عورتوں کے بھی ایسے ہی حقوق ہیں، جیسے کہ ان پر مردوں کے
حقوق ہیں۔ اسلام نے شوہر کو اپنی رفیقۂ حیات پر ظلم و تعدی، ایذارسانی،
جسمانی سزا، تذلیل، روحانی اذیت اور گالی گلوچ سے سختی سے روکا ہے اور
ازدواجی زندگی کی کام یابی کے لیے تحمل اور باہمی عفو و درگزر کی تلقین کی
ہے..
اسلام کے سوا دیگر مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہی تعلیمات ملتی ہیں
کہ قرب الہی کے لیے ازدواجی زندگی سے فرار حاصل کیا جائے اور تجرد کی زندگی
اختیار کی جائے۔ اگر کوئی شخص گناہوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے تو اس کے لیے
ضروری ہے کہ ازدواجی زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور مجرد زندگی بسر کرے۔
تعلیماتِ نصاریٰ نے متعدد بار اس کی تلقین کی اور رہبانیت کا درس دیا ہے۔
اکابرینِ یہود نے یہ بات ذہن نشین کرائی کہ عورت بدی کا مجسم ہے، اگر اس کے
ساتھ تعلق قائم کرو گے تو شیطان کے ایک ایسے چنگل میں پھنس جاؤ گے، جس سے
پھر نکلنا تمہارے لیے مشکل ہوجائے گا اور یہی حال دانش مندانِ ہنود اور
دیگر مذاہب کا ہے۔ جب کہ اسلام نہ صر ف ازدواجی زندگی کی اجازت دیتا ہے، بل
کہ بغیر عذر کے اس سے روگردانی کو گناہ قرار دیتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؐ
کا ارشاد ہے ’’نکاح کرنا میری سنت ہے، جو میری سنت سے اعراض کرے گا، اس کا
میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘
اسلام میں مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے شادی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور
وہ امکانی حد تک کوشش کرتا ہے کہ ہر مرد اور عورت جب بھی بلوغت کی عمر کو
پہنچیں تو بغیر کسی تاخیر کے ان کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیا جائے۔ اسی
وجہ سے اسلام شادی کو مشکل رسم نہیں بناتا، بل کہ بڑی سادہ اور آسان سی
تقریب کے ذریعے پورا کردیتا ہے۔ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے لیے بس یہی
کافی ہے کہ فریقین دو ذمے دار گواہوں کی موجودی میں ایجاب و قبول کرلیں۔ اس
طرح دو اجنبی افراد آپس میں میاں بیوی کے مقدس رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔
اسلام نے نکاح کو بڑا آسان اور سادہ بنایا ہے، جسے آج ہم نے غیراسلامی
رسومات کے تحت مشکل اور منہگا بنادیا ہے..
ارشاد الہی ہے۔ ’’مردوں کو عورتوں پر کچھ فوقیت ہے۔‘‘ دینِ اسلام گھر کے
انتظامی امور میں مرد کی فوقیت کا حامی ہے تاکہ گھر کے تمام امور احسن طریق
سے انجام پاسکیں۔ جس طرح ملک کے دو صدر اور کسی ادارے میں دو سربراہ ممکن
نہیں، اس طرح گھرکی چھوٹی سی ریاست میں میاں بیوی کے انتظامی امور کی تقسیم
کر دی گئی ہے، کہ مرد سربراہ ہے اور عورت اس کی مشیر اور وزیر۔ طبعی طور پر
مرد میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو عورت میں نہیں اور عورت کی
جبلّی خصوصیات مرد سے مختلف ہیں۔ دونوں کی جسمانی ساخت اور جبلّتوں کا فرق
اس بات کا ثبوت ہے کہ خالق ِ کائنات نے ان دونوں کو مختلف مقاصد کے لیے
پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہے۔ جس کے اندر رہ کر انہوں نے اپنے
مخصوص فرائض سرانجام دینے ہیں۔ مردوں کی جسمانی قوت کے زیادہ ہونے کی وجہ
سے ان کی ذمے انتظامی امور اور اہلِ خانہ کی کفالت سپرد کی گئی ہے۔
عورت میں محبت و نرمی کا جذبہ زیادہ ہے۔ اس لیے بچوں کی پرورش و تربیت کی
ذمے داری اس پر ڈال دی گئی ہے۔ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے مرد و عورت
دو پہیے ہیں، جو مل کر کام کرتے ہیں تو عائلی اور معاشرتی زندگی کی گاڑی
درست چلتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’تمہاری بیویاں تمہارے لیے لباس کی
حیثیت رکھتی ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو‘‘
قبل از اسلام عورت کی حالت بہت ابتر تھی، اسے ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا
اور اس پر ہر قسم کا ظلم روا تھا، اس کی نہ کوئی قانونی حیثیت تھی نہ ذاتی۔
معاشی اعتبار سے عورت، مرد کے مقابلے میں بے بس تھی۔ وہ ایک قابلِ فروخت شے
تھی۔ وہ وراثت کے حق سے محروم تھی۔ اسلام نے عورت کو بڑا مقام دیا ہے۔ اس
کو ہر رشتے کے لحاظ سے قابلِ احترام ٹھہرایا ہے۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے
قدموں کے نیچے جنت ہے، بیوی ہے تو وہ ایمان کی محافظہ اور راحت و سکون کا
سبب ہے، بیٹی ہے تو اس کی پرورش جنت کا ذریعہ ہے اور بہ طور بہن وہ قابل
شفقت ہے..
🌹 خداوند ہمیں اس پاک کام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔آمین یا رب
العالمین۔۔۔
|