بچپن میں پڑھے ہوئے عمران سیریز کے ناول جب یاد آتے ہیں
تو علی عمران اور پردہ نشین ایکس ٹو جیسے لازوال کردار آنکھوں کے سامنے
گھوم جاتے ہیں ان لازوال کردواروں کے تخلیق کار ابن صفی اردو کے عظیم اور
خوبصورت جاسوسی مصنف تھے جنہیں پڑھتے پڑھتے ہم لوگوں نے نہ صرف عملی دنیا
میں قدم رکھابلکہ اپنی اردو بھی اتنی اچھی کرلی تھی کہ ہر امتحان میں سب سے
زیادہ نمبر اردو میں ہی آتے تھے عمران سیریز سے شہرت حاصل کرنے والے اردو
ادب کے معروف ناول نگار ابن صفی کو ہم سے بچھڑے ہوئے 42 برس بیت گئے ابن
صفی 26 جولائی 1980 کو لبلبے کے کینسر کی وجہ سے 52 سال کی عمر میں انتقال
کر گئے انہیں کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیااﷲ تعالی ابن
صفی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔ ابن صفی26جولائی 1928ء
کوالہ آباد اتر پردیش میں پیدا ہوئے ان اکا صل نام اسرار احمد تھا والد کا
نام صفی اﷲ اور والدہ کا نام نذیراں بی بی تھا اسی لیے وہ اپنا نام ابن صفی
لکھتے تھے ابن صفی نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول نارا میں حاصل کی
جب وہ صرف آٹھ سال کے تھے تو انہیں طلسم حشربہ کی پہلی جلد پڑھنے کا موقع
ملا ابن صفی نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو
ان کی پہلی کہانی ہفتہ وار شاہد میں شائع ہوئی جسے عادل رشید نے ایڈٹ کیا
ابن صفی نے آٹھویں جماعت میں شاعری شروع کی وہ مشہور شاعر جگر مراد آبادی
سے متاثرتھے ابن صفی نے اپنی سیکنڈری اسکول کی تعلیم الٰہ آباد میں حاصل کی
کیونکہ اس وقت تک ان کا خاندان نارا سے منتقل ہو چکا تھا الہ آباد انڈیا
میں میٹرک کے دوران کچھ عرصے کے لیے وہ کمسن کمیونسٹوں سے جڑ گئے اور سماجی
برائیوں کے خلاف شاعری شروع کی تاہم جلد ہی وہ اس گروہ اور اس کے نظریات سے
دور ہو گئے تحریک آزادی کے دوران اور اس کے بعد، انہیں اپنے نظریات کی وجہ
سے ترقی پسند بھی قرار دیا گیا اور ہندوستان میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ
جاری کیے گئے تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا ابن صفی نے
1955ء میں خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھاجس کے
کردار علی عمران کو راتوں رات شہرت حاصل ہوئی ابن صفی نے طنزیہ اور مزاحیہ
مضامین بھی لکھے لیکن انہیں اصل پذیرائی عمران سیریز کے جاسوسی ناول لکھنے
سے حاصل ہوئی انہوں نے عمران سیریز کے کم وبیش ڈھائی سو ناول لکھے اور ان
جاسوسی ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی
بھی نیا ناول بک سٹال تک پہنچتے پہنچتے ختم ہو جاتا تھا انہوں نے سب سے
پہلے 1940 کی دہائی کے برطانوی ہندوستان سے اور بعد میں 1947 میں آزادی کے
بعد پاکستان سے لکھا ان کی اہم تصانیف 125 کتابوں کی سیریز جاسوسی دنیا اور
120 کتابوں پر مشتمل عمران سیریز ہیں ان کے ناولوں میں اسرار، ایڈونچر،
سسپنس، تشدد، رومانس اور کامیڈی کے امتزاج کی خصوصیت تھی جس نے جنوبی ایشیا
میں ایک وسیع قارئین میں بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی انہوں نے آگرہ
یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی 1948 میں انہوں نے پہلی ملازمت
نخت پبلی کیشنز میں شاعری کے شعبے میں بطور ایڈیٹر شروع کی انہوں نے الہ
آباد یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی جہاں وہ پروفیسر محمد عزیر کے کلاس
فیلو اور مصطفی زیدی سے ایک سال سینئر تھے 1950 کی دہائی کے اوائل میں ایک
سیکنڈری اسکول ٹیچر کے طور پر کام اور جز وقتی تعلیم جاری رکھتے ہوئے ناول
لکھنا شروع کیا پھر اگست 1952 میں کراچی میں 'اسرار پبلیکیشنز' کے نام سے
اپنی کمپنی بنا لی 1953 میں ابن صفی کی ام سلمیٰ خاتون سے شادی ہوئی ۔ 1960
سے 1963 کے عرصے میں وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوئے اور کچھ وقت ہسپتال کے
نفسیاتی وارڈ میں گزارا اور پھر صحت یاب ہو کر عمران سیریز کے سب سے زیادہ
فروخت ہونے والے ناول کے ساتھ واپس آئے جس کے بعد انہوں نے جاسوسی دنیا کے
36 ناول اور عمران سیریزکے 79 ناول لکھے ابن صفی نے بچپن میں ہی شاعری شروع
کر دی اور جلد ہی پورے جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں تنقیدی پذیرائی حاصل کی
اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے مختصر کہانیاں، طنز و مزاح
اور طنز کو مختلف ناموں سے لکھنا شروع کیا کئی طنزیہ مضامین شائع کیے جن
میں سیاست سے لے کر ادب اورصحافت تک مختلف موضوعات پر تبصرہ کیا گیا ایک
ادبی اجلاس میں کسی نے دعویٰ کیا کہ اردو ادب میں جنسی موضوعات کے علاوہ
کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے اس تصور کو چیلنج کرنے کے لیے ابن صفی نے جنوری
1952 میں ماہنامہ نخت میں جاسوسی کہانیاں لکھنا شروع کیں جس کا نام جاسوسی
دنیا تھا۔ 1955 میں ابن صفی نے عمران سیریز کا آغاز کیا جس نے جاسوسی دنیا
جتنی شہرت اور کامیابی حاصل کی ان کی تحریر کا جادوئی جال اس قدر دلفریب ہے
کہ یہ تصوراتی زمینیں قارئین کے ذہنوں میں حقیقت بن گئی ہیں شوقین قارئین
شکرال، قراغل، مقلاق، زیرولینڈ اور بہت سے دوسرے خیالی علاقوں کے لوگوں اور
ثقافتوں کے ماہر ہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے آس پاس کے شہروں میں ابن
صفی کے ناولوں میں پائے جانے والے مقامات کے نام پر ڈسکوتھیکس، بار، نائٹ
کلب اور ہوٹل مل سکتے ہیں کچھ قابل ذکر مقامات دلکوشا، فگارو، نیاگرا، ٹپ
ٹاپ، ہائی سرکل ہیں طنز و مزاح کے علاوہ انہوں نے کچھ مختصر مہم جوئی بھی
لکھی جیسے بلدراں کی ملکہ ، اب تک تھی کہاں؟ ، شمل کا فتنہ ، گلترنگ اور
معزز کھوپڑی ان مہم جوئی میں ابن صفی قاری کو اپنے تخیل کی مختلف فرضی غیر
ملکی زمینوں تک لے جاتا ہے۔1959 میں ابن صفی نے انسان کی نفسیات پر مبنی
کتاب آدمی کی جڑیں لکھنا شروع کی تاہم ان کی بیماری کی وجہ سے یہ ادھورا رہ
گئی ابن صفی نے اپنے ناول بیباکون کی تلاش پر مبنی فلم دھماکاکی کہانی اور
اسکرین پلے لکھے ''دھماکا'' کو محمد حسین تالپور نے پروڈیوس کیا تھا
پاکستانی فلمی اداکار جاوید شیخ (اس وقت جاوید اقبال کے نام سے جانے جاتے
تھے) کو ظفر الملک کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جو کہ مرکزی کردار تھے
فلم میں محمد حسین تالپور (فلم پروڈیوسر) نے جیمسن کا کردار ادا کیا اور
اداکارہ شبنم نے صبیحہ کا کردار ادا کیا فلم میں ایکس ٹو کی آواز ابن صفی
نے ریکارڈ کی تھی اداکار رحمان نے پہلی بار ولن کا کردار نبھایافلم میں
گلوکار حبیب ولی محمد کی ایک غزل ''رہ طالب میں کون کسی کا'' پیش کی گئی
جسے ابن صفی نے لکھا تھا یہ فلم 13 دسمبر 1974 کو ریلیز ہوئی۔
|