سورۂ اعراف میں تخلیق آدم کی تفصیل کے اختتام پر ارشادِ
باری تعالیٰ ہے:’’ تم (سب) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں،
اور تمہارے لئے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات (مقرر کر
دیئے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا
جا رہا ہے )‘‘۔ اس طرح حضرتِ آدمؑ کو حضرت حوا کے ساتھ جنت سے دنیا میں
روانہ کردیا گیا ۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
ابتدائے آفرینش میں فرمادیا تھا کہ’’ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا
ہوں‘‘۔ اس خلیفہ کو دنیا میں بھیجتے ہوئے آگاہ کیا گیا کہ :’’ تم اسی (زمین)
میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مَرو گے اور (قیامت کے روز) اسی میں سے
نکالے جاؤ گے‘‘۔ اسی کے ساتھ یہ ہدایت دی گئی :’’اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے
تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں)
زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا اور وہی)
تقوٰی کا لباس بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ
وہ نصیحت قبول کریں،‘‘۔
کائناتِ ہستی میں انسان کی امتیازی صفت اس کا لباس ہے۔ یہ شرم گاہ کا تحفظ
اورسامانِ زینت ہے۔ عریانیت عدم تحفظ کے علاوہ بدنمائی بھی ہے۔اباحیت و بے
حیائی انسانی فطرت سے متصادم ہے یہی وجہ ہے کہ ممبئی پولیس نے سوشل میڈیا
پر اداکار رنویر سنگھ کی برہنہ تصاویر کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔
اس کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 292 (فحش کتابوں کی فروخت)، 293 (فحش
اشیاء کی فروخت)، 509 (خواتین کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا) اور انفارمیشن
ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت شکایت لکھی گئی ہے۔رنویرجیسے لوگوں کو اللہ کی کتاب
خبردار کرتی ہے کہ :’’ اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال
دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس
اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا
قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں
دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان
نہیں رکھتے۰۰۰‘‘۔
قرآن مجید میں مردوزن کو اپنی عصمت و عفت کے حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشادِ قرآنی ہے:’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو
کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے
کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور
اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے
سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۰۰۰‘‘۔اس آیت میں آگے استثنیٰ
بیان کرنے کے بعد یہ وصیت کی گئی ہے کہ :’’ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے
توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔ حجاب کی بابت فرمانِ ربانی ہے کہ
:’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ
اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ
وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ‘‘۔
اس حکم کی تابعداری میں مسلم خواتین پردہ کرتی ہیں لیکن پچھلے دنوں جنوبی
کرناٹک کی تعلیم گاہوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ۔ مسلم طالبات نے
اصرار کیا تو اوباش نوجوانوں نے ان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ۔ اس کے
جواب میں مسکان خان نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تو اسلام مخالف میڈیا نے
بھی حجاب کے مخالفین کی مذمت کرتے ہوئے مسلم طالبہ کی پرزور حمایت کی ۔ اس
طرح حجاب کی مخالفت کرنے والوں کی رسوائی تو ہوئی مگر عدالتی فیصلے کا
سہارا لے کر مسلم طالبات تو کلاس میں آنے اور امتحان دینے سے روکا گیا۔ اب
اس علاقہ کے مسلمانوں نے 13؍ کالج کھولنے کی درخواست دی ہے اور ان میں سے
ایک منظوری بھی مل چکی ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں ایک بھی درخواست نہ دینے
والی امت میں حجاب کی مخالفت نے ایک زبردست تعلیمی بیداری پیداکردی۔ اس میں
شک نہیں کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں حجاب کا حق حاصل کرنے کے لیے مزاحمت
لازمی ہے لیکن اس کےساتھ اپنے ادارے قائم کرکے تعلیمی خود کفالت کی جانب
قدم بڑھانا خوش آئند ہے۔ اسے انگریزی میں بلیسنگ ان ڈسگائس یعنی زحمت میں
رحمت کہتے ہیں ۔ ارشادِ حق ہے:’’ دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کرنے والے
، اہل کتاب یا مشرک ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر
کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا
ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔
|