صحرائے درخت 1

 یہ اس وقت کی بات ہے جب ٹریفک کا شور, سڑک پر موجود لائٹس اور موبائل جیسی ٹیکنالوجی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا…. جب سٹریٹ لائٹس کی روشنیوں کے بجائے سڑک پر چاند اور تاروں کی روشنی اور گھر میں موم بتی , دیے یا لالٹین کی روشنی سے ہر شے جگمگاتی تھی... جب لوگوں کے دلوں میں ایک دوسروں کے لیے نفرت اور حسد ہونے کے بجائے پیاراورمحبت ہوا کرتا تھا…. جب مصنف یا شاعر قلم سیاہی میں ڈبو کر لکھا کرتے تھے... یہ بہت حسین اور پرانے دور کی بات ہے۔

میں آج صبح ہونے سے پہلے ہی اٹھ گیا تھا اور آج کے دن مجھے صبح ہونے کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اس جگہ کے بارے میں کتنا سن رکھا تھا…. آج میں اس جگہ جا رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور اپنا تمام ضروری سامان ایک بڑے تھیلےنما بیگ میں ڈال کر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ ویسے تو اب مجھے ان چھوٹے موٹے سفر کرنے کی عادت ہو گئی تھی لیکن آج کے سفر کا مجھے بہت بے چینی سے انتظار تھا۔ میں کندھے پر اپنا بیگ ڈالے بڑے بڑے قدموں کے ساتھ چلتا گیا۔

سادہ بستی کا نام بہت سے لوگوں سے سن سن کر میں تھک گیا تھا۔ سادہ بستی ایک معمولی سی بستی تھی جہاں زیادہ تر چھوٹے زمیندار رہا کرتے تھے اور یہ میرے گاؤں سے زیادہ دور بھی نھیں تھی بس تھوڑا بہت فاصلہ تھا جو یقیناً دوپہر تک طے ہو جانا تھا۔ مجھے اچھی طریقے سے یاد ہے جب آخری دفعہ میں نیلی حویلی اور ہری پور گیا تھا تو وہاں پر مجھے کچھ اتنا خاص مزہ نہیں آیا تھا کیوں کہ گاؤں کے سبھی لوگوں نے یہ مشہور کردیا تھا کہ نیلی حویلی اور ہری پور میں بہت سے عجیب و غریب واقعات پیش ہو رہے ہیں۔ میں ان چیزوں میں شروع سے دلچسپی رکھتا ھوں لہذا میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ کوشش بھی کی کہ وہاں پر ہونے والے عجیب و غریب واقعات بھی دیکھو اور اس کے ساتھ کسی بھوت پریت سے ملاقات بھی کروں لیکن وہاں جانے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ایک ٹوٹی پھوٹی اندھیر حویلی کو لوگوں نے بھوت بنگلے کا نام دے دیا تھا۔ وہاں سے آنے کے کچھ عرصے بعد گاؤں کے لوگوں نے سادہ بستی کے واقعات مشہور کر دیے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ رات ہوتے ہی سادہ بستی میں موجود کسی جگہ پر ایک درخت کے نیچے کوئی عجیب سی مخلوق آتی ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جگہ پر کافی وحشت بھی ہے اور بہت سے لوگ وہاں سے غائب بھی ہو چکے ہیں۔

میں یہ بات سن کر پہلے تو کافی خوش ہوا کہ مجھے ایک بار پھر ایسی جگہ جانے کا موقع ملے گا لیکن لوگوں کے غائب ہونے والی بات سننے کے بعد مجھے کافی حیرانگی ہوئی کہ آخر یہ سب کون کر رہا ہے... مجھے امید تھی کہ یقیناً یہ کسی چور یا ڈاکو کی حرکت ہوگی جو لوگوں کو اس طریقے سے پریشان کر رہا ہے۔ اسی لیے میری سادہ بستی جانے میں دلچسپی اور بھی بڑھ گئی۔

ظہر کی اذان ہوتے ہی میں سادہ بستی پہنچ گیا۔ اب مجھے کسی بھی طرح اس درخت تک پہنچا تھا جہاں کے بارے میں یہ سب واقعات مشہور تھے۔ میں وہاں کی تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم موجود تھا۔ میں گھس گھسا کر اس ہجوم میں شامل ہوگیا۔ پھر مجھے جو بات پتہ چلی اس سے مجھے کافی حیرانگی ہوئی۔ لوگوں نے بتایا کہ ایک شخص صحرائے درخت کی طرف کسی کام سے گیا تھا۔ صحرائے درخت اسی جگہ کا نام ہے جہاں کے بارے میں پراسرار واقعات مشہور ہیں۔ وہ شخص زمین پر اوندھا پڑا تھا اور اس کی حالت دیکھنے والی تھی…. اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھتے ہوئے تھے اور جسم کے بہت سے حصوں پر رگڑنے کے نشانات موجود تھے۔ وہاں کے لوگ بہت عجیب و غریب باتیں کر رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اسے اس ہی مخلوق نے چاٹا ہے اور یہ صرف اس کے چاٹنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مخلوق نے اپنے پنجے اس کے پیروں میں گاڑ دیے ہیں۔ سب اپنی اپنی باتیں کر رہے تھے لیکن اس شخص کی حالت واقعی کافی دردناک نظر آتی تھی اور جہاں تک میرا خیال تھا وہ یہی تھا کہ یقیناً یہ کسی انسان کی چال ہے جو بستی کے لوگوں کی زمینیں ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اپنے شوق اور دلچسپی کو ایک طرف رکھتے ہوئے لوگوں کی مجبوری اور تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر ویرانی اور خوف تھا۔ میں نے یہ سب دیکھتے اور سوچتے ہوئے صحرائے درخت پر جلد سے جلد جانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو مجھے کسی نے بھی اس جگہ کا صحیح سے پتہ نہیں بتایا۔ میں جس سے بھی پوچھتا وہ صحرائے درخت کا نام سنتے ہی بھاگ جاتا۔ بڑی مشکل سے ایک شخص نے مجھے جگہ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات دی۔ اس نے مجھے صحرائے درخت کے بارے میں جو بات بتائی وہ کافی پر اسرار تھی۔ اس نے کہا کہ اس جگہ کوئی درندے جیسی مخلوق صبح سویرے یا رات کے وقت آتی ہے…..صحرائے درخت میں موجود ایک درخت اس کا گھر ہے اور اگر کوئی بھی انسان یا جانور اس درندے کے پنجوں میں آجائے تو اس سے چھٹکارا پانا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ ساری باتیں سننے کے بعد میرے جسم میں ایک سرد لہر ڈوری لیکن چونکہ میں ایسی جگہوں پر جاتا رہتا تھا اسی لئے میں نے اسے بھی ایک معمولی جگہ سمجھ کر اپنے قدم صحرائے درخت کی جانب بڑھا دیے۔
 

Hiba Hanif Rajput
About the Author: Hiba Hanif Rajput Read More Articles by Hiba Hanif Rajput: 12 Articles with 13154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.