دوسروں کو اڑنا سکھا دیا لیکن خود گر گئے... دنیا کی ٹاپ ائیر لائن کو تربیت دینے والے پی آئی اے کو کس کی نظر لگ گئی؟

image
 
ایمریٹس دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز میں سے ایک ہے... لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جب اس کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اسے دنیا کی کسی اور ایئر لائن سے مدد ملی تھی؟ کسی زمانے میں پی آئی اے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا شمار بھی دنیا کی پروفیشنل ائیر لائنز میں ہوتا تھا، پی آئی اے نے ایمیریٹس کے آغاز کے لئے ایئر لائن کو بھرپور تعاون کی پیشکش کی جس میں ائیر کرافٹ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایمیریٹس عملے کی تربیت بھی شامل تھی ۔ ۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو پاکستان کے بیشتر کارنامے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک عظیم با صلاحیت، ابھرنے والی قوم تھی۔۔۔لیکن اب شاید اس کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔
 
تفصیلات کچھ یوں ہیں ۔۔ ایمریٹس کی بنیاد 1984 میں گلف ایئر کے دبئی جانے والے راستوں کو محدود کرنے کے ردعمل کے طور پر رکھی گئی تھی۔ گلف ایئر، یورپ اور ایشیا کے علاقائی مسافروں کے لئے بذریعہ دبئی اپنا روٹ رکھنا چاہتی تھی۔ اس طرح دبئی کی حکومت نے اپنے خطے سے رابطے کوضروری سمجھتے ہوئے اپنی ایئر لائن بنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے مالی اعانت کے باوجود ایئر لائن کے پاس اہم مہارت اور ظاہر ہے ہوائی جہاز کی کمی تھی۔
 
موریس فلاناگن ایک برطانوی بزنس مین جو ایمیریٹس کے سی ای او تھے، کو صرف پانچ ماہ میں دبئی کے لیے ایک ایئرلائن شروع کرنے کی درخواست کی گئی۔ لیکن عملے حتیٰ کہ ہوائی جہاز کے بغیر وہ اتنی جلدی ایک نئی ایئر لائن کیسے بنا سکتے تھے؟
 
image
 
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) قدم قدم امارات کے نئے منصوبے میں پیش پیش تھی نئے منصوبے نے ایک نئی ایئر لائن کے آئیڈیا کے ساتھ پی آئی اے سے رابطہ کیا جس کے جواب میں انھیں بھرپور تعاون فراہم کیا گیا۔ 10 ملین ڈالر کے بجٹ سے ایمریٹس دو طیارے کرائے پر لے سکتا تھا، ایئر لائن کو چلانے میں انتظامی معاونت اور انجینئرنگ کی مدد بھی درکار تھی۔ شروع کی فلائیٹس میں امارات کا عملہ پی آئی اے کے عملے کی معاونت میں کام کرتا رہا۔ اس مقصد کے لئے نئی ایئر لائن ایمریٹس کو دو طیارے کرائے پر دئے گئے وہ یہ تھے: ایک بوئنگ 737-300، دوسرا ایئر بس A300B4-200
 
ان پہلی پروازں کے لیے کراچی، پاکستان کے ائیر پورٹ کو استعمال کیا گیا۔ دونوں طیارے پی آئی اے کے ذریعے چلائے گئے لیکن ایمریٹس اسٹاف کے ساتھ۔ چونکہ ایمریٹس کے پاس ابھی تک کوئی اپنا پروفیشنل عملہ نہیں تھا اس لیے انہیں پی آئی اے کے پائلٹ اور ان کے عملے کے ساتھ جہاز میں سفر کرنا تھا۔ پی آئی اے کی جانب سے فراہم کی جانے والی اضافی تربیت کے ساتھ، ایمریٹس کے ذریعے عملے کے نئے ارکان کو آہستہ آہستہ بھرتی کیا گیا۔
 
ایمریٹس نے اپنے پہلے سال میں ممبئی اور دہلی کے لیے ان طیاروں کا استعمال کیا یہاں سے انھوں نے اگلے پانچ سالوں میں عمان، کولمبو، قاہرہ، ڈھاکہ، مالے، فرینکفرٹ، استنبول، دمشق، جدہ، کویت کے لیے بھی پروازیں کیں۔
 
image
 
1985 میں دبئی کی ایمریٹس ایئر لائن ایئر بس 300، صبح 11.45 پر دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کراچی کے لیے روانہ ہوئی۔ پرواز پر ماریس فلاناگن، ڈیناٹا کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور دبئی سول ایوی ایشن کے متعدد اہلکار موجود تھے۔ یہ عملے کے تمام 11 ارکان کے لیے خوشی کا دن تھا جس کی سربراہی کیپٹن جنادی کر رہے تھے۔ ایمریٹس کی دن کی دوسری پرواز دبئی کے لیے کراچی سے شام 5.00 بجے کے بعد بہت سے پرجوش مسافروں کے ساتھ روانہ ہوئی مسافروں نے نئی ایئر لائن میں سفر کرنے والے پہلے افراد میں شامل ہونے پر انتہائی فخر محسوس کیا۔ دبئی واپسی پر فلاناگن نے تبصرہ کیا کہ ایمریٹس کا آغاز ایک اچھا اور امید افزا تھا۔
 
اب پی آئی اے کے بارے میں جانتے ہیں۔۔۔۔۔
پی آئی اے کی بنیاد 29 اکتوبر 1946 کو اورینٹ ایئر ویز کے طور پر رکھی گئی تھی اور 1947 میں نئی آزاد ریاست پاکستان میں آپریشنز منتقل کرنے سے پہلے اس کی بنیاد کلکتہ برطانوی ہندوستان میں تھی۔جب پاکستان 1947 میں قائم ہوا تو یہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی دونوں علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس طرح غیر معمولی حالات میں پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن کا قیام عمل میں آیا۔ جنگوں اور معاشی پریشانیوں کے باوجود اس کی کارکردگی ماضی میں بہترین رہی ۔ لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں اس کا معیار برقرار رکنا تو درکنار یہ اپنی حیثیت اور اہمیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس کے زوال کی وجوہات میں حالیہ دہائی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، غیر ضروری ملازمین کی بھرتی، مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، سیاسی اثر و رسوخ، اور پی آئی اے کی غیر یقینی مالی حیثیت سبھی اہم مسائل ہیں۔ اس کی ناکامی بنیادی طور پر کمزور گورننس، ناقص کارکردگی اور بدعنوانی ہے۔۔۔۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
YOU MAY ALSO LIKE: