معزز سموسہ

موسم بہت خوشگوار تھا۔ہلکی ہلکی بوندہ باندی جاری تھی ۔ایسے موسم میں گرم گرم پکوڑے اور سموسے پاکستانیوں کی کمزوری ہے۔ خصوصاً سموسے کھانے کو تو ہر دل مچلتا ہے۔گھر واپس جاتے ہوئے میں نے سڑک پر دائیں بائیں دیکھا تو ایک جگہ گرما گرم سموسے تیار ہوتے نظر آئے۔ فوراً گھر والوں کو اس موسم کی سستی عیاشی کرانے کی سوچا ،گاڑی روکی اور دکاندار کو چھ سموسے دینے کا کہا۔ قیمت ادا کرنے کو پانچ سو کا نوٹ دیا تو واپس تھوڑے سے پیسے ملے۔ ایک صدمہ سا محسوس ہوا کہ پانچ سو کا نوٹ اور یہ کیا مذاق کر رہا ہے۔میں نے دکاندار سے پوچھا کیا دے رہے ہو۔کہنے لگا ایک سو چالیس، ساٹھ روپے کے حساب سے چھ سموسے تین سوساٹھ کے تھے، بقیہ آپ کو دے دیا ہے۔ ساٹھ روپے کا سموسہ سن کر میں پریشان ہو گیا۔خریدنے والوں میں کچھ لوگ واپس چل پڑے ۔پہلے میرا جی چاہا کہ سموسے واپس کر دوں مگر اتنے سارے سموسے خریدنے والوں کے بیچ، سموسے واپس کرتے ہوئے کچھ بے عزتی کا خیال، میں سموسے پکڑے منہ لٹکائے واپس گاڑی میں آ گیا۔موجودہ وقتی لوگوں کی حکمرانی کا ایک فائدہ مجھے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کو شاید کچھ ہوا ہے یا نہیں مگر سموسے کو ضرور ہواہے۔اتنی معقول قیمت ،اب سموسہ معزز ہو گیا ہے۔پہلے اسے عام آدمی اپنی عیاشی سمجھتا تھا اب یہ امرا کی خوراک ہو گی۔سموسے کی طرف سے حکمرانوں کا شکریہ۔

جب تک سموسے کی قیمت بیس روپے کے لگ بھگ تھی ہر آدمی منہ اٹھا کے سموسوں کی دکان پر جاتا اور دو تین سموسے کھا کر چلا آتاتھا۔ بہت سے لوگ تو زیادتی یہ کرتے کہ دوپہر کے کھانے کے طور پر دو سموسے اپنے لئے کافی جانتے۔ گھر میں پانچ سات مہمان آ جائیں تو گھر والوں کو کوئی خاص تردد کرنا نہ پڑتا۔ بس پانچ سات سموسوں میں انہیں آسانی سے ٹرخا دیتے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ مہمان بھی اس سستی چیز پر اعتراض نہ کرتے بلکہ خوشی سے کھاتے۔ اچھے سموسوں کے ذائقے کی تعریف کرتے۔رمضان کے مہینے میں تو سموسے بنانے والے برساتی مینڈکوں کی طرح بازاروں میں نظر آتے ہیں۔ اتنا سموسہ بکتا ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ۔لوگ بغیر سوچے کہ اتنی بڑی تعداد میں سموسوں کا بنانا معیشت کے لئے سود مند بھی ہے کہ نہیں، سموسوں کو افطاری کے وقت اپنے دستر خوان کی زینت بناتے ۔مگر یہ سب عیاشی عام آدمی تک محدود تھی۔ آج ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو عیاشیوں پر پابندی کے حوالے اسے محدود کرنے کے بارے سوچنا تو حکومت ہی کو ہے۔ اس نے سموسہ عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا ہے تا کہ معیشت پر بوجھ کم ہو۔مگر یہ جو عام لوگ ہیں،سوچتے ہی نہیں ۔بیچارے غریب اور مڈل کلاسیئے۔ حکومت نے بڑی چابکدستی سے اس عیاشی کو سمیت دیا ہے۔ اب سے پہلے امرا اور ایلیٹ کلاس میں سموسے کی وہ عزت نہ تھی جو کیک پیسڑی اور دوسری بیکری مصنوعات کی ہو تی تھی۔ مگر یہ اس حکومت کا سموسے پر احسان ہے کہ اس نے سموسے کو بھی ، پیسٹری ، پیٹیز اور دوسری بیکری اشیا کے ہم پلہ کر دیا ہے۔ میں چونکہ ایک عام آدمی ہوں اس لئے سوچتا ہوں کہ پٹرول کے بعد پاکستان میں سب سے پاپولر چیز جس کی مہنگائی نے عام لوگوں کوشدید دھچکا دیا ہے وہ سموسہ ہے۔ کم از کم میں تو ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آسکا۔

ساٹھ کی دہائی میں مجھے یاد ہے ایک آنے کے دو سموسے آتے تھے۔ جس دن جیب میں دو پیسے ہوتے ، آسانی سے ایک سموسہ لینا اور کھا لینا۔ ایف ایس کے دوران چونکے ہم بڑے ہو گئے تھے اسلئے اس زمانے میں کچھ دانشوری بھی ذہن پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم نے روزانہ اپنے دوستوں کے ساتھ ریگل چوک چلے جانا۔ مزنگ کے رہائشی ہو نے کے سبب وہ قریب بھی تھا۔ ریگل چوک کے سموسے دو آنے کی پلیٹ میں دو سموسے ، دہی کی چٹنی ، وزنی سموسہ جس کے اندر آلو، پیاز اور کچھ دیگر سبزیوں کی بنی ہو ئی لذیذپیسٹ جسے بھاجی کہتے ہیں، بھری ہوتی ،کھانے کا مزہ آ جاتا۔ وہاں سے اٹھ کر ہم ریگل چوک کی مال روڈ والی راہ داری میں آ جاتے وہاں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا جس نے موڑھے رکھے ہوئے تھے۔ہم نے وہیں چائے پینی اور دو ، ڈھائی گھنٹے اس وقت کی عقل کے مطابق عالمانہ یا احمقانہ انقلابی گفتگو کرنی اور گھر لوٹ آنا۔ماڈل ٹاؤن رہے تو اے بلاک مارکیٹ کے پہلوان کے سموسے بہت کھائے مگر اب پٹرول اور سموسے دونوں کا سوچ سوچ کر دل جلتا ہے۔

سموسے کی کئی شکلیں اور کئی قسمیں ہیں۔ یہ بعض جگہ آپ کو آدھے چاند کی شکل میں بھی ملے گا۔پشاور میں میٹھا سموسہ ہوتا ہے اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ۔ کراچی میں کاغذی سموسہ ملتا ہے اس لئے کہ اس کی جلد بہت باریک ہوتی ہے۔ سبزیوں کے سموسوں کے علاوہ گائے، بکرے اور مرغی کے گوشت کے سموسے بھی ملتے ہیں۔ بھارت کے جنوب میں چھوٹے سائز میں موٹا سا سموسہ ہوتا ہے جس کو وہ لوگ سنگھاڑہ بولتے ہیں۔ ویسے سنگھاڑہ بر صغیر میں ایک پھل ہوتا ہے جو چھوٹے سموسے ہی کی مانند ہوتا ہے۔مالدیپ میں لوگ سموسوں میں مچھلی یا ٹونا ،پیازکے ساتھ ڈالتے ہیں۔ چین میں ایک بھدی سی شکل کا موٹا سا سموسہ ہوتا ہے ۔ اسے بھاپ پر پکایا جاتا ہے،اس کے اندر ساگ کی طرح کی کوئی پیسٹ ہوتی ہے۔مجھے ایک جگہ ایک چینی دوست نے اسے کھانے کی دعوت دی ۔ میں نے وہ کھایا۔ اس میں نمک مرچ میرے ذائقے کے مطابق نہیں تھی۔ مجبوراً کھانا پڑا۔ اس دوست نے پوچھا، مزے دار تھا۔ میں نے اس کا دل رکھنے کی خاطر کہا،’’بہت مزیدار تھا‘‘اس نے جھٹ سے میری پلیٹ میں ایک اور ڈال دیا۔ اب مجھے دوسرا بھی کھانا پڑا۔اس نے ایک بار پھر پوچھا کہ مزیدار تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ دیکھا وہ تیسرا ڈالنے کے موڈ میں تھا۔ میں نے پلیٹ اٹھائی ۔ اسے پیچھے رکھا اور پھر کہا کہ بھائی بہت مزیدار تھا مگر میں اس سے زیادہ دوستی کی سزا نہیں بھگت سکتا۔ وہ سمجھ گیا اور ہنسنے لگا۔ سنٹرل ایشیا کے بہت سے ممالک میں سموسے میں گوشت کے ساتھ کاجو، پستہ اور ایسی بہت سی دوسری چیزیں ڈالی جاتی ہیں۔ سموسے کی ابتدا بھی شاید اسی علاقے سے ہوئی ہے، دسویں صدی سے بہت سی عربی کتابیں،جن میں پکوانوں کے بارے لکھا گیا ہے ،سموسے کا بھی ذکر ہے اور اس کی تیاری کے تمام مراحل کا بتایا گیا ہے۔ دنیا کے جس ملک میں جائیں،چاہے وہ ایشیا، افریقہ، امریکہ ،یورپ ، آسٹریلیا یا کسی جگہ بھی ہوو، سموسہ آپ کو کسی نا کسی صورت نظر آئے گا مگر اس کے اندر کیا ڈالا گیا ہے اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر ملک کے لوگ اپنے ذائقے کے مطابق اس میں ڈالنے والی اشیا تیار کرتے ہیں۔ہر معاشرے کی طرح سموسہ ہمارے معاشرے کا بھی ایک لازمی جزو ہے ۔ حکومت کی طرف سے اس کے خاتمے کی ہر کوشش عوام کے ساتھ زیادتی ہے اور میرے جیسے لوگ اس پر سراپا احتجاج ہیں۔

تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500303 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More