فطری طور پر نر زات دہندہ ہے اور مادہ قبولندہ
symbolically بھی نر اور مادہ کو دیکھ لیں (♂ ♀ ) مرد جو قدرتی طور پر
بانٹنے کے لئے ہے اور عورت قبول کرنے کے لئے۔ جنت میں بھی ایک مرد کے لئے
کئی کئی حوریں ہونگی پر کئی عورتوں کے لئے صرف ایک مرد ہی کافی ہے۔ جانوروں
کے جھنڈ میں بھی صرف ایک الفا نر ہوتا ہے اور کئی مادائیں۔ فطرت سے انکار
نری بیوقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جنت میں آپکی اپنی بیویاں حوروں کی سردار
ہونگی ، دنیا میں ان عورتوں کو یہ فطرت قبول نہیں جو جالی خودساختہ بنائی
ہوئی فطرت ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کے فطرت کے خلاف ہے پر جب جنت میں یہی
عورت یعنی آپکی بیوی حوروں کے جھرمٹ میں سردار بنی بیٹھی ہونگی تو ان کی
نفسیات ایک دم سے تبدیل کیسے ہوجائیگی اور ان عورتوں کو یہ نفسیات قبول بھی
ہوگی اور خود پر رشک بھی کریں گی، دنیا میں ہر فطرت کی جھلک ہے پر ہر خواہش
دنیا میں پوری نہیں ہوگی خواہش کی آخری حد صرف جنت میں پوری ہوگی۔
پس تم نکاح کرو جو تمھیں پسند آئیں دو دو، تین تین، چار چار, (قرآن) .
مرد کے اندر عورت کی نسبت oxytocin ہارمون کی مقدار کم پیدا ہوتی ہے جس کی
وجہ سے وہ اس قدر شدید اٹیچمنٹ محسوس نہیں کرتا اس کے برعکس جنسی ہارمونز
مرد میں زیادہ ہوتے ہیں اس لیے مرد کا زیادہ عورتوں کی طرف راغب ہونا فطری
بنتا ہے اسی لیے کثرت ازدواج درست ہے اگر کسی عورت کو یہ پسند نہیں تب بھی
انسانی جسم خاص کر مرد کا جسم اس ازدواج کے معملے میں تو ایسے ہی کام کرتا
ہے اور کرتا بھی رہے گا کیونکہ مرد کی پروگرامنگ کم از کم اس معملے میں تو
کچھ اسی طرح سے کی گئی ہے لیکن پھر بھی مرد کی اس فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے
دین اسلام مرد کو نکاح کی اجازت دیتا ہے بیراہروی اور بےحیائی کی کبھی نہیں۔
|