وعدہ نبھانے کے لیے جان بھی دے دی... بدقسمت ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کون تھے اور سیلاب کی پیشنگوئی کے باوجود انتظامات کیوں نہ کیے گئے؟

image
 
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے منگل کو بتایا کہ بلوچستان میں گزشتہ شام لاپتہ ہونے والا پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 6 فوجی اہلکار شہید ہوگئے۔
 
فوجی ہیلی کاپٹر شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔ ہیلی کاپٹر میں موجود اہلکار ملک کے جنوب مغربی علاقوں میں سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ غیر معمولی مون سون کی بارشوں اور جان لیوا سیلاب نے اس سال پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور خاص طور پر بلوچستان میں تباہی کا جاری و ساری سلسلہ پتا نہیں کہاں تک پہنچے گا۔
 
فوج وہاں ریسکیو کی خدمات انجام دے رہی ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں فوج کی خدمات عوام کے لئے قابل ستائش ہے۔ چاہے کوئی بھی قدرتی آفت ہو یا امن وامان کی صورتحال بالآخر فوج نے ہی عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے۔ اور ہر فوجی اپنی وردی سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اپنی قوم کی حفاظت اپنی جان پر کھیل کر بھی کرے گا-
 
آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ بدقسمت ہیلی کاپٹر کا ملبہ موسیٰ گوٹھ وندر، لسبیلہ سے ملا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ "خراب موسم" کی وجہ سے پیش آیا، کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت تمام چھ افسران اور جوانوں نے شہادت کو گلے لگا لیا۔
 
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی جو کوئٹہ کے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں کمانڈرر تھے،مارچ 1989 میں آزاد کشمیر کی چھ رجمنٹوں میں کمیشن حاصل کیا اور 33 سال تک پاک فوج میں خدمات انجام دیں۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف نے اپریل 1994 میں آزاد کشمیر کی 19 رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور 29 سال تک پاک فوج میں خدمات انجام دیں۔
 
کمانڈر انجینئرز 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد نے 1994 میں 20 انجینئر بٹالین میں کمیشن حاصل کیا اور 29 سال تک پاک فوج میں خدمات انجام دیں۔ اس بدقسمت ہیلی کاپٹر کے پائلٹ میجر سعید احمد جبکہ میجر محمد طلحہ منان کو پائلٹ تھے۔ پائلٹ میجر سعید کا تعلق لاڑکانہ سے تھا، انہوں نے بیوہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔ معاون پائلٹ میجر محمد طلحہ منان نے بیوہ اور دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ عملے کے سربراہ نائیک مدثر فیاض بھی جہاز میں سوار تھے ۔
 
image
 
یہ افسران بلوچستان میں امدادی کارروائیوں کا حصہ تھے کیونکہ جون کے وسط میں شروع ہونے والے مون سون کے سیلاب سے پاکستان میں اب تک تقریباً 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں صرف بلوچستان صوبے میں 149 افراد شامل ہیں۔عوام اہلکاروں کے جانی نقصان پر شدید غمزدہ ہیں۔ یقیناً یہ پاکستان کا ایک بڑا نقصان ہے۔
 
مون سون کی مسلسل بارشوں نے ملک میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کر دی ہے اور قصبوں شہروں اور دیہاتوں میں تباہی مچادی ہے۔ پاک فوج فرنٹیئر کور صوبوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہی ہے۔ بارشوں سے متاثرہ صوبہ بلوچستان میں اتوار کے روز پسنی کے قریب یکے بعد دیگرے زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ نیشنل سیسمک مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق 5.6 شدت کا پہلا زلزلہ شام 6 بجکر 42 منٹ پر آیا۔ اور 5 شدت کے ساتھ دوسرا زلزلہ 10 منٹ بعد شام 6 بج کر 52 منٹ پر آیا۔ لیکن شکر ہے کوئی مالی وجانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
 
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق یکم جون سے اب تک صوبے میں بارشوں اور سیلاب سے کم از کم 127 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
 
image
 
قدرتی آفات سے نمٹنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی لیکن ہمارے ملک میں تو ان حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی خاطر خواہ پلاننگ بھی نہیں کی جاتی۔ موسمی حالات سے متعلق بیرونی اور اور مقامی میڈیا مسلسل شور مچا رہے تھے اور باخبر کر رہے تھے کہ یہ بارشیں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہاں سیاستدانوں کو اپنے اقتدار کی لڑائی سے فرصت ہی نہیں وہ ملک کے انتظامات کو کس طرح دیکھیں عوام کو بیرونی سازشوں اور آپس کے الزامات کی سیاست میں پھنسا دیا گیا۔ اس وقت عوام کو ایک ایسے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے جو ملک کو کم از کم کھڑا ہونے کی قابل بنا دے ورنہ یہ حالات ہمیں خدانخواستہ سری لنکا کے حالات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کوئی ملک اگر ہمیں قرضے نہیں دے رہا تو کرپشن کے زریعے کمائے گئے اثاثوں کے زریعے ملک کی نازک صورتحال کو سنبھالا جائے صرف عوام ہی کیوں ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں ان سیاستدانوں کی نااہلی کا خمیازہ بھگتیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: