ڈیپ ویب اور ڈارک ویب


انٹرنیٹ پر ایک اور دنیا بھی موجود ہے جو ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کہلاتی ہے، ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں؟ اور کس طرح کام کرتی ہیں؟ اس بارے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ معلومات نہیں رکھتی، آج کی تحریر میں ہم ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کے بارے میں جانیں گے۔

ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لیے تین بار WWW لکھنا پڑتا ہے جس کا مطلب ہے ورلڈ وائڈ ویب، اسے سرفس ویب، اور لائٹ ویب بھی کہا جاتا ہے لیکن آپ کے لیے سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ دن رات استعمال کر کے بھی جس انٹر نیٹ کو ہم ختم نہیں کر سکتے یہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار سے پانچ فیصد ہے باقی کا 95٪ انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ یہ پچانوے فیصد انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹرنیٹ کی عظیم دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہوگی۔

ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989ء میں ایجاد کیا اور 6 اگست 1991ء کو باقاعدہ منظر عام پر لایا پھر یہ ٹیکنالوجی گولی کی رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی، اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر کی سکرین پر اکھٹی ہوگئی، ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی، ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط و کتابت ای میل کی شکل میں تبدیل ہوئی گئی اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کردیا، ایک طرف پوری دنیا اس نعمت سے مستفید ہو رہی تھی تو دوسری طرف ڈیوڈ چام نے ایک مضمون بعنوان Secutity without identification لکھا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ورلڈ وائڈ ویب کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنی معلومات کی نگرانی سے محروم ہوتے جارہے ہیں، لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات درست ہیں یا پرانی ہیں چنانچہ جس خدشے کا اظہار ڈیوڈ چام نے کیا تھا آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ گوگل، فیس بک سمیت دیگر ویب سائٹس اپنے یوزر کے بارے اتنا کچھ جانتی ہیں کہ اس کے قریبی دوست یا سگے بھائی بہن بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گے چنانچہ انہیں سورسز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے خفیہ اداروں نے جاسوسی کا جال بھی بچھا دیا۔

یہاں سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور حکومتیں یہ سوچنا شروع کردیتی ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لیے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری نہ کرسکے چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کیا، اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کرسکتا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کردیا یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھناؤنے جرائم کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور اسی کا نام ڈارک ویب ہے۔

اس ساری بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو ایک مثال دے کر سمجھانا چاہتا ہوں کہ فرض کریں برف کا ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آرہا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹرنیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں پھر ایک بڑا حصہ زیر آب نظر آرہا ہے اسے ڈیپ ویب کہا جاتا پھر اس سے بھی بڑا حصہ مزید نیچے گہرائی میں نظر آرہا ہے اسے ڈارک ویب کہا جاتا ہے پھر ڈارک ویب میں ریڈ رومز ہوتے ہیں، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس برف کے پہاڑ سے نیچے جو سمندر کی تہہ ہے اسے Marianas web مریاناز ویب کہا جاتا ہے جس تک رسائی دنیا کے عام ممالک کی حکومتوں کی بھی نہیں ہے، اب میں ویب کے ان چاروں حصوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

1۔ ورلڈ وائڈ ویب وہ انٹر نیٹ ہے جسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں یہ ٹوٹل انٹرنیٹ کا صرف چار سے پانچ فیصد ہے۔

2۔ اس سے نیچے ڈیپ ویب ہے، یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے جیسے بینکوں کا ڈیٹا یا مثلاً آپ یوفون کی سم اسلام آباد سے خریدتے ہیں اور پھر کراچی میں جاکر دوبارہ سم نکالنے کیلیے ان کے آفس جاتے ہیں تو وہ اپنا انٹرنیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتے ہیں کہ آپ واقعی وہی آدمی ہیں جس کے نام پر یہ سم ہے، یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے چنانچہ یوفون والے صرف اپنا یوفون کا ڈیٹا اوپن کرسکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی کی رسائی صرف اپنےڈیٹا تک ہوتی ہے۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے باری آتی ہے ڈارک ویب کی، یہ انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو، عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے، یہاں جانے کے لیے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو آپ سے رقم وصول کر کے ایک ایڈریس دیتا ہے جب آپ پورا اور ٹھیک ٹھیک ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتیں یہ صرف TOR پر ہی اوپن ہوتیں ہیں اور یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ان ویب سائٹ کو اوپن کرنا یا دیکھنا بھی قانوناً جرم ہے، اگر آپ کے بارے صرف اتنا پتا چل جائے کہ آپ نے ڈارک ویب پر وزٹ کیا ہے تو اس پر آپ کی گرفتاری اور سزا ہوسکتی ہے۔

پھر ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں یعنی ایسے پیجز ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ زیادتی دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے مثلاً زیادتی دکھانے کے اتنے پیسے، پھر زندہ بچے کا ہاتھ کاٹنے کے اتنے پیسے، اس کا گلا دبا کر مارنے کے اتنے پیسے، پھر اس کی کھال اتارنے کے اتنے پیسے وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ ہر قسم کی منشیات، اسلحہ اور جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں وہ آپ کو وہاں بآسانی مل جاتا ہے یہاں تک کہ وہاں ریٹ لگے ہوتے ہیں کہ فلاں لیول کے آدمی کو قتل کروانے کے اتنے پیسے مثلاً صحافی کے قتل کے اتنے پیسے، وزیر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے، سولہ گریڈ کے افسر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے وغیرہ، اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کر کے 2015 میں بلاک کیا تھا۔

4۔ Marianas web مریاناز ویب، یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے، حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے، انٹرنیٹ کے اس حصے میں دنیا کی چند طاقتور حکومتوں کے راز رکھے ہوئے ہیں جیسے امریکا، اسرائیل اور دیگر قوتیں وغیرہ، یہاں انٹری کسی کے بس کی بات نہیں، یہاں کوڈ ورڈ اور کیز کا استعمال ہی ہوتا ہے، ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہوسکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں، ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی؟ تو بات یہ ہے کہ جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لیے بناتے ہیں، چھری سبزی کاٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگادی جائے تو تمام انسانوں کا حرج ہوگا لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے.....

التماسِ دعا:

 

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 148 Articles with 126395 views Civil Engineer .. View More