#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالحدید اٰیت 1 تا
6اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سبح للہ ما
فی السمٰوٰت والارض و
ھو العزیز الحکیم 1 لہ ملک
السمٰوٰت والارض یحی ویمیت
وھو علٰی کل شئی قدیر 2 ھوالاول
والاٰخر والظاھر والباطن وھو بکل شئ
علیم 3 ھوالذی خلق السمٰوٰت والارض فی
ستة ایام ثم استوٰی علی العرش یعلم مایلج فی
الارض وما یخرج منہا وما ینزل من السماء وما یعرج
فیھا وھو معکم این ما کنتم واللہ بما تعملون بصیر 4 لہ
ملک السمٰوٰت والارض والی اللہ ترجع الامور 5 یولج الیل
فی النہار ویولج النھار فی الیل وھو علیم بذات الصدور 6
آسمان و زمین میں جہاں پر جو حرکت و عمل جاری ہے وہ عالٙم کے حُکمِ اعلٰی و
حکمتِ اعلٰی سے جاری ہے کیونکہ حرکت و عمل کے اِس سارے عالٙم پر اُسی ایک
کی حُکمرانی ہے اِس لئے جو چیز زمین پر لائی جاتی ہے اُس کے حُکم سے لائی
جاتی ہے اور جو چیز زمین سے ہٹائی جاتی ہے اُس کی حکمت سے ہٹائی جاتی ہے ،
اِس قانُونِ عالٙم کے مطابق اِس عالٙم میں جس وقت جو کُچھ بھی ہوتا ہے وہ
اُس کے علم میں ہوتا ہے کیونکہ انسانی خیال میں آنے والی ہر پہلی شئی سے
پہلے اُسی کی ہستی موجُود ہے اور انسانی خیال میں آنے والی ہر آخری شئی کے
بعد بھی اُسی کی ہستی موجُود ہے لہٰذا اِس عالٙم میں جو چیز ورائے نظر ہے
اُس میں اُس کی ذاتِ عالی جلوہ گر رہتی ہے اور جو چیز ماورائے نظر ہے اُس
میں بھی اُسی کی ذاتِ عالی جلوہ گر ہوتی ہے اِس لئے اِس عالٙمِ ظاہر و باطن
کی ہر ایک شئی اُس کے سامنے ہمہ وقت جلوہ گر ہوتی ہے ، پہلی بار جب چھ طویل
المُدت زمانوں میں زمین و آسمان کی اِس اٙدنٰی شکل کو اُس نے مُتشکل کیا
تھا تو اُس کے بعد اُس نے عالٙمِ اٙعلٰی کو وُسعت دینے کا عزم کر لیا تھا
اور ماضی و حال کے ہر زمانے سے لے کر مُستقبل کے ہر زمانے تک تخلیق کی جو
چیز زمین کے پردے میں جا رہی ہے اور تخلیق کی جو چیز زمین کے پردے سے باہر
آرہی ہے یا تخلیقی عمل کی جو چیز آسمان کی بلندی سے زمین پر آرہی ہے یا
تخلیقی عمل کی جو چیز زمین کی پستی سے اُٹھ کر آسمان کی بلندی میں جا رہی
ہے اور اُس تخلیقی چیز کے ساتھ تُم زمین و آسمان میں جہاں جا رہے ہوتے ہو
اور جہاں سے آرہے ہوتے ہو وہ ہر جگہ پر تُمہارے ساتھ ہوتا ہے اور تُمہاری
ہر نقل و حرکت کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور زمین و آسمان میں اُس کی جس مخلوق
کے ذریعے جو کام اٙنجام دیئے جاتے ہیں اور جس مخلوق کے لئے اٙنجام دیئے
جاتے ہیں وہ سارے کام شٙب کے دن میں اور دن کے شب میں ڈھلنے کے نظامِ عمل
کے مطابق اُس کے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی ہر مخلوق کے ظاہری
اعمال کی طرح اُس کے قلبی احوال سے بھی باخبر ہوتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی بیشتر سُورتوں کی طرح اِس سُورت کا پہلا مضمون بھی قُرآن کا
وہی مقصدی مضمون توحید ہے جس مضمون کی تعلیم و تفہیم کے لئے اللہ تعالٰی نے
اِس عالٙمِ خلق کو تخلیق کیا ہے اور اِس عالٙمِ خلق میں قُرآن نازل کیا ہے
، اِس سُورت کی پہلی چھ اٰیاتِ توحید کے بعد آنے والی پانچ اٰیات میں انسان
کو توحید پر ایمان لانے اور پھر انسانی ملّت کو توحید کے اِس ایمان و
اعتقاد کی وحدت میں مُنسلک کرکے ایک انسانی وحدت بنانے کے لئے عدلِ اجتماعی
کا وہ حُکم دیا گیا ہے جس عدلِ اجتماعی کے تحت عالٙم میں عالٙم کے قُدرتی
وسائل کی تقسیم کا پہلا عادلانہ حُکم قُرآن نے سُورٙةةالمائدہ کی اٰیت 8
اور سُورٙةُالاٙنعام کی اٰیت 152 میں حُکم دیا ہے اور وسائلِ عالٙم کی اِس
عادلانہ تقسیم کے بعد قُرآن کی دُوسری تقسیم وہ رضاکارانہ تقسیم ہے جس
رضاکارانہ تقسیم کی رُو سے جو انسان اپنی زیادہ محنت کے بعد کُچھ زیادہ
سرمایہ حاصل کرلیتا ہے تو وہ اُس زیادہ سرمائے میں اُن اٙفرادِ معاشرہ کو
بھی شامل کر لیتا ہے جن اٙفرادِ معاشرہ کو کسی بیماری یا معذوری کے باعث کم
محنت کا موقع ملا ہے اور اتنا کم سرمایہ مُیسر آیا ہے جس سے اُن کے خاندان
کی کفالت مُمکن نہیں ہوسکتی ، قُرآن نے انسان کے اِس عملِ خیر کو قرضہِ
حسنہ کا نام دیا ہے اور اِس قرضہِ حسنہ کا اِس سُورت کے علاوہ
سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 245 , سُورٙةُالمائدة کی اٰیت 12 , سُورٙةةالتغابن
کی اٰیت 17 اور سُورٙہِ مُزمل کی اٰیت 20 میں بھی ذکر کیا ہے ، اِس قرضہِ
حسنہ سے مُراد انسان کا انسان کو دیا ہوا وہ قرضہِ حسنہ ہوتا ہے جو ایک
انسان دُوسرے انسان کو اپنے زٙرِ اٙصل پر کوئی اضافی زٙر حاصل کرنے کی نیت
و شرط کے بغیر محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے دیتا ہے اور اگر وہ مقروض
انسان اپنی کسی مجبوری کے باعث وہ قرض واپس نہیں دے سکتا تو وہ اُس سے کوئی
تعرض بھی نہیں کرتا اِس لئے اللہ تعالٰی اُس کشادہ دل و کشادہ دست انسان کو
اُس کے اُس قرضہِ حسنہ کا بدلہِ بھی اُس کی توقع سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا
کر دیتا ہے ، اِن گیارہ اٰیات کے بعد آنے والی تیرہ اٰیات میں اہلِ سخاوت
کے اٙچھے اٙنجام اور اہلِ بُخل کے بُرے اٙنجام کی وہ تفصیل بیان کی گئی ہے
جو تفصیل اہلِ سخاوت کے لئے قُدرتی طور پر راحتِ دل کا اور اہلِ بُخل کے
لئے قُدرتی طور پر رٙنجِ دل کا باعث ہو سکتی ہے اور اپنی اِس دلی کیفیت کو
محسوس کرکے اپنے دل میں مناسب تبدیلی لا سکتے ہیں ، اِن چوبیس اٰیات کے بعد
اِس سُورت کی 25ویں اور 26ویں اٰیت میں اِس سُورت کا وہ نفسِ موضوع ہے جس
میں اُس حدید { لوہے } کی مُثبت ہیت اور مٙنفی ہیبت ذکر کیا گیا ہے جو
ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار قبل مسیح میں شروع ہوا ہے اور
اِس سُورت کی آخری تین اٰیات کا آخری مضمون مسیح علیہ السلام کی نرم دل
اُمت کے بعض سنگ دل اٙفراد کی اُن دینی بدعات کی تفصیل پر مُشتمل ہے جن
دینی بدعات کے ضمنی اشارات میں لوہے کے آلات بنانے اور استعمال میں لانے کی
وہ مٙنفی بدعات بھی شامل ہیں جن مٙنفی بدعات کا سلسلہ اُس زمانے سے شروع ہو
کر عہدِ حاضر تک جاری ہے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اِن تباہ کُن بدعات
کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا کیونکہ فی زمانہ لوہے کے اِس مٙنفی استعمال کی
اِن مٙنفی بدعات میں دُنیا کی دیگر اقوام بھی پوری طرح شامل ہو چکی ہیں ،
اِس سُورت کے اِس مضمون کا حاصل یہ ہے کہ حدید { لوہا } اللہ تعالٰی نے
اعتقادِ توحید کی تجدید کی غرض سے انسان کو دیا ہے اعتقادِ توحید کی تحدید
کی غرض سے نہیں دیا ہے تاہم اِس اٙمر کی مزید تفصیل اُسی مقام پر آئے گی جس
مقام پر اِس کا ذکر آئے گا !!
|