شہنشاہِ سخن مرزا اسد اﷲ خان غالب پیکرِ خاکی کو انتہائی
اعلی و ارفع مقام عطا کرتے ہیں ۔ بلندیِ فکر دیکھئے(رکھتے ہو تم قدم میری
آنکھو ں سے کیوں دریغ۔،۔ رتبے میں مہرو مہ سے کمتر نہیں ہوں میں)غالب ؔکا
اصرار تھا کہ انسان راہِ وفا میں کندن بنے گا توتب منزلِ مراد ہاتھ آئیگی
(جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا ۔،۔ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا
ہے)۔،۔ (رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل ۔،۔ جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا
تو پھر لہو کیا ہے) انھیں اپنے محبوب کی خوشنودی ان کی سدا سے آرزو تھی
لیکن وہ اس باب میں تہی دامن رہے کیونکہ انھیں یار کو منانے کا فن نصیب نہ
ہو سکا اور یہی چیز ان کی شاعری کو اثر انگیزی عطا کر گئی۔ ان کا محبوب ان
کے قصہِ غم ِ کو کوئی وقعت نہیں دیتا تھا( نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے
نہ بنے ۔،۔ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے ) غالب ؔ اپنے دلدار کو پانے
کی شدید خواہش کا اسیر تھا جس کے نقش بر آب ہونے پر اسے کہنا پڑا کہ انسانی
سر بلندی دریا کی تندو تیز لہروں سے پنجہ آزمائی اور صبرآزمائی کے بعد ہاتھ
آتی ہے گویا کہ اعجازِ مسیحائی تپسیا اور برداشت کا مرہو نِ منت ہوتا ہے (
آہ کو چائیے اک عمر اثر ہونے تک ۔،۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
)غالب ؔ کو گمان تھا کہ اس کی دسترس فرشتوں کی سرگوشیوں تک ہے اور وہ اسی
بلند مقام سے اپنی شاعری کی تزئین کرتے ہیں لہذا انھوں نے انسانی سر بلندی
کوجس رنگ میں پیش کیا دنیا اس پر عش عش کر اٹھی (آتے ہیں غیب سے مضا میں
خیال میں۔،۔غالبؔ صریرِ خا مہ نوائے سروش ہے ) ۔عظیم شاعر ساحرؔ لدھیانوی
عظمتِ انساں کے نغمہ خواں تھے لہذا وہ رفعتِ انسان کے پھول یوں کھلاتے
ہیں(سر جھکانے سے کچھ نہیں ہو تا ۔،۔ سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے ) ۔،۔
(زندگی بھیک میں نہیں ملتی۔،۔ زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ میری طرح اس
حقیقت کو تو بھی جان پائے تو کوئی بات بنے) جان ایلیا کی منفرد شاعری اپنا
الگ رنگ رکھتی ہے ۔وہ عام ڈگر سے ہٹ کر شاعری کرتے تھے اور بہت بڑی بات کو
بڑے ہی سادہ اور عام فہم انداز میں کہہ جاتے تھے ۔محبوب کی محبت انسانی سر
بلندی کا سرمہ ہے لہذا جب فراقِ یار برداشت کی حدوں سے تجاوز کرنے لگا تو
وہ یوں گویا ہوئے (مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ۔،۔ ایک ہی شخص تھا جہاں میں
کیا) ۔، ۔ (یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو ۔،۔ کوئی رہتا ہے آسمان میں
کیا؟)۔کبھی کبھی نفی کو اثبات کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہی جان
ایلیا کی شاعری کا کمال تھا ۔سلطان باہوؔ بھی تو یہی کہتے ہیں( نفی اثبات د
اپانی لایا) ۔،۔
بابا بھلے شاہ کا اپنا ہی اسلوب تھا۔وہ اپنی ذات کی نفی سے انسانی عظمت کے
قائل تھے (چل بھلیا ہون اوتھے چلئے جتھے سارے ہوون انے۔،۔ نہ کوئی ساڈی ذات
پہچانے تے نہ کو ئی سانوں منے) غالبؔ بھی بھلے شاہ کا ہمنوا تھا اور اس نے
بھی اسی اند از میں انسانی کیفیت کا اظہار کیا تھا ۔(رہیے اب ایسی جگہ چل
کر جہاں کوئی نہ ہو۔،۔ہم سخن کوئی نہ ہواور ہم زباں کوئی نہ ہو)گویا کہ
خودشنانی اور خودستائی سے کوسوں دور ۔ بابا بھلے شاہ نے عظمتِ انساں کا جو
گیت گایا وہ حیاتِ جاوداں کی نوید بنا جس نے اس کائنات میں انسانی بقا کو
نیا آہنگ عطاکیا ( عرشِ عظیم تے ملیاں بانگاں تے مکے پہ گیا شور ۔،۔ بھلیا
اساں تے مرنا نا نئیں اے گور پیا کوئی ہور)موت تو برحق ہے لیکن اس کے
باوجود بھلے شاہ کا یہ چیلنج کہ مجھے خاک میں مل کر خاک نہیں ہونا بلکہ
مجھے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اس کے غیر متزلزل ایمان کی علامت ہے۔بابابھلے شاہ
کی نظر میں حیاتِ جاوداں کی کلید خلقِ خدا سے محبت میں مضمر تھی اور اس کی
خاطر اس نے مذہب کے نام نہاد ٹھکیداروں سے جنگ مول لے لی تھی (پڑھ پڑھ علم
کتابا ں تھکیوں،۔،تے کدی اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں)۔،۔(ایویں روز شیطان
نال لڑنا ایں۔،۔ کدی نفس اپنے نل لڑیا ای نئیں) یہ بڑی خطرناک جنگ تھی
کیونکہ مذہب کے ٹھیکیدار کسی کو جینے کا حق تفویض نہیں کرتے اور پھر چشمِ
فلک نے دیکھا کہ انھوں نے کس طرح یک گہرِ تابدار کو مٹی میں ملا نے کی سعی
کی ،یہ تو اس انمول گوہر کی چمک تھی جس نے مٹی سے بھی اپنے وجود کا اقرار
کروایااور یوں جیت بھلے شاہ کا ہی مقدر بنی۔سارے ویری ایک ایک کر کے ختم ہو
گے اور بھلے شاہ کاکلام حقیقت بن کر انسانی قلب میں جا گزین ہو گیا۔انداز
دیکھئے (نہ میں مومن و چ مسیتا ں ۔،۔ نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں ۔،۔ نہ میں
موسی نہ فرعون ۔ ، ۔ بھلیا کی جاناں میں کون) ۔ ،۔
فیض احمد فیض ؔجدید دور کے عظیم شاعرتھے اور انسانی مقام کو کہیں اور ہی
دیکھ رہے تھے۔کیا خوبصورت انداز تھا۔وہ انسانی جرات کے حاملین کو انتہائی
دلنشیں انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں( جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے ۔،۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات
نہیں)۔محبوب کی گلی اور اس پر فدا کاری کی سرشاری انسان کے اندر اپنے محبوب
کی خاطر جان لٹانے کا جنون پیدا کردیتی ہے ( مقا م فیض ؔ راہ میں کوئی جچا
ہی نہیں۔جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے)۔ظلم وستم اوربے پناہ جبر و
کراہ میں استقامت کا کوہِ گراں بن جانا غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے اور فیضؔ
انسان کو اسی کا درس دیتے ہیں (کرو کج جبیں پہ سر ِ کفن میرے قاتلوں کو
گماں نہ ہو ۔،۔ کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا)ان کا طریق
یہ تھا کہ وہ جبر و کراہ کے ماحو ل میں اپنے اظہار کیلئے پا بجولاں چلتے
تھے اور پھر وہ (رکھ دی ہر اک حلقہِ زنجیر میں زباں میں نے ) کی مجسم تصویر
تھے۔سزائے موت کے باوجود ریاستی جبر انھیں اپنی چنی گئی راہ سے ہٹا نہیں
سکا تھا(جورکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گے ۔،۔ رہِ یار ہم
نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا ) ۔منیرؔ نیازی نفسیات کا شاعر تھا اور
عزم و ہمت کو اچھوتے انداز میں بیان کرنے کے فن سے مالا مال تھے ۔ مشکلات ،
موانعات ، رکاوٹیں اور ا بتلائیں ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی
تھیں۔وہ ساری رکاوٹوں کے باوجود اپنی منزل کو پانے کے فن سے آشنا تھے (مجھ
کو اک اور دریا کا سامنا تھا منیر ؔ۔،۔ میں جو اک دریا کے پار اترا تو میں
نے دیکھا)۔جہاں انسان تھک جاتا ہے وہاں منیرؔ نئی توانائی سے محوِ سفر ہو
جاتا ہے۔حبیب جالبؔ کا باغیانہ رنگ دیکھئے ( وہ اک شخص جو یہاں تخت نشیں
تھا ۔،۔ اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا)۔اس نام نہاد خدا کا
جبر جب حدود نا آشنا ہو گیا تو پھر اسے کہنا پڑا (تو کہ نا واقفِ آدابِ
غلامی ہے ابھی۔ ، ۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ) سفاکیت جب اپنی
انتہاؤں کو چھونے لگے تو پھر رقص ہی آخری حربہ رہ جاتا ہے۔ قتیل شفائی
انسانی عظمت کومحبوب کی خوشنودی میں تلاش کرتے ہیں (گر جاؤ گے تم اپنے
مسیحا کی نظر میں۔،۔ مر کر بھی علاجِ دلِ بیمار نہ مانگو) موت سے نبرد آزما
ہونے کا عزم،جیت کو ممکن بنانے کی سعی اور ،بھنور کو شکست دینے کا عزم قتیل
شفائی کی شاعری میں صاف دیکھا جا سکتا ہے (حکمِ رقص جب بھی ملا ہم کو
دریاؤں میں۔،۔پہن لئے ہیں بھنور ہم نے اپنے پاؤں میں) آزادی و خوداری کے
داعی کا چلن ہمیشہباجرات ہوتا ہے ۔وہ موت سے خائف ہونے کی بجائے اس کے
سامنے ڈٹ جاتا ہے۔انسانی جرات کو طائر،دل، صیاد اورتیر وکمان کی تشبیہ دے
کر دلِ بیتاب کو ولولہِ تازہ دینے کا دلکش انداز دیکھئے (وہ طائر جس کے
سینے میں دلِ آزاد ہوتا ہے ۔ ،۔ وہاں قصدا چہکتا ہے جہاں صیاد ہو تا ہے)
ڈاکٹر مقصود جعفریؔ کے دو اشعار حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں (میرے بغیر کون
تھا منصورِ عصرِ نو۔،۔راہِ وفا کا اور طلبگار کون تھا۔،۔بھٹکی ہوئی تھی
زندگی صحرائے درد میں ۔،۔ دیکھو ذرا تو قافلہ سالار کون تھا )انسانی ذات کی
سر بلندی ،عظمت،رفعت،عروج اور پائیداری کی ساری داستان اس وقت تک ادھوری
رہے گی جب تک قلندرِ زماں حضرت علامہ اقبالؔ کا ذکر نہیں ہوگا لہذا اقبالی
فکر پر علیحدہ کالم احاطہِ تحریر میں لاؤں گا ۔ غالب ؔ نے شائد اسی بات کو
یوں کہا تھا (ہر چند ہو مشاہدہِ حق کی گفتگو۔،۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر
کہے بغیر)۔،۔
|