تحدیدِ کلام کی تجدید و سزائے تجدید !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمجادلة ، اٰیت 2 تا 6 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الذین
یظٰھرون منکم
من نسائہم ماھن
امھٰتہم ان امھٰتہم
الا الٰئی ولدنہم وانھم
لیقولون منکرا من القول
وزورا وان اللہ لعفو غفور 2
والذین یظٰھرون من نسائھم ثم
یعودون لما قالوا فتحریر رقبة من
قبل ان یتماساء ذٰلکم توعظون بہ و
اللہ بما تعملون خبیر 3 فمن لم یجد
فصیام شھرینمتتابعین من قبل ان یتما
سا فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا
ذٰلکم لتوؑمنوا باللہ ورسولہ و تلک حدود اللہ
وللکٰفرین عذاب الیم 4 ان الذین یحادون اللہ و
رسولہ کبتوا کما کبت الذین من قبلھم وقد انزلنا
اٰیٰت بینٰت وللکٰفرین عذاب مھین 5 یوم یبعثھم اللہ
جمیعا فینبئھم بما عملوا احصٰہ اللہ ونسوہ واللہ علٰی
کل شئی شھید 6
جو لوگ جان و نفس کے کسی نازک و حساس لٙمحے میں اپنی بیویوں کی پُشتیبانی کو اپنی ماوؑں کی پُشتیبانی کہدیتے ہیں تو اُن کے اِس طرح کہنے سے اُن کی بیویاں اُن کی مائیں اِس لئے نہیں بن جاتیں کہ اُن کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات ایک بے مقصد و بے معنی بات ہوتی ہے کیونکہ اُن کی مائیں تو وہی عورتیں ہوتی ہیں جنہوں نے اُن کو اپنے پیٹ میں پال کر اپنے پیٹ سے پیدا کیا ہوا ہوتا ہے تاہم اگر کسی شوہر نے ایک بار سہوا بیوی سے ایسا کہدیا ہے تو دُوسری بار ایسا کہنے سے اجتناب لازم ہے لیکن جس عورت کا جو شوہر اللہ کی اِس ہدایت کے بعد بھی بیوی سے یہی بات کہے گا تو اِس کے بعد اُس کو اپنی بیوی کے ساتھ اپنے تجدیدِ تعلق سے پہلے اپنی سزا کے طور پر اُس مظلوم انسان کو اُس ظالم انسان کی گرفت سے آزاد کرانا ہو گا جس ظالم انسان نے اُس مظلوم انسان کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہو گا یا پھر اُس کو پُورے دو ماہ تک عملِ صوم سے اپنی زبان بندی کی مشق کرنی ہو گی اور یا پھر اُس کو ساٹھ بُھوکے اٙفراد کو ایک ساتھ یا ایک ایک کر کے پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہوگا ، جو لوگ اللہ و رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور جن لوگوں پر اللہ تعالٰی کی اِن اٰیاتِ بینات کے یہ واضح اٙحکام واضح ہو چکے ہیں تو اُن کے لئے اللہ کی یہ لازمی اور دائمی حدود ہیں اِس لئے جو اہلِ ایمان اِن حدود کو پامال کریں گے تو وہ اہلِ ایمان بھی زمین میں اسی طرح پال ہوں گے جس طرح اُن سے پہلے مُنحرف عن الحق لوگ اِن حدود کے پال کرنے پر پامال ہوچکے ہیں اور جب اِن مُنحرف لوگوں پر قیامت قائم ہو گی تو اللہ اِن سارے نافرمان لوگوں کو یہ ساری باتیں ایک ایک کر کے یاد دلادے گا جن باتوں کو وہ نافرمان لوگ ایک ایک کر کے فراموش کر چکے ہوں گے اور پھر حق و اٙحکامِ حق کے اِن سارے سرکش مجرموں کو وہ سخت ترین سزائیں دی جائیں گی جن سخت ترین سزاوؑں کے وہ حق دار ہوچکے ہوں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی اٰیت جو اِس سُورت میں شامل مضامین کی ایک تمہیدِ کلام ہے وہ اٰیت سُورٙةُالاٙحزاب کی اُس اٰیت 37 کا ایک اعادہِ کلام ہے جس اٰیت میں اللہ تعالٰی نے ایک نا معلوم مرد و زن کے ایک معلوم واقعے کا ذکر کیا ہے لیکن اہلِ روایت و تفسیر نے اُس اٰیت کے اُس مضمون میں پہلے تو رسول اللہ کے ایک فرضی غلام زید کو شامل کیا ہے پھر اُس فرضی غلام کی ایک فرضی بیوی زینب کی طلاق کا ذکر کرتے ہوئے اُس میں رسول اللہ کی پسندیدگی کو شامل کر کے زینب کو زید سے طلاق دلائی گئی ہے اور زید سے طلاق دلانے کے بعد رسول اللہ کا زینب کے ساتھ نکاح کرادیا ہے اور اِس فرضی کہانی کے ساتھ یہ فرضی قصہ جوڑ دیا ہے کہ زید نبی علیہ السلام کا مُنہ بولا بیٹا تھا اور نبی علیہ السلام زید کے مُنہ بولے باپ تھے اور اللہ نے چونکہ یہ ثابت کرنا تھا کہ مُنہ بولا باپ اپنے مُنہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی کے ساتھ عقدِ نکاح کرسکتا ہے اِس لئے اللہ نے اپنے نبی کا اُس کے مُنہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح کر دیا تھا حالانکہ کسی زید نے ساری عُمر کبھی بھی ابنِ محمد ہونے کا دعوٰی نہیں کیا اور سیدنا محمد علیہ السلام نے بھی اپنی پُوری زندگی میں ایک بار کبھی ابو محمد کہلانا پسند نہیں فرمایا اِس لئے اللہ تعالٰی نے سُورٙةُالمجادلة کی اِس اٰیت میں سُورٙةةالاٙحزاب میں بیان کیئے گئے اُس واقعے کا اعادہ کر کے ایک بار پھر یہِ ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ جس طرح سُورٙةُالمجادلة کی اِس اٰیت میں اللہ تعالٰی نے کسی مرد و زن کو نامزد نہیں کیا ہے اسی طرح سُورٙةُالاٙحزاب کی اُس اٰیت میں بھی اللہ تعالٰی نے کسی مرد و زن کو نام زد نہیں کیا ہے اور سُورٙةُالاٙحزاب کی اُس اٰیت کے اُس مضمون میں ہم نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ اُس اٰیت میں جو لفظِ زید وارد ہوا ہے وہ زید اسمِ علٙم نہیں ہے بلکہ زاد یزید کے افعالِ مُتحرکہ کا ایک مصدر ہے جس مصدر کو اہلِ روایت و تفسیر نے اُس کے لفظی و معنوی سیاق و سباق سے کاٹ پیٹ کر ایک اسمِ علٙم بنا دیا ہے تاکہ اُن کی مرد و زن والی اُس مردود کہانی کو قبولت حاصل ہو جائے جس کہانی کے ذریعے اُنہوں نے اہانتِ رسول کا ایک مذموم مفہوم کشید کیا ہے ، بہر حال اِس سُورت کی یہ دُوسری اٰیت بھی سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 4 کے مضمون کا اعادہِ کلام ہے جس میں { تظٰھرون منھن امھٰتکم } کا قانون تو بیان کر دیا تھا لیکن اِس کی وہ سزا بیان نہیں کی تھی جو اِس وقت اِس سُورت کی اِس اٰیت میں بیان کی ہے کیونکہ اُس وقت جس انسان کا جو مُفرد قول سامنے آیا تھا اُس وقت وہ قول اُس کا قولِ اٙوّل ہونے کی بنا پر قابلِ مواخذہ نہیں تھا لیکن اُس واقعے کے بعد ضرور کوئی نہ کوئی ایسی صورت حال سامنے آئی ہوگی جس صورتِ حال میں کسی انسان نے اپنی کسی خیالی خواہش کے تحت خود کو یا کسی دُوسرے انسان کو کسی دُوسرے انسان کے ساتھ منسوب کیا ہو گا جس کے بعد { ثم یعودون } کا یہ قانون نافذالعمل ہوا ہے جس قانون کا اِس سُورت کی تیسری اٰیت کے پانچویں اور چِھٹے جُملے { ثم یعودون لما قالوا } میں اعلان کیا گیا ہے ، عادہ یعود کا معروف معنٰی اگرچہ مُطلقا کسی عمل کا اعادہ کرنا ہوتا ہے لیکن اِس مقام پر اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے اِس کا مفہوم انسان کا اپنے اُن سابقہ الفاظ کا اعادہ کرنا ہے جن الفاظ کے اعادے سے اُس کو روک دیا گیا تھا لیکن اہلِ روایت کی دیدہ دلیری کا یہ حال ہے کہ انہوں نے اِس کا معنٰی بھی بیوی کے ساتھ مُباشرت کرنا کیا ہے جو اُن کی ذہنی جنس پرستی کا وہ ذہنی خاکہ ہے جس ذہنی خاکے کو وہ الفاظ کا جامہ بھی نہیں پہنا سکے ، اسی طرح سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 4 میں آنے والے جمع مذکر حاضر کے صیغے { تظٰھرون } اور اِس سُورت کی اٰیت میں وارد ہونے والے جمع مذکر غائب کے صیغے { یظٰھرون } کا ترجمہ بھی اُنہوں نے ظِہار بروزنِ نِہار کیا ہے جو کہ وہ عمل نہیں ہے جو فعل کا تقاضا ہوتا ہے بلکہ وہ ایک کیفیت ہے جو یہاں پر مطلوب نہیں ہے کیونکہ اِن دونوں صیغوں کا مصدرِ اٙوّل ظھر ہے جس کا معنٰی پُشت ہے اور اسی بنا پر ہم نے اِس لفظ کا مقصدی معنٰی پُشتیبانی کیا ہے ، پُشت انسانی جسم کے اُس پچھلے حصے کو کہتے ہیں جو انسانی جسم کے سامنے والے حضوری حصے کے مقابلے میں ایک { غیاب } ہوتا ہے اور سابقہ و موجُودہ اٰیات کے اِن دونوں مقامات پر آنے والی اٰیات کا مقصدی مفہوم ایک جذباتی شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا ہے کہ جس طرح میں اپنی ماں کے غیاب میں اپنے آپ کو محبت و توجہ سے محروم خیال کرتا ہوں اسی طرح تُمہاری عدم موجودگی میں بھی میں اُس مطلوبہ توجہ اور محبت کی نعمت سے محروم ہو جاتا ہوں ، ظاہر ہے کہ یہ اُس انسان کا ایک ایسا احساسِ نفس ہے کہ جس سے اُس کے نفسِ نکاح پر تو قطعا کوئی منفی اثر نہیں پڑتا لیکن اِس عام لفظ کا ایک خاص وقت میں ایک خاص استعمال اُس کے اِس رشتے کے لئے نقصان کا باعث ضرور بن سکتا ہے اِسی لئے اللہ تعالٰی نے سُورٙةُالاٙحزاب کے پہلے مقام پر اِس لفظ کے پہلے استعمال پر صرف ایک نصیحت و تنبیہ کرنے پر اکتفا کیا ہے لیکن سُورٙةُ المجادلة کی اِس اٰیت میں اِس انسانی قول کو ایک تعزیری عمل قرار دے کر اُس پر انسان کو وہ قابلِ عبرت سزا دینے کا فیصلہ بھی کر دیا ہے جس سزا کا اِس سُورت کی مُتعلقہ اٰیات میں اعلان کیا گیا ہے ، انسان کے اِن انسانی احساسات کا نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ بچے جن دو اٙفرادِ مرد و زن کے ذریعے جن دو اٙفرادِ مرد و زن کے درمیان پیدا ہوتے ہیں اُن اٙفراد میں ایک اُن بچوں کا شفیق باپ ہوتا ہے اور ایک اُن کی مہربان ماں ہوتی ہے ، اُن بچوں کے اُس گھر میں اُن کا جو باپ ہوتا ہے وہ جسمانی اعتبار سے ایک طاقت ور مرد ہوتا ہے اِس لئے اُس گھر کی بیٹی اُس کو اپنا اور اپنی کم زور ماں کا محافظ سمجھتی ہے اور اُس گھر کا بیٹا جو اپنے باپ کی طرح گھر کا ایک طاقت ور فرد ہوتا ہے وہ بھی خود کو اپنی کم زور ماں اور کم زور بہن کا ایک محافظ سمجھتا ہے لیکن جب یہ بچے جوان ہو کر اپنے والدین کی طرح اپنے گھروں کے مالک بن جاتے ہیں تو اُن کو اپنے اُن نئے گھروں میں بسنے رسنے کے بعد جن نفسیاتی حوالوں سے اپنے والدین یاد آتے ہیں اُن حوالوں میں بیٹی کے لئے اُس کا سب سے بڑا نفسیاتی حوالہ اپنے باپ کی وہی طاقت ور اور معتبر ہستی ہوتی ہے جو اُس نے بچپن سے اب تک دیکھی ہوتی ہے اور وہ کبھی کبھی اپنے شوہر کو بھی اُسی طاقت ور اور معتبر مرد کے رُوپ میں دیکھتی ہے اور بچپن سے نکل کر جوانی میں آجانے والے اُس بیٹے کے نفسیاتی حوالوں میں بھی سب سے بڑا نفسیاتی حوالہ اُس کی وہ مہربان ماں ہوتی ہے جو اُس کے بچپن سے لے کر اُس کی جوانی تک اُس کی دیکھ بھال کرتی رہتی ہے ، انسان کے اِس نفسیاتی پس منظر میں یہ بات قطعا بعید از امکان نہیں ہوتی ہے کہ ایک شادی شدہ لڑکی اپنے خیالوں کے اُجالوں میں اپنے شوہر کو کبھی اپنے باپ کے رُوپ میں نہ دیکھے اور ایک شادی شدہ لڑکے کے لئے بھی یہ بات ہر گز بعید از امکان نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اِن ہی خیالوں کے اُجالوں میں کبھی کبھی اپنی بیوی کو اپنی ماں کے رُوپ میں محسوس نہ کرے ، بالخصوص اُس وقت جب وہ ایک دُوسرے سے الگ ہوتے ہوں تو اُن کی نئی یادوں میں اُن کی پرانی یادوں کے وہی جگنُو اُن کی یادوں کے آسمان پر نہ جگمگاتے ہوں جو جگنُو اُن کے ماضی میں اُن کے خیالوں کے آسمان پر جگمگاتے رہتے تھے اور جب انسان کی نفسیاتی صورتِ حال یہ ہے تو پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ اُس کے نفسیاتی حوالے سے اُس کے خیال میں غیر ارادی طور پر آنے والی کوئی بات غیر ارادی طور پر کبھی اُس کی زبان پر بھی آجائے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اُس کے خیال میں آنے والی کوئی غیر اخلاقی غیر ارادی طور پر اُس کی زبان پر آجائے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُس کی اصلاح کے لئے کوئی ہدایت ہی نہ آئے ، یہی وجہ ہے کہ قُرآن نے پہلے انسان کے ان خیالات کو زبان پر لانے پر ایک قدغن لگائی اور بعد ازاں اِس پر ایک قابلِ برداشت سزا بھی عائد کردی تاکہ انسان اپنے خیالات پر قابو پائے اور اپنی زبان اور اپنے بیان کو حٙدِ اعتدال میں لائے کیونکہ مُنہ بولے رشتے کتنے ہی پاکیزہ کیوں نہ قانونِ دین و قانونِ معاشرت کی نظر میں اُن کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی ، اسی لئے اِس سلسلہِ کلام کی آخری دو اٰیات میں انسان کو اللہ کی طرف سے یہ تنبیہ بھی کر دی گئی ہے کہ یہ اللہ کی وہ حدود ہیں کہ اِن کے قریب بھی نہ پٙھٹکا جائے تاکہ غلطی سے کوئی انسان کبھی اُس سرحد میں داخل نہ ہو جائے جس سر حد میں داخل ہونے سے اللہ نے منع کیا ہے اور جو انسان اِن اٙحکام سے بغاوت کرے گا وہ دُنیا و آخرت دونوں میں ہی ایک ذلت آمیز اور دردناک عذاب سے دوچار ہو گا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458889 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More