مالِ ریاست و استعمالِ ریاست

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالحشر ، اٰیت 6 تا 10 مالِ ریاست و استعمالِ ریاست اور اِسقلالِ اہلِ ریاست !!اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وما
افاء اللہ
علٰی رسولہ
منہم فما او
جفتم علیہ من
خیل و لا رکاب و
لٰکن اللہ یسلط رسلہ
علٰی من یشاء واللہ علٰی
کل شئی قدیر 6 ما افاء اللہ
علٰی رسولہ من اھل القرٰی فللہ و
للرسول و لذی القربٰی و الیتٰمٰی و المسٰکین
و ابن السبیل کی لا یکون دولة بین الاغنیاء منکم
و ما اٰتٰکم الرسول فخذوہ و ما نھٰکم عنہ فانتھوا واتقوا
اللہ ان اللہ شدید العقاب 7 للفقراء المھٰجرین الذین اخرجوا من
دیارھم و اموالھم یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا و ینصرون اللہ و رسولہ
اولٰئک ھم الصٰدقون 8 والذین تبوؑالدار و الایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم
و لا یجدون فی صدورھم حاجة مما اوتوا و یوؑثرون علٰی انفسہم و لو کان بھم خصاصة
و من یوق شح نفسہ فاولٰئک ھم المفلحون 9 والذین جاءو من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا و
لاخواننا الذین سبقونا بالایمان و لا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا ربنا انک رءوف رحیم 10
اگر جنگ کے اِسی زمانے یا کسی بھی زمانے میں لشکر و سپاہ کے ساتھ تُمہارے میدانِ جنگ میں جائے بغیر ، اپنے گھوڑے اور اپنے اونٹ دوڑائے بغیر اور اپنے آلاتِ جنگ استعمال میں لائے بغیر ہی کوئی قوم اپنے گھر بار اور اپنا مال و اٙسباب چھوڑ کر جلاوطن ہو جائے تو اُس کا تمام متروکہ مال و اٙسباب ریاست کی ملکیت میں جائے گا کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ملنے والا وہ غیر متوقع مال و اٙسباب ہے جو کبھی کبھی اللہ زمین میں اپنے نمائندوں کو دینے کے بعد اپنے نبی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ اِس مال و اسباب کو اہلِ ریاست کے یتیم و یسیر ، مسافر و اسیر اور اہلِ ریاست کے دُوسرے بے روز گار و نا دار اٙفراد کے درمیان تقسیم کر دے اور اِس تقسیم میں اللہ کا رسول جس کو جو دے وہ اُس کو قبول کرلے اور جس کو جس کی پسند کی جو چیز نہ مل سکے تو وہ اُس چیز کے حصول کے لئے اصرار یا تکرار بھی نہ کرے ، اِن متروکہ اموال پر اُن اہلِ ایمان کا بھی حق ہے جو پہلے ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے رسول کے ساتھ ہجرت کی اذیت برداشت کی ہے اور اُنہوں نے اِس جبرِ آزمائش کے دوران ثابت قدمی کے ساتھ حق کا ساتھ دیا ہے اور اِن متروکہ اموال پر اُن لوگوں کا بھی حق ہے جنہوں نے اپنے قلبی لگاوؑ سے مہاجرینِ مکہ کی مالی و جانی مدد کی ہے اور اپنی ضروریات پر اُن کی ضروریات کو ہمیشہ ہی ترجیح دی ہے اور اِن دونوں جماعتوں نے مال و اسباب کے حصول کے لئے ایک دُوسرے کے ساتھ کبھی اُکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں کی ہے بلکہ اِن سب نے اپنے رب سے ہمیشہ ہی ایک دُوسرے کے لئے کامیابی و کامرانی کی استدعا کی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے متنِ کلام میں انسانی نفسیات و احساسات کے ابلاغ کی جو بلاغت و گہرائی ہے اُس بلاغت و گہرائی کو کسی بھی زبان میں اِس طرح مُنتقل کرنا مُمکن نہیں ہے جس طرح کہ اُس کو مُنتقل کرنے کا حق ہے اِس لئے اٰیاتِ بالا کے اُس مفہومِ بالا میں بھی بھی وہ بلاغت و گہرائی نہیں ہے جو مفہوم ہم نے اٙدا کرنے کی کوشش کی ہے ، کیونکہ اِن اٰیات میں اللہ کے اُس رسول کی اُس ایمان دار جماعت کا ذکرِ جمیل و جلیل ہے جس جماعت کو اُس کے اُس زمانے میں ایک بار ہی چشمِ فلک نے زمین پر دیکھا ہے اُس زمانے سے پہلے یا اُس زمانے کے بعد کبھی بھی نہیں دیکھا ہے ، اُس رسول کی اُس تربیت یافتہ جماعت کا کردار یہ تھا کہ مکے سے اہلِ حق کے جو لُٹے پٹے قافلے مدینے کے اہلِ حق کے پاس آتے تھے وہ اُن قافلوں کو اِس طرح گلے لگاتے تھے کہ جس طرح اُس کے دُنیا سے گزرے ہوئے وہ رشتے دار اٙچانک ہی زندہ ہو کر دوبارہ اُن کی زمین پر آگئے ہیں جن کی دید کے لئے اُس کی آنکھیں ترس رہی تھیں اور جن کی محبت کے لئے اُس کے دل تڑپ رہے تھے اور اُس مہمان نواز جماعت کے بٙس میں نہیں ہے کہ وہ اُن کے لئے آسمان کے سارے تارے اُتار کر زمین پر لے آئے یا اُن کے پیروں میں اپنی پلکیں بچھا کر اُن کو اپنی بے پایاں محبت کا یقین دلائے اور مکے کے وہ لُٹے پٹے مہاجر بھی چاہتے تھے کہ اُن کی زندگی میں بھی کبھی نہ کبھی کوئی ایسا لٙمحہ ضرور آجائے کہ اگر اہلِ مدینہ کو اُن کی جان کی ضرورت پڑ جائے وہ اُن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اُن کی محبت و مہربانی کا اُن کو کُچھ صلہ ضرور دے دے اور یہ اُس رسول کی دینی و رُوحانی تربیت کا نتیجہ تھا جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لٙمحہ اُن مہاجر و انصار کے لئے وقف کیا ہوا تھا ، اٰیاتِ بالا میں اُس زمانے کی اُس خاص صورتِ حال کا ذکر کیا گیا ہے جب دینِ مُوسٰی کی طرف خود کو منسوب کرنے والے ایک لادین قبیلے بنی نضیر نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر توڑنے اور باغات اُجاڑنے کے بعد مدینے سے ہجرت کی تھی اور اُن کے بچے ہوئے گھر بار ، اُن کے بنائے ہوئے مضبوط قلعے اور اُن کے لگائے ہوئے سارے باغات مدینے کی اسلامی ریاست کے قبضے میں آگئے تھے اور چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ مدینے کی وہ اسلامی ریاست اِن متروکہ اثاثوں کی مالک بنی تھی اِس لئے اللہ نے اٰیاتِ بالا میں اُس کو ایک ایسا قومی بیت المال قائم کرنے کا حُکم دیا ہے جس بیت المال میں ریاست کے ہر شہری کا حصہ موجُود ہو اور اُس ریاست کا ہر شہری اپنے ضروریات کے لئے جب چاہے اُس قومی بیت المال سے رجوع کر سکے ، یہ واقعہ اُس زمانے کا ایک نقلِ واقعہ ہے جس زمانے میں عرب کے اِن قبائل کے پاس اپنی اِن قبائلی جنگوں کے لئے کوئی ایسا منظم تنخواہ دار فوجی ادارہ نہیں ہوتا تھا جس کے تنخواہ دار فوجی اِن جنگوں میں شرکت کرتے اِس لئے اِن جنگوں میں زیادہ وہ مُحتاجِ روز گار اٙفراد شامل ہوتے تھے جو حصول روز گار کے لِئے ان جنگوں میں شرکت کے لئے آتے تھے اور معاوضے میں اِن کے ہاتھ وہی کُچھ آتا تھا جو ہارا ہوا کوئی لشکر ہارنے کے بعد چھوڑ جاتا تھا ، یہ ایک قدیم طریقہ جنگ تھا جس میں حاصل ہونے والے اٙموال کے بارے میں مُےعدد قُرآنی اُحکام قُرآن کے مُتعدد مقامات پر بیان ہو چکے ہیں اور مدینے کی اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اُن قدیم واقعات میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ عملی جنگ کے بغیر ہی اُس ریاست کے قبضے میں وہ قیمتی اثاثے آگِئے تھے جن کی تقسیم کے اٙحکام اُس کے پاس موجُود نہیں تھے اِس لِئے پہلی بار اُس کو وہ اٙحکامِ { فے } دیئے گئے ہیں جو اٰیاتِ بالا میں بیان کیئے گئے ہیں اور اِن اٙموالِ کے اِن اٙحکام میں اسلامی ریاست پر سب سے پہلے ریاست کے اُن مجبور و لاچار لوگوں کا حقِ ضرورت کا ادا کرنا لازم کیا گیا ہے جو کسی بھی وجہ سے روزی کمانے سے محروم ہیں اور اُس کے بعد مکے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار کا حقِ ملکیت بیان کیا گیا ہے اور تقسیمِ مال میں اللہ نے اپنے رسول کو وہ صوابدیدی اختیار دیا ہے جس کو تسلیم کرنے کا اہلِ ایمان کو پابند گیا ہے لیکن رسول کے بعد تقسیم کا یہ حق جو اسلامی ریاست کے عمال و حُکام کو مُنقل ہوا ہے اُس حق میں اُن کا کوئی صوابدیدی حق شامل نہیں ہے بلکہ اُن کی اُس تقسیم کا معیار وہ عدلِ اجتماعی ہے جو ہو تو اہلِ ریاست کو ہوتا ہوا نظر آئے اور اسلامی ریاست کا ہر فرد اُس کا بچشمِ خود مُشاہدہ کر سکے ، اللہ نے اپنے رسول کو تقسیمِ مال کا جو حق دیا ہے اُس کے لئے { و ما اٰتٰکم الرسول فخذوہ و ما نھٰکم عنہ فانتھوا } کے وہ الفاظ استعمال کئے ہیں جن کا ما حصل یہ ہے کہ اِس تقسیم کے بُنیادی اِحکام اِن اٰیات میں پہلے ہی بیان ہو چکے اِس لئے اللہ کا رسول جو کُچھ تمہیں دے گا وہ اِن اٙحکام کے عین مطابق ہی ہو گا اور جو چیز تمہیں نہیں دے گا تو اُس کا فیصلہ بھی اُس نے اِن اٙحکامِ نازلہ کے مطابق ہی کیا ہو گا اِس لئے اللہ کا رسول جو بھی فیصلہ کرے اُس فیصلے کو کوئی حیل و حُجت کیئے بغیر قبول کیا جائے لیکن اہل روایت نے قُرآن کے اِس حِکم سے فرمانِ رسول کی ایک الگ ہی قسم نکالی ہوئی ہے جس کو وہ حدیث شریف کہتے ہیں لیکن اِن اٰیات سے یہ مفہوم نکالنا اِن اٰیات میں تحریف کا راستہ نکالنا ہے کیونکہ اِن اٰیات کے متن میں اِس جداگانہ اٙمر کی گُنجائش ہی نہیں ہے جو اہلِ روایت نے نکالی ہے اور اِس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اِن اٰیات کا موضوع و مضمون اسلامی ریاست کو اسلامی ریاست کی معاشی و معاشرتی و معاشی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے ، اُس حدیث و غیر حدیث کی تشریح کرنا نہیں ہے جو نزولِ قُرآن کے کئی سو سال بعد وجُود میں آئی ہے اور قُرآنی تعلیمات سے انحراف کی غرض سے وجُود میں آئی ہے اور مزید براں یہ کہ اِن اٰیات کا متنِ اٰیات بذاتِ خود اللہ کی وہ حدیث ہے جس حدیث کے مقابلے میں کسی انسان کی بیان کی ہوئی کوئی حدیث قطعا اہم نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559309 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More