرار دیا ہےنیز وہ
مسلمانوں کو ہندوقائدین کے قتل پر اکسارہے ہیں۔کسی کومنافرت پھیلانے والا
کہہ دینے سے اس کے قتل پر اکسانے والی منطق احمقانہ ہے ۔ہر روز ٹیلی ویژن
پر اس طرح کی الزام تراشی کی جاتی ہے ۔ اس دلیل کو اگر عدالت تسلیم کرلے تو
ہر شام ٹیلی ویژن پر ہونے والی اشتعال انگیز بحث کا خاتمہ ہوجائے گا اور
یہی بات محمد زبیر نے اپنے ٹویٹ میں کہی ہے ۔
بھگوان شرن کی شکایت میں اور اس کے بعد اترپردیش کے سرکاری وکیل نے جس مہنت
بجرنگ منی داس کو معزز کہا گیا اس نے خیرآباد میں واقع ایک مسجد کے باہر
مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مسلم سماج کی خواتین اور بیٹیوں کو گھر سے اٹھاکر
عصمت دری کرنے کی دھمکی د ی تھی ۔اس کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا
ہے کہ اگر کوئی کسی مسلم علاقے میں کسی لڑکی کو پریشان کرتا ہے تو وہ مسلم
خواتین کا اغوا کر کے سرعام ان کی عصمت دری کرے گا۔ کیا یہ کسی معزز شخص کا
بیان ہے؟ اس پر قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے بھی
نوٹس لیا تھا۔ یوپی پولیس کو جاری کیے گئے نوٹس میں موصوفہ نے کہا تھا کہ
ایک خاص کمیونٹی کی خواتین کی سرعام آبروریزی کرنے والے لوگ قابل قبول
نہیں ہیں ۔ انہوں نے اس معاملے سے یوپی کے ڈی جی پی کو مطلع کرکے ذاتی طور
پر بات کرکے ایسے سنتوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا ۔ سوال یہ ہے
کہ راشٹریہ ہندوشیرسینا کے ضلع صدر بھگوان شرن کے جذبات کو ریکھا شرما کے
بیان ٹھیس کیوں نہیں پہنچی؟ ان کے خلاف احتجاج کرکے کارروائی کا مطالبی
کیوں نہیں کیا گیا؟
ریکھا شرما کا بیان اگر قابلِ اعتراض تھا تو اتر پردیش پولیس نے بجرنگ منی
کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج کی ؟ اس کے بعد مہنت نے اپنے بیان پر معافی
مانگتے ہوئے یہ کیوں کہا ہے کہ اگر میری کسی بات سے ماؤں بہنوں کوتکلیف
پہنچی ہے تو میں معافی مانگتا ہوں۔ میں تمام خواتین کا احترام کرتا ہوں۔ اس
معافی نامہ کے باوجود اس نام نہاد معزز شخص کو گرفتار کیوں کیا گیا ؟ اس
معاملے میں علاقہ کے افسر کو تحقیقات اور ضروری کارروائی کی ہدایت کیوں دی
گئی ؟ پولیس نے یہ کیوں کہا کہ متعلقہ افراد (بشمول بجرنگ منی) کے خلاف
خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ضابطے کے مطابق مناسب دفعات کے تحت شکایت درج کی
گئی ہے؟ دستیاب شواہد کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ ذرائع
ابلاغ میں بجرنگ منی کے ذریعہ داس سنگت کی زمین پر ناجائز قبضے کی بحث کیوں
گردش میں آگئی؟ او ر اس کے یہاں مقامی رہنماؤں کا آنا جانا کیونکر موضوع
بحث بن گیا؟بجرنگ منی کے گروپورن منی نے کو کیمرے کے سامنےکہا کہ ابھی نئے
نئے مہنت بنے ہیں لڑکپن میں جذبات سے مغلوب ہوکر یہ کہہ دیا ۔ انہیں یہ
نہیں کہنا چاہیے تھا۔ محمد زبیر کو پھنسانے کے لیے بجرنگ منی جیسے بدمعاش
کو اتر پردیش انتظامیہ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں معزز قرار دینا شرمناک
نہیں تو اور کیا ہے؟ اس معاملہ میں محمد زبیر کو ضمانت دے کر سپریم کورٹ نے
ایک قابلِ تعریف اقدام کیا ہے۔ امید ہے بہت جلد ان کو بری کرکے عدالت جعلی
مقدمات درج کروانے والی پولیس کی نہ صرف سرزنش کرے گی بلکہ ان کو سزا بھی
دے گی ۔ اس طرح سچائی کا بول بالا اور جھوٹ کا منہ کالا ہوجائے گا ۔
|