قُراٰنِ مجید اور ذکرِ بدعاتِ قدیم و جدید

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورٙةُالحدید ، اٰیت 27 تا 29 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ثم
قفینا علٰی
اٰثار ھم برسلنا
وقفینا بعیسٰی ابن
مریم واٰتینٰہ الانجیل و
جعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ
رافة ورحمة ورھبانیة ابتدعوھا ما
کتبنٰھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما
رعوھا حق رعایتھا فاٰتینا الذین اٰمنوا منھم
اجرھم و کثیر منھم فّسقون 27 یٰھا الذین اٰمنوا
اتقوا اللہ واٰمنوا برسولہ یوؑتکم کفلین من رحمتہ و یجعل
لکم نورا تمشون بہ ویغفرلکم واللہ غفوررحیم 28 لئلا یعلم اھل
الکتٰب الا یقدرون علٰی شئی من فضل اللہ و ان الفضل بید اللہ یوؑتہ
من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم 29
قومِ نُوح و ابراہیم کے بعد ہم نے اپنے رسول بہیجنے کا یہ سلسلہِ ہدایت قومِ بنی اسرائیل میں بھی جاری رکھا اور بنی اسرائیل کے آخری رسول عیسٰی ابنِ مریم کو کتابِ انجیل دی اور اُن پر ایمان لانے والی قوم کے دل میں ہم نے خلقِ خدا کے لئے محبت و ہمدردی بھی پیدا کردی لیکن اُس قوم نے خلقِ خُدا کے درمیان رہنے کے بجائے رضائے الٰہی حاصل کرنے کے خیال سے رہبانیت اختیار کر لی جو ہم نے اُن پر فرض نہیں کی تھی بلکہ یہ بدعت اُس نے خود ہی اپنے لئے ایجاد کر لی تھی اگرچہ وہ اپنی اِس یجاد کا حق بھی ادا نہیں کرسکی لیکن اِس کے باوجُود بھی اُس قوم کے نابکار لوگوں کے مقابلے میں اُس قوم کے ایمان دار لوگوں کو ہم نے یہ اجر دیا کہ اُن کو عہدِ مسیح کے بعد عہدِ محمد میں داخل کردیا ہے تاکہ اگر وہ مسیح کے بعد محمد پر بھی ایمان لے ائیں تو ہم اُن کو اپنے سایہِ رحمت میں لائیں اور اُن کی خطا پوشی کر کے اُن کو اِن دو اٙدوار میں دو بار ایمان لانے کے صلے میں اپنے دُہرے اجر و انعام کا حق دار بنا دیں ، اِن اہلِ کتاب کو ہم نے اِس اٙمر کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ اللہ جب تک جس قوم پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے اُس پر فضل کرتا ہے اور اگر اللہ اُس قوم کے بعد اپنے اِس فضل کے لئے ایک دُوسری قوم کا انتخاب کرتا ہے تو یہ بھی اُس کا حق ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے تین بڑے مضامین میں پہلا بڑا مضمون انسان کا اللہ کی توحید پر ایمان لانا ، دُوسرا بڑا مضمون انسان کا زمین کے وسائل کو اہلِ زمین کے درمیان انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا اور تیسرا بڑا مضمون انسان کا حدید سے بننے والے آلاتِ قدیم و جدید کو اپنے مُثبت استعمال کے لئے بناکر مُثبت استعمال میں لانا اور اُن آلات کے مٙنفی استعمال سے گریز کرنا تھا اور اِس سُورت کے اِس آخری بڑے مضمون میں رہبانیت کی اُس بدعت کا ذکر کیا گیا ہے جو بدعت مسیح علیہ السلام کی اُمت نے رضائے الٰہی کے حصول کے لئے شروع کی تھی لیکن وہ اُمت اپنی اُس بدعت کے وہ مُثبت نتائج اِس لئے حاصل نہیں کر سکی تھی کہ اُس اُمت نے رہبانیت کا وہ عمل اللہ کے کسی حُکم کے تحت شروع نہیں کیا تھا بلکہ اپنے نفس میں پیدا ہونے والے ایک خیال کے تحت شروع کیا تھا جو کہ اُس کی ایک نفسانی بدعت کا ایک نفسانی اظہار تھا ، بدعت کا قُرآنی معنٰی کسی مُوجد کی وہ ایجاد ہوتی ہے جس ایجاد کا اُس مُوجد سے پہلے کہیں پر بھی کوئی وجُود موجُود نہیں ہوتا ، قُرآن نے اپنے اِس قانُونِ مُوجد و ایجاد کی تشریح کرتے ہوئے سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 117 میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ زمین و آسمان دونوں اللہ تعالٰی کی ایجاد ہیں اور اللہ تعالٰی ہی اپنی اِن دونوں ایجادات کا پہلا مُوجد ہے ، قُرآنِ کریم نے دُوسری بار بھی مُوجد و ایجاد کا یہی قانُون سُورٙةُالاٙنعام کی اٰیت 101 میں بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور قُرآن نے اپنے اِس قانُونِ مُوجد و ایجاد کی مزید تشریح کے لئے سُورٙةُالاٙحقاف کی اٰیت 9 میں سیدنا محمد علیہ السلام کو اِس اٙمر کا حُکم دیا ہے کہ آپ اہلِ زمین پر یہ اٙمر واضح کردیں کہ میں ایک انسان کے طور پر اپنا مُوجد آپ نہیں ہوں اور ایک رسُول کے طور پر بھی اپنا مُوجد آپ نہیں ہوں اور میں اِس دین کا مُوجد بھی نہیں ہوں جس دین کو میں اہلِ زمین کے سامنے پیش کر رہاں ، اِس ارشاد کا مٙنشا آپ سے اِس حقیقت کا اظہار کرانا تھا کہ مُجھے پیدا بھی اللہ تعالٰی نے خود کیا ہے ، اپنا رسُول بھی اللہ تعالٰی نے خود بنایا ہے اور یہ دین بھی مُجھے اللہ تعالٰی نے خود دیا ہے جس دین کی میں اہلِ زمین کو تعلیم دے رہا ہوں ، قُرآن کے اِس قانُون تشریح نے ایک مُوجد کی ایجاد کی گئی چیز اور ایک مُوجد کے ایجاد کرنے کے بعد موجُود رہنے والی چیز میں یہ فرق قائم کر دیا ہے کہ مُوجد کی ایجاد کی ہوئی ایجاد وہی پہلی چیز ہوتی ہے جو ایک مُوجد نے پہلی بار ایجاد کی ہوتی ہے جس طرح کہ اللہ کا ایجاد کیا ہوا یہ آسمان ہے یا اللہ کی ایجاد کی ہوئی یہ زمین ہے اور ایجاد کے بعد مُوجود رہنے والی چیز کی مثال محمد علیہ السلام کی اور آپ سے پہلے اہلِ زمین کی طرف تشریف لانے والے اٙنبیائے کرام کی وہ نبوت ہے جس کا مُوجد بذاتِ خود اللہ تعالٰی ہے اور اُس نبوت کو مُتعارف کرانے والے اللہ تعالٰی کے وہ اٙنبیاء و رُسل ہیں جو اللہ تعالٰی کے اِس دین کو مختلف زمان مکان میں مُتعارف کراتے رہے ہیں لیکن اٰیاتِ بالا میں بیان ہونے والے جو دو زیادہ قابلِ ذکر پہلو ہیں اُن میں پہلا پہلو مسیح علیہ السلام کی اُمت کی نرم دلی کا وہ پہلو ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے لیکن اہلِ روایت و تفسیر نے مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ چونکہ مسیح علیہ السلام رحم دل تھے اِس لئے اللہ نے اُن کی اُمت کو بھی اُن کے لئے رحم دل بنا دیا تھا مگر یہ تشریح کرتے ہوئے یہ اہلِ روایت و تفسیر یہ بات بُھول گئے ہیں کہ سیدنا محمد علیہ السلام بھی { نعوذ باللہ } کوئی سنگ دل نبی ہر گز نہیں تھے کہ اللہ تعالٰی نے مکے میں آپ کے مقابلے میں ایک سنگ دل قوم کھڑی کی ہوئی تھی اِس لئے اِس باب میں اصل بات اہلِ روایت کا یہ روایتی خیال نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی کی اپنی وہ حکمت ہے کہ جس حکمت کے تحت مکے میں آپ کو سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک وقت تک اُس سخت دل قوم کے ساتھ رکھا گیا جو آج تک اُسی طرح کی سخت دل ہے اور مدینے میں آپ کو اپنی محبت تقسیم کر نے کے لئے اُس نرم دل قوم کے حوالے کیا گیا جو آج تک اُسی طرح نرم دل ہے ، اسی طرح عہدِ مسیح میں قومِ مسیح کے جو لوگ اُس وقت جس طرح سنگ دل تھے وہ آج بھی اُسی طرح کے سنگ دل ہیں اور عہدِ مسیح میں قومِ مسیح کے جو لوگ جس طرح کے نرم خُو اور رحم دل تھے وہ آج تک اُسی طرح کے نرم خُو اور رحم دل ہیں ، اٰیاتِ بالا میں جو دُوسرا قابلِ ذکر پہلو ہے وہ یہ ہے کہ قُرآن نے مسیح علیہ السلام کی اُمت کی جس رہبانیت کو بدعت کہا ہے وہ بدعت مسیح علیہ السلام کی اُمت سے پہلے چین کے بدھ مذہب و ہندوستان کے ہندو مذہب ، ایران کے مانوی اور مصر و یونان کے دُوسرے مذاہب میں بھی موجُود تھی لیکن قُرآن نے اُن مذاہب میں سے کسی مذہب کی اِس بدعت کو بدعت اِس لئے نہیں کہا ہے کہ اُن مذاہب میں سے کسی مذہب نے بھی اپنی اِس بدعت کو خُدا کا دین نہیں کہا ہے بخلاف اِس کے کہ مسیح علیہ السلام کی جو اُمت کتابِ انجیل کو اپنا دین کہتی تھی وہ ترکِ دُنیا کر کے غاروں میں رہنے کے اپنے اِس رہبانی عمل کو بھی اللہ کا دین قرار دیتی تھی اور اٙقوامِ عالٙم کے اِس ایک عمل کے جو دو زاویئے ہیں اُن میں ایک زاویہ وہ ہے جس میں انسان نے اپنی بدعت کو خُدا و خُدا کے دین کی طرف منسوب نہیں کیا ، اُن کے اُس عمل کی سزا و جزا کُچھ بھی ہو لیکن قُرآن نے اُس کو موضوعِ بحث نہیں بنایا لیکن بدعت کا وہی عمل جب ایک دُوسری قوم نے خُدا و دینِ خُدا سے منسوب کر کے خُدا و دینِ خُدا پر بُہتان باندھا ہے تو قُرآن نے اُس پر تعرض کرتے ہوئے اُس کو بدعت قرار دیا ہے اور اِس فرق نے یہ اصول قائم کر دیا ہے کہ بدعت انسان کا ایجاد کیا ہوا وہی عمل ہوتا ہے جس عمل کو انسان اپنی کسی نیک خواہش سے ایجاد کرتا ہے اور پھر ایک نہایت ہی نیک جذبے کے ساتھ اپنے اُس عمل کو اللہ تعالٰی کی ذات و ارشادات کے ساتھ مُنسلک کردیتا ہے جہاں تک انسان کی دیگر علمی و عملی ایجادات کا تعلق ہے وہ تو وہ عین مطلوب و مقصود ہیں اِس فرق کے ساتھ کہ کون سی ایجاد اُس نے اللہ تعالٰی کے حُکم سے کی ہے اور کون سی ایجاد اُس نے اللہ کی دی ہوئی عقل سے کی ہے تاکہ اِن دونوں باتوں کے فرق سے یہ فرق قائم ہو سکے کہ انسان اپنی عقل سے جو اعمال اٙنجام دیتا ہے اُن میں غلطی کا امکان موجُود ہوتا ہے اور جن چیزوں کو اللہ تعالٰی نے اپنی وحی میں اپنا حُکم قرار دیا ہے اُس میں کسی غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558269 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More