متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کا استحصال
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
انڈیا نے5اگست 2019کو پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے انڈیا میں مدغم کر دیا۔اس سے پہلے انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں دو لاکھ سے زائد مزید فورسز متعین کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے گلی محلوں پہ بھی فوج کے پہرے بٹھا دیئے۔مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیٹ منقطع کر دیا گیا اور اس اقدام سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے ہر مکتبہ فکر کے سیاسی رہنمائوں، کارکنوں کو قید کر لیا۔یہ انڈیا کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا انوکھا واقعہ تھا کہ جب پارلیمنٹ میں قانون سازی کے تمام قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے ساتھ ہی منظور کر لیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے ہی گورنر راج نافذ تھا جو اب تک قائم ہے۔انڈیا کے کشمیر سے متعلق ہٹ دھرمی اور دھونس پر مبنی اس اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر کے تمام محکموں میں مقامی افسران کی جگہ انڈیا سے لائے گئے افسران کو تعینات کیا گیا۔
انڈیا کے اس اقدام سے کچھ ہی عرصہ قبل امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں ان سے کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی۔ پاکستان واپسی پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی قرار دینے کا دعوی کیا۔پھر جب انڈیا نے متنازعہ ریاست کشمیر سے متعلق 5اگست کا اقدام کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہتے ہوئے کہ کوئی ایسی بات نہیں کرنی جس سے انڈیا کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا بہانہ مل جائے، آزاد کشمیر کو بھی کسی سیاسی تحریک سے بھی روک دیا گیا۔
اس وقت عمران خان کی حکومت نے نہ تو عالمی سطح پہ سرگرم سفارتی مہم شروع کی اور نہ ہی اس سنگین معاملے میں کوئی بھی ردعمل ظاہر کیا۔البتہ اسلام آباد میں انڈیا کے اس اقدام کا گزرتا وقت دیکھنے کے لئے خصوصی گھڑیاں نصب کی گئیں جو ان کے دور حکومت میں ہی متروک ہو چکی ہیں ، کشمیر روڈ کا نام سرینگر روڈ رکھ دیا، پاکستان کا ایک سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں تمام کشمیر کو پاکستان کے ساتھ دکھایا گیا ، جبکہ اس سے پہلے بھی پاکستان کے سرکاری نقشے میں تمام ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی دکھایا جاتا تھا۔اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان جمعہ کے دن دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی طرح کے چند اقدامات میں ہی محدود ہو گئے۔ یوں مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے جارحانہ اقدامات پر کوئی ردعمل نہ دکھاتے ہوئے ، کمزور پوزیشن کا انتخاب کرتے ہوئے انڈیا کے جارحانہ روئیے کو سہولت کاری فراہم کی گئی ہے۔
انڈیا کی حکمران ' بے جے پی' کے سابق نائب صدر بلبیر پنج نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور انڈیا میں مدغم کرنے کے تین سال پورے ہونے کے موقع پر ایک مضمون میں لکھا ہے کہ'' دفعہ 370اور35Aکے ختم کئے جانے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میںانڈیا کے 890 قوانین نافذ ہوئے، مقبوضہ کشمیر کے205قوانین ختم کئے گئے اور129قوانین میں ترمیم کی گئی۔ان تین سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی سو سے زائد کشمیری شہری جاں بحق اور ڈیڑھ سو کے قریب ہندوستانی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
آزاد کشمیر میں پہلے مقبوضہ کشمیر سے متعلق کچھ کرنے،کچھ نہ کئے جانے کا موضوع تھا لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی طرف سے تجویز کردہ 15ویں آئینی ترمیم سے آزاد کشمیر کے اختیارات اور حیثیت میں کمی کئے جانے کی صورتحال ایک بڑا موضوع بن چکا ہے۔عوامی سطح پہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ جس طرح انڈیا نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقدامات کئے ہیں، اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی مرحلہ وار اقدامات کئے جانے کی کوششیں کارفرماہیں۔ عمران خان کی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی سوچ ،اپروچ، پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ سکی۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان بیک ڈور رابطوں کی اطلاعات تو ہیں لیکن ان رابطوں میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں انڈیا کے بدترین ظلم اورجبر کانشانہ بننے والے کشمیریوں کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔
|