|
|
اکثر چھوٹے بچوں سے جب ماضی میں پوچھا جاتا تھا کہ وہ
بڑے ہوکر کیا بنے گا تو ان میں سے زيادہ تر کا یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم بڑے
ہو کر ڈاکٹر بنیں گے اور جب کوئی پوچھتا کہ ڈاکٹر بن کر کیا کرو گے تو ان
کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے- |
|
لیکن یہی لوگ جب ڈاکٹر بن جاتے تو خدمت کہیں خواب و خیال
ہو جاتی جب کہ ان کا واحد مقصد بڑی سے بڑی فیس وصول کر کے جیبیں بھرنا رہ
جاتا- لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے ڈاکٹر کے بارے میں بتائيں گے جس نے نہ صرف
بڑا ڈاکٹر بننے کے بعد بھی اپنا فرض یاد رکھا بلکہ اللہ نے اس کو اس خدمت
کا انعام بھی اسی دنیا میں دے دیا- |
|
ڈاکٹر سعید باجوہ نیورو
سرجن |
ڈاکٹر سعید باجوہ کا تعلق پاکستان کے علاقے رحیم یار خان
سے ہے انہوں نے میڈيکل کی تعلیم نشتر ہسپتال سے حاصل کی اور اس کے بعد اعلی
تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے- جہاں پر نیورو کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل
کی اور اس وقت جونسن سٹی نیویارک کے لیڈی آف لارڈيس میموریل ہسپتال میں
بحیثیت نیورو سرجن اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں- |
|
باپ کی نصیحت کا خیال |
اکثر جب انسان کا پیر باپ کے پیر سے بڑا ہو جائے تو وہ خود کو اپنے ماں باپ
سے زيادہ سمجھدار اور عقل مند سمجھنے لگتا ہے لیکن ڈاکٹر سعید باوجوہ کا
معاملہ اس سے مختلف ثابت ہوا- ان کی زندگی کے حوالے سے معروف صحافی روس
کلاسرا نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ وہ اپنے کسی جاننے والے کے بچے کو لے
کر جب ڈاکٹر سعید باجوہ کے کلینک گئے تو انہوں نے اس بچے کا مکمل معائنہ
اور ٹیسٹ وغیرہ کروائے-بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس بچے سے کسی قسم کی فیس بھی
نہیں لی اور بتایا کہ پاکستان سے آنے والے ہر مریض کی وہ خصوصی مدد کرتے
ہیں اور اس کا سبب انہوں نے اپنے والد کا ایک جملہ قرار دیا- انہوں نے کہا
کہ میرے والد نے کہا تھا کہ پتر سعید اناں وڈا ڈاکٹر وی نہ بنڑ جاویں تے
مریض تیڈی فیس نہ دے سکن ( بیٹے سعید اتنے بڑے ڈاکٹر بھی نہ بن جانا کہ
مریض تمھاری فیس ہی ادا نہ کر سکیں )- |
|
|
|
پاکستانیوں کے لیے درد
دل |
ڈاکٹر سعید باوجوہ کی ایک اور خاص بات ان کی پاکستان سے بے انتہا محبت ہے
جس کے ثبوت کے طور پر سال 2015 میں آنے والے زلزلے کے موقع پر جب ان کو اس
سے آنے والی تباہی کا پتہ چلا تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ بہت سارے لوگوں کے
سروں پر چوٹیں لگی ہوں گی اور ان کو طبی مدد کی ضرورت ہو گی تو وہ اپنے
ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ پاکستان آگئے اور اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں
ڈیرہ ڈال لیا اور رات دن سیکڑوں آپریشن کر کے ان لوگوں کی جانیں بچائيں جن
کے سروں پر چوٹیں لگ گئی تھیں اور اس طرح سے اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کی مدد
کی- |
|
دوسروں کی جان بچانے والا خود مشکل میں
|
امریکہ واپسی کے کچھ عرصے بعد جب ڈاکٹر سعید باجوہ کو دل میں معمولی سی
تکلیف ہوئی تو ڈاکٹروں نے انہیں دل میں اسٹنٹ ڈالنے کا مشورہ دیا جو کہ صرف
چند منٹوں کا عمل تھا اس وجہ سے ڈاکٹر سعید نے ان کا مشورہ مان کر آپریشن
کروانے کا فیصلہ کر لیا- |
|
دن بھر کے اپنے کاموں اور ڈيوٹی اور آپریشن سے فارغ ہو کر ڈاکٹر سعید دل کے
آپریشن کے لیے تھیٹر میں آگئے اور اسٹنٹ ڈلوانے کا آپریشن شروع کروا لیا-
لیکن آپریشن کے دوران ایسی پیچیدگی ہو گئی کہ وہ ہوش میں آنے کے بجائے
آپریشن ٹیبل سے سیدھے کومے میں چلے گئے- |
|
یہ اب بچ نہیں سکیں گے |
ڈاکٹروں کے مطابق ڈاکٹر سعید کے آپریشن میں ایسی پیچیدگی پیدا ہو گئی تھی
جو کہ لاکھوں افراد میں سے کسی ایک کو ہوتی تھی اور ایسے مریض کا بچنا
دشوار ہوتا تھا- ڈاکٹروں کے مطابق ان کا بچنا مشکل تھا اور اگر کسی طرح سے
وہ واپس زندگی کی طرف لوٹ بھی آتے تو ان کا دماغ اس حد تک متاثر ہو چکا
ہوگا کہ وہ ساری زندگی نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے- |
|
|
|
اس موقع پر ڈاکٹروں نے ڈاکٹر سعید کی بیوی جو ان کی چچا
زاد بھی تھیں، کو کہا کہ اب ڈاکٹر سعید کے بچنے کے امکانات نہیں ہیں تو
ایسے میں مشینوں کے ساتھ ان کی زندگی بڑھانا ان کو تکلیف دینے کے باعث ہو
رہا ہے اس وجہ سے ان کی مشینیں ہٹا کر ان کی زندگی کو ختم کر دیا جائے- |
|
اللہ پر توکل کی ایک
مثال |
لیکن ڈاکٹر صاحب کی بیوی اور بیٹی نے ان کی تجویز ماننے
سےانکار کر دیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کو ہوسٹن کے ایک ہسپتال میں
منتقل کر دیا- ان کی بیٹی نے ان کے بیڈ کے سامنے توکل لکھ کر لگا دیا اس کا
کہنا تھا کہ اس کے باپ کی پوری زندگی اللہ پر توکل کی ایک مثال ہے- انہوں
نے اسی توکل کی بنیاد پر اپنی پوری زندگی گزاری اور دوسروں کی دل کھول کر
مدد کی اپنے علاقے رحیم یار خان کے بچوں کے لیے اسکولز کھولے- |
|
آٹھ ماہ تک یہ ماں بیٹی دن رات کوما میں پڑے ہوئے ڈاکٹر
سعید کے پاس دن رات اس امید پر رہیں کہ کسی دن تو وہ اللہ توکل کے سہارے
زندگی کی طرف واپس لوٹیں گے |
|
توکل معجزہ دکھاتا ہے |
اللہ پر یقین انسان کو کبھی مایوس نہیں کرتا اور ایسا ہی
ان کے ساتھ بھی ہوا آٹھ مہینوں کے بعد پہلی بار پلکوں میں معمولی سی حرکت
ہوئی جو کہ ان کے زندگی کی طرف واپس لوٹنے کی ایک نشانی تھی رفتہ رفتہ وہ
واپس زندگی کی طرف لوٹ گئے- |
|
اس ساری داستان کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ آٹھ
ماہ تک کوما میں رہنے کے باوجود ڈاکٹر سعید کے دماغ پر کسی قسم کا اثر نہ
ہوا اور وہ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا- آج بھی ڈاکٹر سعید امریکہ میں بطور
نیورو سرجن کام کر رہے ہیں اور ان کی یہ دوسری زندگی ان کے لیے اللہ کی طرف
سے ایک انعام ہے جو ان کی نیکیوں کی وجہ سے ان کو ملی- |