پہلا خلا باز کون تھا؟ امریکہ کا نیل آرمسٹرانگ یا چین کا وان ہو

image
 
عموماً جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں ان سب کے پیچھے پہلی کوشش کرنے والوں کو پاگل یا خبطی سمجھا جاتا ہے یعنی ان خیالات کے حامل لوگوں کے دماغ اپنے زمانے کے لوگوں سے بہت آگے کا سوچتے ہیں ان کی یہی اچھوتی سوچ آگے والوں کے لئے بنیاد بنتی ہیں۔ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ چاند پر پہلا قدم نیل آرم اسٹرونگ کا تھا لیکن وہ تو بہت آگے کی بات ہے اس کے جواب کے لئے ہمیں کافی پیچھے جانا پڑے گا- اس کا جواب چین میں منگ خاندان کا وان ہو نامی شخص ہے۔ وہ تاریخ کا پہلا شخص تھا جس نے خلاء یعنی چاند پر جانے کی کوشش کی۔
 
نیل آرم سٹرانگ کے چاند کی سرزمین پر قدم رکھنے پر جملے تھے ’’انسان کے لیے ایک چھوٹا قدم، بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑی چھلانگ‘‘ اس چھلانگ کی ابتداء تو چار سو سال پہلے ہی شروع ہو گئی تھی جب وان ہو نے ایک راکٹ بنایا اور چاند تک پہنچنے کی کوشش کی۔
 
وان ہو 16ویں صدی میں منگ خاندان کے دور میں ایک حکومتی عہدیدار تھا وہ ایک بہت ہی بہادر آدمی تھا جو ایک سرکاری افسر کے طور پر اپنی زندگی سے بیزار تھا۔ وان ہو کی مہم جوئی کی فطرت نے اسے آسمانوں تک پہنچنے اور اپنا نام بنانے پر مجبور کیا۔
 
منگ دور کا چینی عالمی نظریہ آج کے لحاظ سے بہت تنگ تھا اور یہ مانا جاتا تھا کہ پوری زمین پہلے ہی فتح اور آباد ہو چکی ہے۔ مایوس ہو کر وان ہو نے رات کو ستاروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اس کو حکومت کرنے کے لئے ایک نئی سرزمیں چاہیے تھی۔ دن میں وہ اپنے سرکاری کام انجام دیتا اور رات کو آسمان تک رسائی کے پلان بناتا۔ یہاں تک کہ اسے ایک اچھوتا خیال آیا، وان نے ایک ایسی جگہ کے بارے میں سوچا جسے کسی بادشاہ یا شہنشاہ نے کبھی فتح نہیں کیا تھا۔"چاند"۔ چاند پر پہنچنے کے ایک نئے مقصد کے ساتھ مخمصہ یہ تھا کہ وہاں کیسے جانا ہے۔ 16ویں صدی میں اس سفر کو کرنے کا کوئی محفوظ اور کامیاب طریقہ نہیں تھا۔
 
image
 
تکنیکی جدت نہ ہونے کے باوجود وان ہو نے نقل و حمل کا بہترین طریقہ نکالا:
ایک کرسی جس کے پیچھے بارود کا ایک گچھا لگا ہوا تھا جو اسے چاند تک لے جاسکتا تھا۔ لگتی تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے لیکن راکٹ کی ٹیکنالوجی بھی تو اسی خیال کی ایڈوانس شکل ہے، 16ویں صدی کے دوران منگ خاندان بارود کی ٹیکنالوجی میں دنیا کا رہنما تھا۔ منگ کو یوآن اور سونگ خاندان کی زیادہ تر بارود اور دھماکہ خیز مواد کی ٹیکنالوجی وراثت میں ملی تھی اور اس نے تجارتی پوسٹ کے ذریعے پرتگال سے اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے بنیادی اصول کی چھان بین کی۔
 
اس وقت کی اعلیٰ ترین گن پاؤڈر ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے وان ہو نے زیادہ سے زیادہ دھماکہ خیز مواد اکٹھا کیا۔ یہ آسان تھا، کیونکہ وہ اپنے علاقے میں اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری اہلکار تھا۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری دھاتی گیندوں کو ہوا میں بھیجنے کے تجربے سے وان ہو کو یقین تھا کہ وہی ٹیکنالوجی اسے خلا میں لے جا سکتی ہے۔ اس نے ایک خلائی جہاز ڈیزائن کیا جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ کام کرے گا۔ ایک دھاتی کرسی جس میں سمتوں کے لیے دو پتنگیں اور اس کے پچھلے حصے میں سینتالیس بارودی مواد جڑے ہوئے تھے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس وقت ہوا بازی کی ٹیکنالوجی بالکل نہیں تھی اس کا ڈیزائن کافی معقول اور جدید تھا۔
 
جب "خلائی جہاز" کا ڈیزائن اور عمارت مکمل ہو گئی تو وان ہو نے اپنے نوکر کو دھماکہ خیز مواد کو آگ لگانے کا حکم دیا۔ جب نوکر نے دھماکہ خیز مواد کو روشن کیا تو ایک بڑا دھماکا سنائی دیا اور وان ہو خلائی پرواز کے حادثے میں مرنے والا پہلا انسان بن گیا۔ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ وان ہو اور اس کی کرسی خلاء میں غائب ہوتی محسوس ہوئی، اس کے نوکروں کو یقین تھا کہ وان ہو واقعی چاند پر غائب ہو گیا ہے۔
 
image
 
اگرچہ وان ہو کی المناک موت ہو گئی لیکن اس کا خواب تقریباً 400 سال بعد یوری گاگارین اور نیل آرمسٹرانگ جیسے لوگوں نے پورا کیا۔ 1970 میں ناسا نے وان ہو کے خوابوں کا احترام کرتے ہوئے چاند کے گڑھوں میں سے ایک کا نام ان کے نام پر رکھا جس سے ان کی چاند پر رہنے کی خواہش جزوی طور پر پوری ہوئی۔ اس کی موت افسوسناک تھی لیکن اس کا نام اب بھی افسانوی کہانیوں کے ذریعے یاد کیا جاتا ہے جس نے چاند پر جانے کی پہلی کوشش کی اور دنیا کو ایک نیا خیال دیا ۔
YOU MAY ALSO LIKE: