آج کل لوگوں میں کچھ زیادہ ہی رجحان دیکھنے کو ملتا ہے یا
شاید مجھے بھی آدھی زندگی گزارنے کے بعد اب سمجھ آیا ہے کہ لوگ اللہ ، رسول
، قرآن اور دین کی بات کیوں سنا نہیں چاہتے۔
معاشرہ اتنا مٹیریلسٹک اور سیلف سینٹرڈ ہو چکا ہے کے صرف بچے کی پیدائش،
شادی کی خبر، سالگرہ اور آفس میں کوئی نئی پوزیشن یا نیا گھر یا پھر گاڑی
خریدنے کی خبروں پر یا عید پر مبارک باد دینا یا پھر بہت ہوگیا تو زیادہ سے
زیادہ کسی کی انتقال کی خبر پر إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
رَاجِعُون لکھنا عین فرض اور دین کا کام سمجھتے۔
ان سے جب ڈائریکٹ یا انڈائیریکٹ وے میں اللہ رسول کی یا قرآن کی روشن آیات
کے بارے میں باتیں کرو تو یہ ان باتوں کو سنا سمجھنا اور غور کرنا تو
درکنار ان باتوں کے اوپر کوئی ری ایکشن یا کمنٹ دینا اپنی توہین یا وقت کا
زیاہ سمجھتے ہیں یا پھر شاید ان لوگوں کی نفسیات پر دین کے معاملے میں کسی
قسم کے کوئی شکوک اور شبہات ہیں۔
میں نے بہت کم ہی کارپوریٹ کلچر کے مارے لوگوں کو دیکھا ہے جو دین کی باتیں
کرتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہوں۔ ( آٹے میں نمک کے برابر) دیکھا یہ
گیا ہے یہ لوگ صرف اپنے مینیجرز کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر
گزرتے ہیں میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کے بہت سے ماتحت اپنے مینیجرز کے لئے
لڑائی جھگڑے کے لئے بھی تیار ہوجاتے ہیں اور اپنی جان تک قربان کرنے کو
کھڑے ہوجاتے ہیں، حالانکہ اس کے برعکس آدم کے بچوں کا اور تمام رسولوں اور
پیغمبروں اور صحابہ اور اہل بیت کا اصل کام اللہ کے نظام کے آگے کوئی نظام
کو فوقیت نہیں دینا ہے اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی سنت بھی یہی ہے کے وہ لوگوں کے سامنے پہلے قرآن کی آیت تلاوت کرے پھر
اسکو کھول کھول کے سمجھائے لیکن یہ جراتمندانہ اقدم کون کرسکتا ہے ؟؟
جراتمندانہ عمل تو ہم نے اللہ کے بجائے مینیجرز کو خوش کرنے کے لئے رکھا
ہوا ہ کیونکہ ہم لوگ قرآن اور اس کی تعلیمات سے دور نکل چکے ہیں اور اللہ
کی آیات کو جو کے روشن دلیلیں ہیں اس کو جھٹلا رہے ہیں ، مجھے بتائے
جھٹلانا پھر کس کو کہتے ہیں ؟ دیکھ رہے ہیں سمجھ رہے ہیں پر عمل نہیں کر
رہے تو اس کا مطلب کیا ہے پھر ؟؟ چلیں یہی سمجھ لیں کے آج نہیں کل عمل کر
لینگے تو اس کا بھی مطلب یہی ہوانا کے ایک اللہ کی آیت آپ کے سامنے واضع
ہوگئی اور آپ کو سمجھ بھی آگئی پر عمل کسی اور دن کے لئے اٹھا کے رکھ دیا
جیسے کے موت اور زندگی کا ہم کو علم ہے ۔
اللہ اپنے نبی سے مخاطب ہو کر سورہ مائدا میں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ "اے
رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا
دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ
کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت
نہیں دیتا"
یعنی اللہ خود یہ کہہ رہا ہے کے کس بات کا ڈر ہے ہم خود تم کو بچا لینگے،
لیکن آج ہم کو خوف ہے کے کہیں نوکری نہ چھوٹ جائے، کہیں باس نہ ناراض
ہوجائے، کہیں کلائنٹ کے ساتھ ہماری کارپوریٹ ریلیشن شپ نہ خراب ہوجائے،
جبکہ اللہ خود بتا رہا ہے کے تم تک جو علم اتارا گیا ہے لوگوں تک پہنچا دو
اور ڈرو نہیں تمھاری جان ہم بچا لینگے ، اللہ دین نافظ کرنا چاہ رہا ہے اور
ہم دونمبر سیلز اور اچ آر پالیسی بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور پھر سارا وقت
دن رات اسی کام میں الجھ کر ڈپریشن اور انزائیٹی جیسی مختلف نفسیاتی
بیماریوں میں مبتلہ ہوتے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر لوگوں کو کسی قسم کا اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے انکو بس آفس
پالیسی کا ڈر ہے کیونکہ دین ہماری ترجیحات میں نہیں۔ ہم اپنے مینیجرز کو
دیکھ کر اسکی پسند اور نا پسند اور اسکی نفسیات کو سمجھ کر کام کرتے ہیں
تاکہ دنیا میں اس کا صلاح مل سکے کیونکہ ہم بہت زیادہ میٹیریئلسٹک اور سیف
سینٹرڈ ہو چکے ہیں۔
کیا ہم آخرت کو بھول گئے ہیں ؟؟ اس کا جواب ہم خود اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ
کر دے سکتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو حق بات کرنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا کرے اور اس کرہ ارض زمین پر صرف اللہ کا نظام قائم کرنے کی طاقت
اور جرات عطا کرے۔ |