درد_دل

ادارے ہوں یا تحریکیں ،جہاں مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں انسانی ذرائع کی اہمیت دوچند ہے۔ اگر ہم نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ کی طرف دیکھیں تو آپ نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی قدردانی کی ہے۔ آپ کو معلم بنا کے بھیجا گیا تھا مگر یا عجب ،آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ جو فرد میدان جنگ میں آپ کے خیمے کا کھونٹا گاڑتا ہے ،آپ اس کے محنت کش ہاتھ پہ بوسہ دیتے ہیں !آپ نے اپنے ساتھیوں میں جو خوبی دیکھی وہی اس کا پیار سے نام ڈال دیا ، حضرت ابوبکر کو صدیق کہہ کے پکارا ، حضرت عمر کو فاروق بنادیا ،حضرت علی کو حیدر_ کرار ،حضرت عثمان کو غنی ،حضرت خالد بن ولید کو سیف اللہ ،رضوان اللہ علیھم اجمعین ۔آپ نے وہ ٹیم تیار کی جو بعد میں پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ حقیقت میں ایک قائد اور لیڈر میں ایک جوہری کی سی نظر ہوتی ہے جو کوئلے کی کان میں ہیرے کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پھر اسے تراش خراش کرکے اپنے معیار کے مطابق ڈھال لیتا ہے !

دوسری طرف ایسے باس بھی موجود ہوتے ہیں جن کے لئے ان کے ساتھی دست و بازو نہیں بلکہ صرف ورکر ہوتے ہیں،جن کے احساسات کی انھیں کوئ پروا ہوتی ہے نہ ان کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک گیا بھی تو کوئ دوسرا آجاے گا ! یاد رکھیں وہ وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی تھی کہ عمر کے ذریعے سے اسلام کو عزت بخش ! یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے مگر ہم کیا کرتے ہیں کہ جو لوگ ہمیں میسر ہوتے ہیں ،ہم انھیں بھی بھگا دینے میں کوئ کسر نہیں چھوڑتے۔ کوئ اپنی حتی الوسع اچھا کام بھی کررہا ہوتا ہے تو آپ کوئ نقص ڈھونڈ کے لے آتے ہیں۔ کوئ رپورٹ پیش کرتا ہے تو آپ کسی اور سے اس کا موازنہ کرنے لگ جاتے ہیں ۔ ایسے رویے افراد کو تھکادیتے ہیں ،دل توڑ جاتے ہیں۔ جس نے انسانوں کا شکر ادا نہ کیا،اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہ کیا۔
بے شک جس کا جذبہ سچا ہے ،وہ کام کرتا رہے گا ،اسے کتنی بار گرایا جائے وہ پھر اٹھ کے چلنا شروع کردے گا،آپ طنز و تنقید سے اس کے خلوص کو ٹھوکر مار دیں گے ،وہ مصلے پہ آنسو بہاتے پھر آپ کے ساتھ کام کرتا رہے گا کیوں کہ جس کا مقصود و مطلوب ،اللہ کو راضی کرنا ہے ،جس کا ضمیر مطمئن ہے ،اسے انسانی رویوں کی اتنی پروا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی !
~ دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے ،لذت_آشنائ !!

حسبی اللہ ونعم الوکیل
خاکسار : عصمت اسامہ ۔