#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالمجادلة ، اٰیت 1
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
قد
سمع اللہ
قول التی تجادلک
فی زوجھا و تشتکی اللہ و
اللہ یسمع تحاورکما ان اللہ سمیع
بصیر 1
اے اللہ کے رسولِ مُرسل ! اللہ نے اُس عورت کی بات پہلے ہی سُن لی ہے جو
عنقریب آپ کے پاس آئے گی اور اپنی نوع کے رفیقِ نوع کے حوالے سے آپ کے ساتھ
ایک بامعنی مکالمہ کرے گی اور آپ سے اللہ کے سامنے اپنی شکایت پیش کرنے کا
مطالبہ بھی کرے گی لیکن آپ خاطر جمع رکھی کہ اللہ نے جس طرح پہلے براہِ
راست اُس کا حال دیکھا اور براہِ راست اُس کا اٙحوال سُنا ہے اسی طرح اللہ
بعد میں بھی اُس عورت کا آپ کے ساتھ ہونے والا مکالمہ براہِ راست سنے گا
اور براہِ راست اُس کے بارے میں اپنے اٙحکام جاری کرے گا کیونکہ اللہ اپنی
مخلوق کے اٙقوالِ زبان کو بھی براہِ راست سُنتا ہے ، اُس کے اٙحوالِ جان کو
بھی براہِ راست دیکھتا ہے اور اُس کے حالِ جان و اٙحوالِ جہان کے تمام
فیصلے بھی بر وقت صادر کرتا ہے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
ایک سُوئے اتفاق ہے کہ ہمارے عُلمائے روایت و تفسیر کو جب قُرآن کی کسی
اٰیت کے معانی کا ادراک نہیں ہوتا تو اُن کو کسی کہانی کا وہ چراغ بہر حال
مل جاتا ہے جس چراغ کی روشنی میں چل کر وہ اُس اٰیت کے مُشکل معانی کا سراغ
لگاتے اور سناتے ہیں اور یہ بھی ایک سُوئے اتفاق ہی ہے کہ اِس سُورت کی اِس
اٰیت کے معانی کا سراغ لگانے کے لئے بھی اُن کو یہ کہانی مل گئی ہے کہ عہدِ
نبوی کی ایک مُسلم خاتون خولہ بنت مالک بن ثعلبہ کو اُن کے مُسلم شوہر اوس
بن صامت نے دورِ قدیم کے رائج طریقہِ جاہلیت کے مطابق یہ کہدیا تھا کہ تُو
مُجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ، ہم اِس روایت کے اِس اُسلوبِ کلام کے
بارے میں یہ سوال نظر انداز کیئے دیتے ہیں کہ اِس کا مطلب کیا ہے تاہم اہلِ
روایت کے نزدیک دورِ جاہلیت میں جب کوئی شوہر اپنی بیوی سے یہ الفاظ کہدیتا
تھا تو اُس کا یہ کہنا اُس کی طرف سے بیوی کو طلاق دے دینا متصور ہوتا تھا
اِس لئے جب اوس بن صامت نے اپنی بیوی سے یہ کہا تھا تو اُس کی بیوی نے نبی
علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر نبی علیہ السلام سے وہ مکالمہ کیا تھا
جس مکالمے کا اِس سُورت کی اِس اٰیت میں ذکر ہوا ہے لیکن اہلِ روایت نے اِس
سُورت کی اِس اٰیت کا جو زمانہِ نزول بیان کیا ہے وہ اُس جنگِ احزاب کے بعد
کا زمانہ ہے جو جنگِ احزاب 5 ہجری کے بعد برپا ہوئی تھی جس کا پہلا مطلب یہ
ہے کہ جس وقت خولہ بنت ثعلب اور اوس بن صامت کے درمیان دورِ جاہلیت کی
روایتی طلاق کا یہ واقعہ پیش آیا تھا اُس وقت نبوت کے 12 مکی سال گزرنے کے
بعد نبوت کے 5 مدنی سال بھی گزر چکے تھے اور عہدِ نبوت کے اِن پُورے 17
برسوں کے دوران مُسلم معاشرے میں نکاح و طلاق کے سارے طریقے دورِ جاہلیت کے
وہی طریقے رائج تھے اور مدینے کی اسلامی ریاست کے قائم ہونے کے بعد بھی
اہلِ اسلام دورِ جاہلیت کے اُن ہی جاہلی طریقوں کے مطابق اپنی بیویوں کو
طلاق دیا کرتے تھے اور اِس کا دُوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر مدینے کی ریاست
قائم ہونے کے 5 برس بعد بھی خولہ بنت مالک اور اوس بن صامت کے درمیان طلاقِ
جاہلیت کا یہ واقعہ پیش نہ آیا ہوا ہوتا تو اِس سُورت کے نازل ہونے کی کبھی
نوبت ہی نہ آتی لیکن یہ تمام باتیں چونکہ بداہتًہ غلط ہیں اِس لئے اہلِ
روایت کی پیش کی ہوئی یہ کہانی بھی بداہتًہ غلط ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے
کہ اِس اٰیت کا وہ نفسِ مضمون بذاتِ خود بھی اِس کہانی کی نفی کرتا ہے جس
مضمون کو ہم یہاں پر قُرآن کی اندرونی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور
قُرآن کی اِس اندرونی دلیل کو سمجھنے کے لئے اِس اٰیت میں وارد ہونے والا
سب سے پہلا صیغہ { سمع } ہے جو ماضی معروف کا صیغہ ہے اور جو اِس اٰیت میں
اِسمِ اللہ کے ایک مُرکب کے ساتھ { قد سمع اللہ } کی صورت میں وارد ہوا ہے
جس کا مقصدی مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اُس عورت کی بات اُس کے دل کی زبان سے
سُن لی ہے اور اُس کے دل کا اٙحوال بھی اُس کے دل کے درد سے جان لیا ہے ،
سمع کے اِس صیغے پر جو حرفِ { قد } آیا ہے وہ حرفِ یقین ہے جو اِس کلام میں
زورِ بلاغت پیدا کرنے کے لئے لایا گیا ہے اور اِس کا زور صیغہِ سمع پر ہے
جس کا مطلب اِس بات میں زورِ بلاغت پیدا کرنا ہے کہ اللہ نے اُس عورت کا
اٙحوال سن لیا ہے لیکن اِس { قد } کا زور { ظہار } کی اُس اصطلاح کی طرف ہر
گز نہیں ہے جو اصطلاح اہلِ روایت نے صدیوں بعد اپنی اِس جُھوٹی کہانی کو
سٙچی ثابت کرنے کے خیال سے وضع کی ہے ، اِس سُورت کی اِس اٰیت میں آنے والا
دُوسرا صیغہ { تجادلک } ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اور اِس صیغے کا مقصدی
مفہوم یہ ہے کہ جو عورت آپ کے پاس آئے گی وہ عورت آپ کے ساتھ اپنے انسانی
حقوق کے حق میں ایک باقاعدہ علمی مکالمہ بھی کرے گی ، اسی طرح اِس سُورت کی
اِس اٰیت میں آنے والا کا تیسرا صیغہ { تشتکی } بھی فعل مضارع معروف کا
صیغہ ہے جس کا مقصدی مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت آپ سے یہ مکالمہ اِس مقصد کے
لئے کرے گی کہ وہ جانتی ہے کہ اللہ کے رسول کا جو روز مرہ سوال و جواب پر
مُشتمل کلام ہوتا ہے وہ کلامِ وحی نہیں ہوتا اِس لئے وہ آپ سے اِس اٙمر کا
تقاضا کرے گی کہ آپ عورتوں کے اِن انسانی حقوق کے بارے میں عورتوں کی طرف
سے اللہ تعالٰی کے سامنے ایک باقاعدہ ایک شکایت پیش کر کے اللہ تعالٰی سے
اُس کی وحی کی صورت میں وہ فیصلہ حاصل کریں جس سے اُس عورت کی اور ساتھی
عورتوں کی تسلّی ہو جائے اور اِس سُورت کی اِس اٰیت کا چوتھا صیغہ {
تحاورکما } بھی فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو یہ
پیشگی خبر دی ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کے اور اُس عورت کے مابین ہونے والے
مُجرد کلام ہی کو نہیں سنے گا بلکہ وہ اُس کلام کے معنوی اُسلوب کو بھی
پرکھے گا تاکہ اُس کلام و اُسلوبِ کلام پر وہی فیصلہ صادر کرے جس سے سوال
کرنے والی اُس عورت کو قلبی و روحانی طور پر ایک کامل سکون مل جائے ، اِس
اٰیت میں ماضی کے صیغے { سمع } میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو جس عورت کے
آنے کی اطلاع دی ہے وہ فردِ عورت نہیں ہے جیساکہ اہلِ روایت نے سمجھا اور
سمجھایا ہے بلکہ وہ اٙفرادِ عورت کی ایک نوعِ عورت ہے جو فردِ عورت کے طور
پر اپنی نوعِ جنس کی تمام عورتوں کے اُن انسانی حقوق کی بحالی کے لئے نبی
علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتی تھی اُس نوع کے جو حقوق ہزاروں
سال سے مردوں کے اُس مردانہ معاشرے نے اپنی مردانہ طاقت کے زور سے معطل کر
رکھے تھے اور خواتین کے یہ وہ انسانی حقوق تھے جو اگر عہدِ نبوی میں بحال
نہ ہوتے تو پھر کبھی بھی بحال نہ ہوتے اور نوعِ عورت کے اُن انسانی حقوق کی
یہی وہ اہمیت تھی جس اہمیت کی بنا پر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو عورتوں کی
اُس نمائندہ عورت کے آپ کی خدمت میں آنے کی پیشگی اطلاع دی تھی اور اُس کے
خیال میں آنے والے مکالمے کی اہمیت کو بھی بیان کرتے ہوئے یہ خبر بھی دے دی
تھی کہ جب وہ عورت آپ کے پاس آکر آپ کے ساتھ مکالمہ کرے گی تو میں براہِ
راست اُس کا اور آپ کا وہ مکالمہ سنوں گا اور میں براہِ راست اُس کے مطالبے
بارے میں اپنا فیصلہ بھی صادر کروں گا ، اِس سُورت کا موضوعِ سُخن انسانی
حیات میں نسوانی حیات کا وہ قُرآنی منشور ہے جو اِس سُورت میں پیش کیا گیا
ہے اور اِس سُورت کی یہ پہلی اٰیت اُس قُرآنی منشور کی وہ تمہید ہے جس
تمہید کے بعد آنے والی تین اٰیات میں خُدا کا وہ خُدائی فیصلہ سنایا گیا ہے
جو فیصلہ اُن عورتوں کی اُس نمائندہ عورت کو مطلوب تھا ، اِس فیصلے کے بعد
اُن کم زور دل لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے دل اِس خُدائی فیصلے سے بچنے
کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور یہ بہانے تلاش کرنے کے لئے ایک دُوسرے کے
ساتھ وہ اپنی وہ منافقانہ کانا پُھوسی بھی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے
انسانی نوع رحمانی و شیطانی انواع میں تقسیم ہوتی رہتی ہے لیکن اِس انسانی
اور شیطانی جنگ میں حتمی فتح بہر حال اُن لوگوں کو ہی حاصل ہو گی جو لوگ
مہد سے لحد تک رحمانی جماعت میں شامل رہیں گے !!
|