سنگھ پریوار کا بار سنسکار

’توتومیں میں‘ نامی ٹیلی ویژن سیریل کی منہ زور بہو کو بی جے پی نے چوری اور سینہ زوری کرنے کے لیے اپنی حکومت میں شامل کرکے انسانی وسائل کے فروغ کا وزیربنادیا۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ خود وزیر تعلیم کی ڈگری فرضی ہے۔ انہوں نے گریجویشن کیے بغیر ہی خود کو گریجویٹ کہنا شروع کردیا تھااور ایک ہفتے کی ٹریننگ پروگرام پر اتراتی پھررہی تھیں ۔ ان کی رعونت نے کئی تعلیمی ادارے کے ذمہ داروں کو ناراض کیا اور کچھ نے استعفیٰ بھی دیا۔ ان کے محکمہ میں کام کرنے والے کئی افسر رسوا ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جرمن زبان کی جگہ سنسکرت لانے کے اعلان نے جرمنی سے تعلقات کو بگاڑا اور سوچھّ بھارت کے دوران کچرا منگوا کر صاف کرنے سے ان کی شبیہ گندی ہوگئی ۔ اس لیے دوسال بعد ان کی تعلیم سے نکال نشر و اشاعت کے شعبے میں وزیر بنایا گیا۔ وہاں بھی انہوں نے صحافیوں پر لگام کسنے کی کوشش اور بھگائی گئیں ۔ اس کے بعد غیر اہم کپڑا وزیر بنایا گیا اس طرح مودی سرکار کی پہلی مدت کار ختم ہوگئی۔ اس کے بعد راہل گاندھی کو امیٹھی سے ہراکر سمرتی ایرانی نے ایوان پارلیمان میں آئیں پھر بھی ان کو خواتین اور بچوں کی ترقی کا غیر اہم قلمدان سونپا گیا کیونکہ بی جے پی جان گئی تھی کہ وہ حقیقت کی دنیا میں نہیں بلکہ صرف ٹیلی ویژن کے پردے پر اچھی لگتی ہیں ۔

مرکزی وزیر محترمہ سمرتی زوبین ایرانی نےخواتین اور بچوں کی ترقی کے لیے بلند بانگ دعویٰ تو خوب کیا مگر کوئی ٹھوس کام نہیں کرسکیں۔ انہوں نے سوچا کسی اور کا نہیں تو کم ازکم اپنی بیٹی کا بھلا کردیا جائے کیونکہ ’چیریٹی بگنس ایٹ ہوم‘ ۔اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے خواتین اور بچوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کی دختر نیک اختر جوئش ایرانی اٹھارہ سال کی بالغ خاتون ہے اور بچی بھی ہے۔ ویسے ملک کے ہر فرد کو ہوٹل کھولنے کا حق ہے اس لیے اگر جوئش نے یہ کیا تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے لیکن چونکہ چور کی داڑھی میں تنکہ ہوتا ہے اس لیے جوئش ایرانی نے اپنا ‘سلی سولز کیفے اینڈ بار’ اپنے نام سے نہیں بلکہ راہل ووہرا نامی فرد کے نام پر کھولا جو مختلف کاروبار میں سمرتی ایرانی کے شوہر ، ان کی سابقہ بیوی اور بیٹی کا شراکت دارہے۔ وزیر موصوف بھی ان سے قرض لینے کا اعتراف اپنے حلف نامہ میں کرچکی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ راہل ووہرا کے نام پر ہی سمرتی ایرانی کا سارا کالا بازار چل رہا ہے اور اسی لیے اس کو مذکورہ ہوٹل کا بینامی مالک بنایا گیا ہے۔ راہل ووہرا کو اگر ایک دن کے لیے بھی ای ڈی اپنی حراست میں لے کر تفتیش کرے تو سارے راز اگل دے گا لیکن جب تک کمل کھلا ہوا ہے یہ نہیں ہوگا۔

سمرتی ایرانی کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی کے نام پر ہوٹل نہیں ہے۔ یہ بات قانونی طور پر درست ہے لیکن معروف یو ٹیوب اینکر کی ایک ویڈیو آج کل گردش کررہی ہے جس میں جاولیکرزیوش ایرانی سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ تمہارا ہوٹل ہے تو وہ اس کا اعتراف کرتی ہیں ۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ بیٹی کے قصور میں ماں کو گھسیٹنا غلط ہے لیکن پھر والدہ کا اپنی قصوروار بیٹی کی مدافعت بھی تو جرم ہے۔ سمرتی ایرانی اگر اس ویڈیو کو دیکھ کر کہہ دیتیں کہ میری بیٹی نے جھوٹ کہا ہے۔ یہ ہوٹل اور شراب خانہ اس کا نہیں ہے تب بھی ان کی جان چھوٹ سکتی تھی لیکن انہوں نے اسے شیئر کرکے اپنی بیٹی کے کارنامہ پر فخر جتایا ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی اپنی بیٹی کی تائید کرکے اس کے جرم میں شریک ہوگئیں ۔ ایسے میں اگر یہ مان لیا جائے کہ بیٹی نے جھوٹ بولا تھا تو ماننا پڑے گا کہ ماں بیٹی دونوں نے اپنی کذب گوئی سے دنیا کو گمراہ کیا تھا ۔ ایسے میں شرافت کا تقاضہ ہے کہ سمرتی ایرانی کو پہلی فرصت میں وزارت سے نکال باہر کرکے ای ڈی کے ذریعہ ماں بیٹی تفتیش کرائی جائےلیکن اس طرح کی غیر جانبداری سنگھ پریوار کے خمیر میں نہیں ہے۔ کسی غیر بھاجپائی کا نام اس طرح کی بدعنوانی میں آتا تو سی بی آئی، ای ڈی اور نہ جانے کون کون اس سے سچ اگلوا کر چھوڑتے لیکن سیاّں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟

یہ معاملہ صرف بے نامی بدعنوانی کا نہیں ہے بلکہ اس میخانے کے پاس شراب پلانے کا اجازت نامہ فرضی اور کھانا کھلانے کا لائسنس ہی نہیں ہے۔ یہ خفیہ ذرائع کی مدد سے سیاسی انتقام کے لئے ایجنسیوں کا عائد کردہ د الزام نہیں بلکہ آر ٹی آئی کی بنیاد پر کیا جانے والا انکشاف ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے جوئش ایرانی نے اپنے ‘سلی سولز کیفے اینڈ بار’ کے لئے فرضی دستاویزات کی بنیاد پربار لائسنس کی تجدید کے لیے جس انتھونی ڈی گاما کے نام سے 22 جون 2022 کو درخواست دی تھی، اس کا گزشتہ سال مئی میں انتقال ہو چکا ہے اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی میڈیا میں موجود ہے۔ویسے بعید نہیں کہ کوئی اندھ بھگت یہ کہہ دے کہ کوئی فرد موت کے تیرا ماہ بعد بھی زندہ ہوکر لائسنس کی درخواست کرنے کے لیے قبر سے باہر کیوں نہیں آسکتا کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے ۔ ایسے لوگوں کاعلاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ مرکزی وزیر کے اثرو رسوخ کا استعمال کرکے تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھا گیا اور ان کی بیٹی کو لائسنس سے نواز دیا گیا ۔ گوا کی ایکسائز پالیسی کے مطابق ریاست کے اندر ایک وقت میں ایک موجودہ ریستوراں ہی بار کا لائسنس حاصل کر سکتاہے اسی لیے ایک مردہ شخص کی خدمات حاصل کرنی پڑی ۔

اس ریستورانں کی مالکن چونکہ سمرتی ایرانی کی بیٹی ہیں اس لیے اس کوآنکھ موند کر ایک کے بجائےدو عدد لائسنس سے نوازہ گیا ۔ ایک میں غیر ملکی شراب کی خوردہ فروخت کاپروانہ دیا گیا اور دوسرے میں غیر ملکی اور دیسی شراب یعنی ٹھرّا بیچنے کی بھی اجازت دی گئی ۔ یہ لائسنس صرف ریستوران کو ملتا ہے لیکن یہاں تو وہ بھی ندارد تھا ۔ یعنی’نہ کھاوں نہ کھانے دوں گا ‘والے وزیر اعظم کی دست راست کے لیے کھانے پینے کی ساری حدود قیود کو پامال کردیا گیا۔ ان جرائم کے ارتکاب پر شرمندہ ہونے کے بجائے سمرتی ایرانی نے تو انہیں سیاسی انتقام کے نام پر مسترد کردیا۔ اس کے بعد پریس کانفرنس میں گاندھی خاندان پر بغیر کسی ثبوت کے کئی الزامات لگا دئیے ۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل ہیرالڈ معاملے میں اگرسونیا یا راہل گاندھی کہتے ہیں کہ وہ سیاسی انتقام ہے تو بی جے پی اسےقانونی کارروائی کہہ کر مسترد کردیتی ہے لیکن جب سمرتی پر ثبوت کے ساتھ لگنے والاالزام بدلہ بن جاتا ہے۔سمرتی ایرانی اپنے خلاف لگائے جانے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے بجائے پہلے تو ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی دھمکی حالانکہ یہ حق تو اس کا ہے جس کی عزت ہو۔

سمرتی راہل گاندھی کو پھر سے انتخاب میں ہرانے کی دھمکی دی حالانکہ اس کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ میخانہ ان کے حلقۂ انتخاب امیٹھی میں نہیں بلکہ گوا میں ہے۔ گوا کے اندر ان کی بیٹی شراب کے ساتھ بیف بیچ رہی ہے ۔ سمرتی ایرانی میں اگر ہمت ہے تو اپنے رائے دہندگان کے درمیان اس طرح کا ہوٹل کھول کر چلائے اور انتخاب جیت کر دکھائے۔ اترپردیش میں بیف کے نام پر ہجومی تشدد کی حمایت کرکے ووٹ حاصل کرنا اور گوا میں شراب کے ساتھ بڑے جانور کا گوشت بیچ کر نوٹ کمانے سے بڑی منافقت اور کیا ہوسکتی ہے؟ سنگھ پریوار جس سنسکار کی بات کرتا ہے اور مودی جی جو ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے کیا اس کا نمونہ سمرتی ایرانی پیش کررہی ہیں؟ انہیں شکایت ہے ان کی اٹھارہ سالہ بیٹی کی توہین کی گئی ہے لیکن جب بی جے پی کے لوگ پچہتر سالہ سونیا گاندھی کو جرسی گائے جیسے القاب سے نوازتے ہیں اور مودی جی ممتا بنرجی کو دیدی او دیدی کہہ کر سرِ عام مذاق اڑاتے ہیں تو کیا صنف نازک کی توہین نہیں ہوتی ۔ خواتین اور بچوں کے فلاح و بہبود کی وزیر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کیوں نہیں کرتی ؟ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ پتھر نہیں مارتے بلکہ چپ چاپ استعفیٰ دے کر نکل جاتے ہیں یا ا نہیں نکال باہر کیا جاتا ہے لیکن سنگھ پریوار کی یہ روایت نہیں ہے۔

بی جے پی کی منافقت کا ایک اور ثبوت میگھالیہ میں سامنے آیا جہاں چار سال قبل انتخابی مہم میں صوبائی وزیر داخلہ ہرجو ڈنکوپار رائے کے بیٹے کے گیسٹ ہاوس میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری پر سمرتی برس پڑیں۔ آگے چل کر سرکار بدل گئی اور بی جے پی اس کا حصہ بن گئی۔ اب بی جے پی کے لیڈربرنارڈ مارک کے فارم ہاؤس پر پولیس نے چھاپہ مارکر قحبہ گری میں ملوث پانچ مردو خواتین برہنہ حالت میں پکڑلیا ۔اس معاملے میں پولیس نے 73 لوگوں کو گرفتار کیا۔ یہ ہے ہندوتوا نواز سرکار کا چال چرتر اور چہرہ۔ آدرش گجرات کے اندر شراب بندی ہے لیکن بی جے پی کے راج میں 26جولائی کو دس لو گ زہریلی شراب پی کر ہلاک ہوگئے اور چار کی حالت نازک ہے۔ پولیس نے سانحہ کے بعد تین لوگوں کو گرفتار کیا لیکن پہلے وہ کیا کررہی تھی؟ اس سے شراب کے معاملے میں بی جے پی کی سنجیدگی کا یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ گجرات کے اندر شراب کی اور شمالی ہندوستان میں بیف کی مخالفت کرکے اپنی سیاسی دوکان چلانے والی بی جے پی کے رہنما کی بیٹی شراب کے کے ساتھ بیف کے کباب بیچتی ہے ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449121 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.