باھو شناسی کی اوّلین کڑی
لئیق احمد صاحب کی محققانہ جہت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
" />

"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل باھو شناسی کی اوّلین کڑی

"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل
باھو شناسی کی اوّلین کڑی
لئیق احمد صاحب کی محققانہ جہت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

مقالات باھو شناسی

"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل
باھو شناسی کی اوّلین کڑی
لئیق احمد صاحب کی محققانہ جہت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
.........
حضرت سلطان باھو یکم جمادی الثانی 1039ھ بمطابق17جنوری 1630ء میں مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں شہر شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئےاوریکم جمادی الثانی 1102ھ بمطابق مارچ 1691ء میں آپ کا وصال ہوا۔آپ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جس کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔خیال رہے کہ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔حضرت سلطان باھوکے والد بازید محمد ایک پیشہ ور سپاہی تھے اور شاہجہاں کی فوج میں ایک عہدے پر فائز تھے۔آپ کی والدہ بی بی راستی ایک کامل عارفہ خاتون تھیں اور اپنے خاندان اور عزیز و اقارب میں پاکیزہ اور پارسا عورت کے طور پر معروف تھیں۔
حضرت سلطان باھو کا نام"باھو"آپ کی والدہ نے دیا تھا تاکہ آپ کا نام ہمیشہ کے لیے "ھُو" کے ساتھ جڑ جائے۔خودسلطان باھو فرماتے ہیں:
نام باھو مادر باھو نہاد زانکہ باھو دائمی باھو نہاد
(یعنی باھو کی ماں نے باھو نام رکھا کیوں کہ باھو ہمیشہ ’ھُو‘ کے ساتھ رہا)
حضرت سلطان باھو کا شماراُن اکابر اولیاء میں ہوتا ہے جن کے علم و فضل اور روحانی تصرف کے باعث اِس خطے میں لوگوں کو نورِہدایت نصیب ہوا۔آپ صوفیاء کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تعلیمات کا مرکزومحور اتباع کتاب و سنّت تھا۔آپ کے پیروکار،معتقدین اور مریدین آپ کو پیدائشی ولی مانتے ہیں۔آپ کا مزاج ابتدا ءسے ہی تصوف کی طرف مائل رہا اور بچپن سے اپنی والدہ کی زیر نگرانی آپ کی باطنی اور روحانی تعلیم و تربیت تصوف کے مطابق ہوتی رہی۔دراصل آپ کی والدہ ہی آپ کی حقیقی استاد رہیں۔ سلطان باھو کا تعلق سلسلۂ سروری اور قادری دونوں سے ہے۔ اِس سلسلہ کا آغاز حضرت شیخ عبد القادر جیلانی سے ہوا۔شیخ عبد القادر جیلانی سے تعلق رکھنے والے یہ دو سلسلے ہیں۔ ایک سروری قادری اور دوسرا زاہدی قادری۔ سلطان باھو کا عقیدہ سروری قادری میں مکمل ہے اِس لئے اُنہوں نے سروری قادری سلسلہ کو ہی اپنا نصب العین بنایا۔رسالہ روحی میں آپ فرماتے ہیں:
دست بیعت کرد مارا مصطفیﷺ
خواندہ است فرزند مارا مجتبیٰﷺ
شد اجازت باھوؒ را از مصطفیﷺ
خلق را تلقین بکن بہر خدا
یعنی :" مجھے مصطفیﷺ نے دستِ بیعت فرمایا، حضرت مجتبیٰ رضی اللہ عنہٗ نے مجھے اپنا فرزندبنایا ہے۔ فقیر باھوُ کو مصطفیﷺ سے یہ اجازت ملی ہے کہ خلقتِ خدا کو محض اللہ کی خاطر تلقین کروں۔"
حضرت سلطان باھو نے اپنے مرشد کی تلاش کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ بھی بہت ہی دلچسپ ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ’’میں تیس(30)سال تک مرشد کی تلاش میں سرگرداں رہا لیکن مجھے اپنے پائے کا مرشد نہیں مل سکا۔‘‘ایک دن جب آپ شورکوٹ کے اطراف میں گھوم رہے تھے کہ اچانک حضرت مولیٰ علی(رضی اللہ عنہٗ) ظاہر ہوئے اورآپ کو حضور اکرم ﷺکی مجلس میں لے گئے۔ چاروں خلیفہ بھی اُس مجلس کی زینت بنے ہوئے تھے اور شیخ عبد القادر جیلانی بھی وہاں موجود تھے۔حضور اکرم ﷺنے سلطان باھو کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ یہ اب تمہارا روحانی پیشوا ہے۔ اسی لئے سلطان باھو نےاپنے مرشد کے لئے ہمیشہ شیخ عبد القادر جیلانی کا ذکر اپنی کتابوں میں خاص طور سے کیا ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی نے حضرت سخی سلطان باھوُ کو باطنی تربیت کی تکمیل کے بعد سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی کی دستِ بیعت کا حکم دیا۔حکیم کی تعمیل کے لیے آپ نے دہلی جاکر شیخ عبد الرحمن جیلانی دہلوی کے ہاتھ پر بیعت کی۔
سلطان باھونے ہر لمحہ استغراق حق میں مشغول رہنے کی وجہ سے ظاہری علم حاصل نہیں کیا۔ پھر بھی آپ نے تقریباًایک سو چالیس کتابیں تصنیف فرمائیں۔جن میں 35کتب آج بھی منظر عام پر موجود ہیں۔ جن کے فارسی متن کے صفحات کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔آپ کی منتخب تصانیف میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔
" ابیات باھو" (پنجابی شاعری)،"دیوان باھو" (فارسی شاعری)،" عین الفقر"،" کلید التوحید" (کلام)،" شمس العارفین"،" امیر الکونین"،" تیغِ برہنہ"،" رسالہ روحی"،" گنج الاسرار"،" اسرار قادری" ، "اورنگ شاہی"،" جامع الاسرار"،" مفتاح العارفین"،" نور الھدیٰ" (کلام)،" عین العارفین"،" کلید جنت"،" کشف الاسرار" وغیرہ،وغیرہ۔
یہاں یہ اَمر بھی قابل توجہ ہے کہ آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت آپ کے پنجابی کلام کو حاصل ہوئی۔لیکن آپ کی فارسی تصانیف کے بارے میں عدم آگاہی کے سبب آپ کی شخصیت کے بہت سے گوشے منظر عام پر نہ آسکے۔جبکہ آپ کی تصانیف کے عمیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے آپ کئی علوم وفنون کے ماہر تھےاور آپ کی تصانیف میں علم تصوف کے علاوہ بھی پیشتر علوم و فنون کے سینکڑوں مضامین پائے جاتے ہیں۔جن پر اگر عصر حاضر کے تناظر میں علمی وتحقیقی کام کیا جائے تو آپ کی روحانی شخصیت کے علاوہ علمی شخصیت کے بھی اَن گنت پہلوؤں کو منظر عام پر لایا جاسکتا ہے۔
"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل
جو کہ حضرت سلطان باھوکے علوم وفنون اور تعلیمات سے متعلق سترہ تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے،اِس سلسلے کی وہ اوّلین کڑی ہے،جس کی تصنیف کا سہرا نوجوان اسکالر"لئیق احمد"صاحب کے سر جاتا ہے۔جناب لئیق احمد مادرِ علمی جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے منسلک ہیں اور پچھلے تین سال سے شعبہ ھذا میں ٹیچنگ اسسٹنٹ کی حیثیت سے تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اُنہوں نے حال ہی میں "الحاد عصر حاضر کے مقابل تعلیمات باھو کا علمی وتحقیقی مطالعہ "کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرکے ایم فل کیا ہےاور اب جامعہ ہی سے اپنی اگلی منزل ڈاکٹریٹ کی ڈگری کےحصول کے لیے کوشاں ہیں۔
جناب لئیق احمد صاحب کے علمی وتحقیقی مقالے ملک کے بیشتر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔آپ وطن عزیز کے معاشرتی اور تعلیمی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ملکی سطح پر منعقد ہونے والی اہم علمی کانفرنسز میں شرکت کرکے مذاکروں و مباحثوں کا حصہ بننا آپ کی دلچسپی کا محور ہے۔حضرت سلطان باھو کے طریقِ تصوف سے وابستگی اور تعلیمات باھو کی باضابطہ تربیت رکھنے والے جناب لئیق احمد کا خصوصی شغف علوم دینیہ کے ساتھ فلسفہ،نفسیات اور تصوف ہیں۔
"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل
آپ کے سترہ علمی و تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے جو کہ مختلف اوقات میں ماہنامہ"مراۃ العارفین"میں شائع ہوتے رہے۔اِن مقالات"ذکر رحمت للعالمین ﷺ بزبان سلطان العارفین"،"تعلیمات باھو کا قرآنی استدلال" ،"تصانیف حضرت سلطان باھو میں موجود احادیث قدسیہ کا تحقیقی جائزہ"،"عظمت صحابہ اور تعلیمات حضرت سلطان باھو"،"محک الفقرکلاں میں موجود فقہی مباحث کا تحقیقی جائزہ"،"حضرت سلطان باھو کی شاہکار تصنیف عین الفقر"،"تصوف اور حضرت سلطان باھو"،"حضرت سلطان باھو کےنظریہ علم میں عقل کی بحث"،"حضرت سلطان باھو کے نظریہ علم میں علمائے سوء کا محاسبہ"،"تعلیمات سلطان باھو میں موجود طالبان مولیٰ خواتین کا تذکرہ"،"مرض حسدوعلاج حسد تعلیمات حضرت سلطان باھوکی روشنی میں"،"تعلیمات حضرت سلطان باھو میں تعریفات حروف کا اسلوب"،"ردبدعات،تعلیمات سلطان باھو کی روشنی میں"، تعلیمات باھو میں اصطلاحات تصوف کی اقسام"،"عقیدہ ختم نبوت، تعلیمات حضرت سلطان باھو کی روشنی میں"،"طریق تصوف میں لطائف ستّہ کا بیان" اور "تعلیمات حضرت سلطان باھو میں سانپ کا تمثیلی ذکر" کے عنوانات سے آپ اِن کی علمی وفنی حیثیت اور ندرت فکر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(وائس چانسلر،سرگودھا یونی ورسٹی و پرو وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی) کے مطابق کتاب میں شامل اِن سترہ مقالوں میں فاضل محقق نے حضرت سلطان باھو کی تعلیمات کے مختلف گوشوں کو تحقیقی انداز میں دلیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ لئیق احمد صاحب نے:
" کئی مقامات پر تعلیمات سلطان باھو اور دیگر جید صوفی بزرگان کی تعلیمات کے ہم جنس نکات کو بہت سہل انداز میں پیش کیا ہے جس سے یہ تاثر جاتا ہے خواہ زبان وانداز مختلف ہو لیکن پیغام سب کا ایک ہی ہے۔محقق کے تمام مقالہ جات میں یہ نکتہ بہت نمایاں ہے کہ تصوف قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے حصار میں ہے ۔۔۔لئیق احمد کے مقالہ جات کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری مندرجہ بالا شماریات کو سلطان باھو صاحب کی کتابوں میں باآسانی تلاش کرسکتا ہے،"ڈاکٹر صاحب صاحب تحریر کی خوبی گنواتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:"محقق نے متوسط راستہ اپنایا ہے اور تحریر میں دقیق اور روایتی زبان کا استعمال نہیں کیا،موضوع پر رہ کر بات کی ہے اور اختصار کو پیش نظررکھتے ہوئے بات مکمل کی ہے۔"
جناب پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب(رکن اسلامی نظریاتی کونسل و استاد شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی)اپنے شاگرد رشید جناب لئیق احمد صاحب کی کوششوں و کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےلکھتے ہیں:"پیش نظر کتاب عزیزم لئیق احمد کے افکار سلیمہ کا خوب صورت مرقع ہے۔۔۔جناب لئیق احمد نہایت لائق،ذہین اور فاضل شخصیت ہیں۔تصوف کا خاص ذوق رکھتے ہیں ۔۔۔حضرت سلطان العارفین کے سلسلہ عالیہ سے وابستہ ہیں جن کے فیض کا اثر اُن کے کردار اور تحریر میں جھلکتا ہے۔"
"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل کی تیسری تقریظ میں جناب ڈاکٹر محمد اقبال شاہد(صدر شعبہ فارسی،دنشگاہ جی سی یونی ورسٹی لاہور) رقم طراز ہیں کہ :"اِس تصنیف میں قرآن کریم،احادیث مبارکہ،وحدت و کثرت، رسالت و نبوت،عرفان و تصوف کے مضامین نیز علمی و فلسفی مباحث و معاشرتی مسائل، خالص تحقیقی انداز میں حوالہ جات ،حواشی و تعلیقات کے ہمراہ پیش کیے گئے ہیں۔تحقیقی اسلوب و اطوار کی بات کی جائے تو اِس کار دقیق کو اکثروبیشتر ، تحصیل حاصل،مباحث خشک و حوالہ ہائے ادق سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اگر محقق کے دل ودماغ میں کسی ولی کا ڈیرہ لگا ہو تو خشک صحراؤں میں علم وعرفاں کے پھول کھل اُٹھتے ہیں،سنگلاخ اور چٹیل میدانوں میں تحقیق کی سرسبروشاداب بستیاں آباد ہوجاتی ہیں،جہاں ہر سو محبت و مؤدت ، ایثار و عنایات کے سرچشمہ ہائے آب زلال و شیریں سے ارواح مطمئنہ سیراب ہوتی ہے ۔"
اِس کتاب کی چوتھی تقریظ جناب مفتی محمد شیر القادری صاحب (صدر تحقیق دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو،جھنگ )کی تحریر کردہ ہے۔جس میں مفتی صاحب مبارکباد پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لئیق احمد: "حضرت سلطان باھو کی کتب سے عرق ریزی اور محنت شاقہ سے ایسے سترہ مقالہ جات کو ضبط تحریر میں لائے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔اور ایسے وقت میں شائع کروارہے ہیں جب ہر طرف مادیت کا دور دورہ ہے۔الحادی موجیں شرق سے غرب سے ابھر رہی ہیں، فکری انحطاط کا طوفان اُمڈ پڑا ہے۔دین سے دوری اور جہالت کی تاریکی روز بروز بڑھتی جارہی ہے،ایسی اندھیر نگری میں ایسے موضوعات کو عوام الناس کےلیے بالعموم اور نوجوانوں کے لیے بالخصوص بطور چراغ کے سامنے لائے ہیں۔"
ہمارا ماننا ہے کہ برصغیر پاک وہند کے مشہور صوفی بزرگ حضرت سلطان باھو کی تعلیمات کےجن علمی وفکری پہلوؤں کولئیق احمد صاحب سامنے لائے ہیں،اِس سے قبل اِن پہلوؤں پر اِس انداز سے تحقیقی کام نہیں ہوا۔اِس تناظر میں یہ کہنابجا ہوگا کہ یہ اپنی نوعیت کا وہ اوّلین نقش ہے جو جناب لئیق احمد صاحب کی محققانہ جہت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
جناب لئیق احمد صاحب عصر حاضر کے اُن نوجوان اسکالرز میں شامل ہیں جن کی ہمیشہ یہ کوشش و جستجو رہتی ہے کہ حضرت سلطان العارفین کی علمی وروحانی شخصیت کے اُن پہلوؤں پر کام کیا جائے اور اُنہیں اہل علم کےسامنے لایا جائے جو کبھی زیر موضوع ہی نہیں رہے۔"مقالات باھو شناسی"جلد اوّل بھی اسی سلسلے کی ایک ایسی ابتدائی کڑی ہے ،جس میں ایک صوفئ اُمّی جس کو حضو سیّد عالم ﷺ کی محبت اور بارگاہِ ایزدی کی عنایت کے طفیل علم ومعرفت جوخزانے حاصل ہوئے،کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ کتاب اِس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اِس میں صاحبِ کتاب نے حضرت سلطان باھو کی فقط کرامتوں کو بیان نہیں کیا بلکہ آپ کو ایک علمی شخصیت کے طور پر بھی پیش کیا ہے ۔اِس تناظر میں یقیناً یہ کتاب اہل علم و محققین کے لیے بے حد سود مند ثابت ہوگی ۔
جناب لئیق احمد صاحب انتہائی منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں۔یکم اگست 2022ء کو پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی کے ادارے "سٹی آف نالج"کے تحت" حضرت مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ"کی یاد میں منعقدہ پروگرام میں آپ سےتفصیلی ملاقات رہی۔جناب نے ہمیں اپنی محبتوں کے ساتھ "مقالات باھو شناسی"جلد اوّل کے خوبصورت تحقیقی تحفہ سے بھی نوازا۔ہم جناب لئیق احمد صاحب کو مستند حوالہ جات سے مزّین اِس شاندار علمی و تحقیقی کاوش پر دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ ربّ کریم محترم لئیق احمد صاحب کے علم وعمل میں برکتیں عطا فرمائے ۔ ہمیشہ آسانیوں اور فراوانیوں سے نوازے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر دینِ متین کی خدمت کرنے کی توفیق میں ثابت قدم رکھے۔ آمین
جزاک اللہ خیرا فی الدارین
محمداحمد ترازی
مورخہ 11 اگست 2022ء کراچی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358061 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More