حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر اقتصادی سماجی ترقی کے
اعتبار سے جن موضوعات کو نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے ان میں موسمیاتی تبدیلی
اور ماحولیاتی تحفظ نمایاں ہیں۔ دنیا کی کوشش ہے کہ ایک خوبصورت ، محفوظ
اور شفاف کرہ ارض کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے
بڑے صنعتی ممالک کی جانب سے کاربن نیوٹرل جیسے اہداف طے کیے گئے ہیں اور
باقاعدہ وقت کا تعین بھی کیا گیا ہے۔اس ضمن میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے
جہاں تخفیف کاربن کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں وہاں کاربن کی نگرانی
بھی ایک لازمی امر ہے۔
چین نے اس خاطر ایک بڑے ذمہ دار ملک کا کردار بخوبی نبھاتے ہوئے اپنی ماحول
دوستی کو مزید تقویت دی ہے اور حال ہی میں ایک کاربن مانیٹرنگ سیٹلائٹ لانچ
کیا ہے۔ یہ کاوش دنیا میں تخفیف کاربن کی کوششوں کو مزید دوام بخشے گی اور
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کے حوالے سے بہتر پالیسی سازی کا بھی
موجب ہو گی۔یہ کاربن مانیٹرنگ سیٹلائٹ زمینی ماحولیاتی نظام، ماحولیات اور
وسائل کی نگرانی، چین کے میگا ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ
سروے اور نقشہ سازی، موسمیات، ماحولیات کے تحفظ، زراعت اور آفات میں کمی کے
لیے خدمات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اس سیٹلائٹ کی ایک اضافی
خوبی یہ بھی ہے کہ یہ لیزر، ملٹی اینگل، ملٹی اسپیکٹرل، ہائپر اسپیکٹرل،
اور پولرائزیشن جیسے جامع ریموٹ سینسنگ کے ذریعے پودوں کے بایوماس،
ماحولیاتی ایروسول اور کلوروفل فلوروسینس کا پتہ لگاسکتا ہے اور اس کی
پیمائش کرسکتا ہے۔اچھی بات یہ بھی ہے کہ بیجنگ اور سنکیانگ میں واقع زمینی
اسٹیشنوں نے تین بڑے امور کے حوالے سے سیٹلائٹ سے ڈیٹا کو ٹریک اور حاصل
بھی کیا۔ پہلے مرحلے میں یہ سلسلہ 25 منٹ تک جاری رہا اور اس دوران 306 جی
بی کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ پر مبنی سرسبز ترقی
کے لیےبھرپور کوششیں جاری ہیں۔ چین نے 2060 سے قبل کاربن نیوٹرل کے حصول کا
وعدہ کیا ہے جس کے تحت تواتر سے سبز اقدامات سامنے لائے جا رہے ہیں۔ان میں
نئی توانائی کی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ، گرین ڈویلپمنٹ فنڈ کا آغاز ،
گرین فنانس کی سہولت سمیت کاروباری اداروں میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق
شعور اور آگاہی نمایاں عوامل ہیں۔گرین ترقی کے تحت ملک میں قابل تجدید
توانائی بالخصوص پن بجلی ،ہوا اور شمسی توانائی کو اہمیت حاصل ہوئی ہے ۔چین
نے نہ صرف اپنی سبز ترقی میں کامیابیاں حاصل کی ہیں بلکہ اپنے تجربات کو
دوسرے ممالک کے ساتھ بھی شیئر کیا ہے۔صنعت سازی کے میدان میں دنیا کے لیے
فیکٹری کا درجہ رکھنے والے ملک چین نے ابھی گزشتہ ماہ ہی میں کاربن مارکیٹ
کے آغاز کی پہلی سالگرہ منائی ہے ۔اس ایک سال کے دوران، چائنا کاربن ایمیشن
ٹریڈ ایکسچینج میں کاربن ایمیشن الاؤنسز کے مجموعی لین دین کا حجم 194 ملین
ٹن رہا ہے، جبکہ مارکیٹ کی مجموعی مالیت 8.492 بلین یوآن تک جا پہنچی ہے ۔
چین جیسے بڑے ملک میں اس ماحول دوست پیش رفت کو اہم انوویشن قرار دیا جا
رہا ہے جس کے تحت کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے گرین ہاوس
گیسوں کے اخراج میں کمی میں مدد ملے گی۔اس کاوش میں چین کے مالیاتی ادارے
بھی شامل ہیں جو کاربن اخراج میں کمی کے لیے بینک کرنسی سے متعلق پالیسی
سازی کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ
مالیاتی حمایت فراہم کی جا سکے۔ چین پر عزم ہے کہ کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ کی
کوریج کو دوسرے شعبوں تک مزید بڑھایا جائے گا جس سے گرین ہاؤس گیسوں کے
اخراج کے کنٹرول ، سبز اور کم کاربن تکنیکی جدت طرازی کے فروغ اور
ماحولیاتی سرمایہ کاری اور فنانسنگ کے لئے راہنمائی فراہم کرنے میں مارکیٹ
میکانزم اہم کردار ادا کریں گے ۔اس میں چین کی کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ کو پیرس
معاہدے کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے ساتھ منسلک کرنا بھی شامل ہے ، جو
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی سطح پر مستند بین الاقوامی معاہدہ ہے۔
چین اس حوالے سے بھی پرعزم ہے کہ انرجی اسٹوریج ، ہائیڈروجن توانائی اور
توانائی کی بقا سے وابستہ شعبہ جات کے بارے میں تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے
زیرو کاربن ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا جائے گا۔ چین کا ہدف ہے کہ 2025 تک اپنی
مجموعی کار فروخت میں نئی توانائی کی گاڑیوں کا حصہ 20 فیصد تک بڑھا دے اور
2035 تک بجلی سے چلنے والے عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم کی تعمیر کرے ، جس کے ساتھ
خالص برقی کاریں مرکزی دھارے میں شامل ہوں گی۔یوں چین اپنے ماحول دوست
اقدامات کی بدولت تخفیف کاربن کی کوششوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرتے
ہوئے ایک گرین پائیدار ترقی کے لیے کوشاں ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی
مرتب ہو رہے ہیں۔
|