مریض کو وینٹیلر پر رکھ کر 6 مہینے میں ڈیڑھ کروڑ ہتھیا لیے۔۔۔ پرائیوٹ اسپتال مریض کے گھر والوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کس طرح پیسے بٹور رہے ہیں؟

image
 
فائزہ پچھلے ایک ہفتے سے ایک نامی گرامی نجی ہسپتال میں داخل تھی۔ اس کو ڈینگی بخار ہوا تھا ایک ہفتہ تو اس نے گھر میں گزارا ڈاکٹرز کا علاج چلتا رہا لیکن جب اس کے پلیٹلیٹس کم ہونا شروع ہوئے تو ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق اس کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا- وہ دو بچوں کی ماں تھی بچے بھی ابھی 10 سال سے نیچے عمروں کے تھے۔ روایتی مڈل کلاس گھرانہ تھا ایک شوہر کمانے والا، شوہر آصف بیوی سے بہت محبت کرتا تھا وہ بیوی کے علاج میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا چاہے اسے قرض ہی لینا پڑے اور اس نے ایسا ہی کیا۔
 
نجی ہسپتال کے خرچے اور روزانہ کی بھاگ دوڑ کے باوجود اس کی بیوی بہتری کے بجائے اور ابتر حالت کی طرف جا رہی تھی۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ اس کی بیوی کو مسلسل بے ہوش رکھا جاتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی آنکھ کھولے کم از کم اس کو اور بچوں کو دیکھے زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن ڈاکٹرز کے مطابق ہوش میں رہنے میں وہ زیادہ تکلیف محسوس کرے گی۔ پھر آصف کے بھائی نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا بھائی کو بھی تیار کیا کہ ہم بھابھی کو کسی اچھے گورنمنٹ ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔ پرائیوٹ ہسپتال کے عملے نے بہت ڈرایا اور ان سے دستخط بھی کروائے کہ وہ مریضہ کے حالات کے خود ذمہ دارہوں گے ۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن یہ فیصلہ خوش قسمتی سے ان کے حق میں گیا اور دوہ فتے کے اندر اندر مریضہ صحت مندی کی طرف آنا شروع ہو گئی اور گھر آگئی۔ اب آصف دن رات محنت کر کے اپنے اوپر چڑھے لاکھوں کے قرض اتارنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔
 
اس طرح کے کئی کیسز ہم اپنے آس پاس دیکھ رہے ہوتے ہیں اور خود بھی پرائیویٹ ہسپتالوں کے خرچوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔
 
کچھ عرصہ قبل ایک انڈین فلم جس کا نام ’’گبر از بیک ‘‘تھا اس کا ایک سین وائرل ہوا تھا وہ بھی اسی موضوع پر تھا۔ اس فلم میں بھارت کے کرپٹ سسٹم کو دکھایا گیا ہے فلم ہے ظاہر ہے سنسنی کے لئے تھوڑا بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک سین کافی ہمارے موضوع کے قریب ترین ہے۔ فلم میں بھی بھارت کے نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار دکھاتے ہوئے ایک سین میں دکھایا گیا کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال والے گھر والوں کو دھوکے میں رکھتے ہوئے ایک مردہ شخص کے علاج کیلئے بھی لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ سوچا جائے تو وینٹیلیٹر پر ڈالنا گھر والوں کے لئے کتنا تکلیف دہ عمل ہے ۔ مریض تو بے ہوش ہوتا ہے لیکن اس کے قریب ترین لوگ کس قدر اذیت میں ہوتے ہیں ان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ مریض زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ مریض کو بے ہوش رکھنے کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ اگر وہ ہوش میں ہوں تو تکلیف کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔ لیکن کیا پتا وہ ہوش میں رہنے پر اپنی اصل کنڈیشن بتا دیں۔۔بس ایک شک سا ہوا تو اس کا اظہار کرنا مناسب سمجھا۔ دل نہیں مانتا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
 
image
 
مانا کہ پرائیویٹ ہسپتال کروڑوں روپے کماتے ہیں، لیکن کیا وہ اتنی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کر سکتے ہیں کہ ایک مرنے والے کے نام پر بھی کمائی کر لیں۔ پاکستان میں مریض امیر ہو یا غریب خدا کے بعد ہسپتال کے طبی عملے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
 
ایک دوسری چیز جو تجربے میں آئی ہے کہ مریض اگر خدانخواستہ آئی سی یو میں رکھا گیا ہو تو اُس کے باہر ایک سیکورٹی گارڈ 24 گھنٹے ایسے چاک و چوبند کھڑا رہتا ہے جیسے کسی بنک کے باہر سیکیورٹی گارڈ۔ اس آئی سی یو میں مریضوں سے ملنا سخت منع ہوتا ہے۔ اس وارڈ میں ڈاکٹر کون ہیں۔ کب آتے ہیں، کب جاتے ہیں، کن شعبوں سے وابستہ ہیں۔ اِن تمام سوالوں کے جواب راز ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم رات گئے مریضوں کے لواحقین کو نیند سے اُٹھا کر لاکھ روپے کا بل تھما دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آج کا بل ہے اِسے جلد ادا کردیں۔ ایک ہمارے جاننے والے نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں چھ مہینے سے وینٹی لیٹر پر ہیں اور ہسپتال والے اس عرصے میں اُس بیمار شخص کے گھر والوں سے ڈیڑھ کروڑ روپے کما چکے ہیں۔
 
اگر بہتری نہ آنے کی صورت میں گھر والے ہاسپٹل تبدیل کرنے کا کہیں تو نجی ہسپتال والے ہاتھ سے سونے کی چڑیا جاتے دیکھ کر مزید ڈرانا شروع کر دیتے ہیں۔ اُن کا اصرار ہوتا ہے کہ مریض کی حالت ٹھیک نہیں۔
 
سرکاری ہسپتال بدنام تو بہت ہیں لیکن یہ مشکل وقت میں ایک مسیحا کا کام کرتے ہیں بے شک یہاں آنے والے لوگوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرح لوٹنے کا رواج بھی نہیں ہے اور علاج بھی تقریباً مفت ہی ہوتا ہے۔ مہنگے نجی ہسپتال سے جنرل ہسپتال کے مفت سرکاری اور بہترین علاج کی بات کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔ یہ وہ تلخ حقیقت اور سچائی ہے ، جسے ہم نے بھی دیکھا، جھیلا، سہا اور برداشت کیا ہے۔
 
image
 
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو چیک کرے مانا کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں لیکن ہر شعبے میں چیک اینڈ بیلنس ہونا لازمی ہے تبھی تو سوسائٹی بہتری کی طرف مائل ہوگی۔ ہماری رائے میں پرائیویٹ اور نجی ہسپتالوں کو وسیلہ زندگی ہونا چاہیے وسیلہ کمائی نہیں!!!

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: