گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں تحفظ ماحول کے تحت شفاف
توانائی کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔آج انسانیت کو درپیش متعدد
سنگین چیلنجز میں موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج بھی شامل ہے جس نے انسانی بقاء
کے لیے شدید خطرات پیدا کیے ہیں۔اس کٹھن چیلنج سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر
میں توانائی کے شعبے میں جدت لائی جا رہی ہے اور ماحول دوستی کے تصور کے
تحت کاربن اخراج میں کمی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔اس ضمن میں
روایتی توانائی ذرائع کے بجائے نئی توانائی یا قابل تجدید توانائی کے وسائل
کی ترقی ایک ناگزیر رجحان بن چکا ہے ۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک متفق ہیں
کہ اگر پائیدار ترقی کی جستجو کرنی ہے تو اسے گرین تصورات سے ہم آہنگ کرنا
ہو گا جس میں شفاف توانائی کلیدی عنصر ہے۔
دنیا میں نئی توانائی کے شعبے کو ترقی دینے کی بات کی جائے تو چین اس میں
سرفہرست ہے جو نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے بلکہ آبادی کے اعتبار سے
بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین کی متعارف کردہ پالیسیوں
کے اثرات عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔چین نے وقت کے بدلتے تقاضوں کی
روشنی میں اپنے نیو انرجی سیکٹر کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا ہے اور
ایسےنئے گرین تصورات اپنائے ہیں جو دنیا کے لیے نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ
لائق تقلید بھی ہیں۔ملک میں جیسے جیسے بڑے پیمانے پر ونڈ اور فوٹو وولٹک
پاور بیسز کی تعمیر میں تیزی آتی جا رہی ہے، چین کے نئے توانائی کے شعبے
میں "دوہرے کاربن" اہداف حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی روانی آ رہی ہے اور
اس شعبے کی نمایاں صلاحیت کھل کر سامنے آئی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کاربن اخراج کو کم کرنے سے توانائی کی فراہمی کے تحفظ
پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ توانائی کی بچت چین کی
بنیادی قومی پالیسی ہے۔ چین کی مجموعی توانائی کی کھپت معیاری کوئلے کے
مساوی 4.98 بلین ٹن تک پہنچ چکی ہے اور فی یونٹ جی ڈی پی توانائی کی کھپت
2020 میں عالمی اوسط سے 1.5 گنا تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ توانائی کی
کارکردگی اب بھی کم ہے۔ نتیجتاً، چین کوشاں ہے کہ توانائی کے تحفظ پر عمل
درآمد اور کاربن اخراج میں کمی کو زیادہ سے زیادہ موئثر اقدامات کے ساتھ
مضبوط کیا جائے جس سے نہ صرف توانائی کی فراہمی کے تحفظ میں مدد ملے گی،
بلکہ مستقبل کے اسٹریٹجک وسائل، ماحولیاتی گنجائش اور ترقی کی ممکنہ صلاحیت
میں بھی زبردست اضافہ ہو گا۔
عالمی ماہرین کا بھی یہ ماننا ہے کہ چین میں نئی توانائی کے انفراسٹرکچر کو
فروغ دینے سے توانائی کی نئی عالمی صنعت کی ترقی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔یہ
امر قابل زکر ہے کہ 2022 کی پہلی ششماہی میں، چین کی ہوا اور شمسی توانائی
کی صلاحیت میں بالترتیب 12.94 ملین کلوواٹ اور 30.88 ملین کلوواٹ کا اضافہ
ہوا، جو کہ مجموعی طور پر نئی پیداواری صلاحیت کا بالترتیب 18.7 فیصد اور
44.7 فیصد ہے۔ ملک کے "دوہرے کاربن" اہداف کے حصول میں، توانائی کا نیا
شعبہ ان چند صنعتوں میں سے ایک بن چکا ہے جس کے استعمال کی شرح میں مسلسل
اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ رواں سال ، چین کی ہوا اور
شمسی توانائی کی نئی پیداواری صلاحیت 100 ملین کلوواٹ سے زائد ہونے کی توقع
ہے، جبکہ توانائی کے ان دو ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی کھپت مجموعی
بجلی کی کھپت کے 12.2 فیصد سے زیادہ ہونے کا تخمینہ ہے۔
ایک خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ توانائی کی فراہمی کی صلاحیت کو بڑھانے کے
ساتھ ساتھ، کمپنیاں توانائی کے نئے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے
لیے انتہائی ہائی وولٹیج سمیت دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کو دوگنا کرنے
کا سوچ رہی ہیں ۔ چین کی اسٹیٹ گرڈ کارپوریشن 14ویں پانچ سالہ منصوبے
(2021-2025) کے دوران توانائی کے استعمال کے نئے نظام کی تعمیر کو آگے
بڑھانے کے لیے 2.4 ٹریلین یوآن (تقریباً 354.53 بلین امریکی ڈالر) کی
سرمایہ کاری کرئے گی ۔اسی طرح چائنا سدرن پاور گرڈ نے رواں سال 125 بلین
یوآن کی فکسڈ ایسٹ سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے، جسے جزوی طور پر
توانائی کی نئی ترسیل اور پمپڈ اسٹوریج ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس کے لیے
معاون پاور گرڈ پروجیکٹس کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا۔ اعداد و شمار
سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے نئے توانائی کے شعبے نے رواں سال کی پہلی ششماہی
میں اعلیٰ سطح کے استعمال کی کارکردگی کو برقرار رکھا ہے۔ جون کے آخر تک،
ملک بھر میں ہوا سے بجلی کے استعمال کی شرح 95.8 فیصد رہی، جبکہ فوٹو وولٹک
پاور کی شرح 97.7 فیصد تھی۔ملکی سطح پر ترقی کے ساتھ ساتھ چین شفاف توانائی
کے شعبے کو فروغ دینے کی خاطر عالمی تعاون کو بھی فعال طور پر آگے بڑھا رہا
ہے۔اس حوالے سے ابھی حال ہی میں 29 ویں نیوکلیئر انجینئرنگ بین الاقوامی
کانفرنس کا بیجنگ انعقاد کیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر سے 1,200 سے زائد
شرکاء نے آن لائن شرکت کی ہے۔ اس اہم عالمی سرگرمی کا بھی یہی مقصد رہا کہ
ایک کاربن نیو ٹرل مستقبل کے لیے جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے۔یوں چین
ایک بڑے ذمہ دار ملک اور دنیا کی اہم طاقت کے طور پر دنیا کو نئی توانائی
کے شعبے سے بخوبی متعارف کروا رہا ہے تاکہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم
آہنگی سے ایک خوبصورت اور محفوظ کرہ ارض کی تعمیر کی جا سکے۔
|