صبح کے تین بجے ہم مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے تو وہاں نور
کی فضا تھی۔ نمازی جوق در جوق مختلف دروازوں سے صحن میں داخل ہو رہے تھے۔
ٹھنڈی ٹھنڈی روشنیاں آنکھوں،دل اوردماغ کو فرحت بخش رہی تھیں۔ ہم مسجد کی
پشت اور دائیں جانب کے دروازے سے داخل ہوئے۔ جب صحن میں آگے بڑھے تو دیکھا
کہ مسجد کے آخری حصے میں خواتین داخل ہو رہی تھیں۔ وہ اس حصے کے سامنے صحن
میں بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ مرد آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔ ہم واپس اسی گیٹ پر
آئے اور نماز کے بعد ملنے کی جگہ طے کی۔ اہلیہ خواتین والے حصے کی جانب بڑھ
گئیں اور میں مسجد کے اگلے حصے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ مسجد سے ملحقہ صحن
میں بھی صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ مختلف دروازوں سے لوگ مسجد کے اندر بھی جار
ہے تھے۔
میری حالت اس وقت غیر معمولی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ قدم من من کے
ہو رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے جیسے اندھیرا سا چھا رہا تھا۔ ایک ایک قدم
اٹھانا دوبھر ہو رہا تھا۔ کئی دفعہ رکا۔ پھر چلا۔ پھر رکا۔ ہمت جیسے ساتھ
چھوڑ رہی تھی۔یہ عجیب ہی کیفیت تھی۔ متضاد سوچوں نے جیسے میرے اندر ایک
کشمکش سی پیداکر دی تھی۔ ایک طرف عقیدت اور شوق کا عالم تھا۔ روضہ رسولؐ کے
دیدارکے لیے دل وفورِ شوق سے سرشار تھا۔میں کب سے اللہ کے نبیﷺ کے اس شہر
میں سانس لینے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا۔ اس مقدس خاک کو اپنی آنکھوں کا
سرمہ بنانے کے لیے کب سے بے تاب تھا۔ اس مقدس سرزمین کو دیکھنے، اس سبز
گنبد کی زیارت اور اس دربار میں حاضری کا مجھے مدتوں سے انتظار تھا۔آج یہ
انتظارختم ہو رہا تھا۔ دوریاں مٹنے والی تھیں۔ اس سے زیادہ خوشی، اطمینان
اور کامیابی کیا ہو سکتی تھی۔
جوں ہی میں مسجد کے اندر داخل ہوا ایک انوکھا نظارا میرا منتظر تھا۔ مسجد
کا اندرونی منظر انتہائی حسین، باوقار اور متاثر کن تھا۔ خوب صورت درودیوار،
بلند چھتیں اور اس میں لٹکے ہوئے انتہائی دیدہ زیب فانوس ماحول کو بقعہ نور
بنائے ہوئے تھے۔لگتا تھا کہ مسجد کے طول وعرض میں رنگ ونور کا سیلاب آیا
ہوا ہے۔ اتنی بڑی اور اتنی شاندار مسجد میں نے پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ اندر
کا درجہ حرارت آرام دہ، خوب صورت قالین، نقشین ستون، ترتیب وار خوب صورت
فانوس اور پیارے نبیؐ کے قرب کا احساس، جسم وجاں بلکہ روح تک کو ضو فشاں کر
رہا تھا۔
اس وقت میرے جو احساسات تھے چاہوں بھی تو قلمبند نہیں کر سکتا۔ یہ وصل کے
وہ انوکھے لمحات تھے جب انسان خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ انتہائے
قرب ہے جب نگاہیں دھندلا جاتی ہیں۔ آقا ئے مومنین کے خیال اور اس مسجد کے
حسن نے مجھے مبہوت سا کر دیا تھا۔فن تعمیر کا اس سے بہتر نمونہ اس سے پہلے
میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ اس کا ظاہری اور باطنی حسن دونوں لاجواب تھے۔
اسے دیکھنے کے لیے بھی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کی آنکھوں کی بھی
ضرورت پڑتی ہے۔ میں مسحور ہو کر نہ جانے کب تک ایک ہی مقام پر کھڑا رہا۔
میری نظریں اس نظارے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ کسی نے آرام سے ٹہوکا دیا تو
جیسے مجھے ہوش آگیا۔ ایک جگہ بیٹھنے کے بعد میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تواس
انتہائی وسیع وعریض مسجد کے طول وعرض میں لاکھوں لوگ نظر آئے۔ جو نوافل ادا
کر رہے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ تسبیح کے ساتھ حمد اور دُرود
شریف پڑھ رہے تھے یا پھر گھٹنوں پر سر رکھے سستا رہے تھے۔ چند ایک ستونوں
کے ساتھ ٹیک لگا کر باقاعدہ سو رہے تھے۔ ان سب کے لباس الگ، نسلیں جدا اور
زبانیں مختلف تھیں لیکن اس وقت ایک ہی دربار میں سوالی بنے بیٹھے تھے۔
میں نے تہجد کی نیت باندھی تو اس خاص الخاص مقام پر نماز کے احساسات بھی
خاص او ر جدا تھے۔ بعدمیں مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں پڑھی جانے والی تمام
نمازوں میں احساسات اور جذبات کی یہی کیفیت رہی۔ ایسا خشوع وخضوع اور
ارتکاز پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ نماز کا ایسا مزا، تسکین اور روحانی
مسرت بھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ حرمین شریفین میں ادا کی جانے
والی ہر نماز کا ذائقہ اور رنگ ہی الگ تھا۔ قیام، رکوع اور سجود سبھی دل سے
ادا ہوتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ باری تعالیٰ سامنے موجود ہے اور مجھے دیکھ
رہا ہے۔ یہ احساس اتنا گہرا ہوتا تھا کہ سبحان ربی العظیم، سبحان ربی
یاالاعلیٰ کہتے ہوئے ایک سرور سا آ جاتا تھا۔ یہ سرور، یہ مزا اور یہ ذائقہ
جو حرمین شریفین میں نصیب ہوا پھرکہیں نہیں ہوا۔
)سفرِ ِعشق۔ صفحہ ۳۹۔۴۹)
|