حشر کا علمی منظر اور تاریخی پس منظر !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورٙةُالحشر ، اٰیت 1 تا 5سُورٙہِ حشر کا علمی منظر اور تاریخی پس منظر !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سبح للہ
مافی السمٰوٰت و
ما فی الارض و ھو
العزیز الحکیم 1ھوالذی
اخرج الذین کفروا من اھل
الکتٰب من دیارھم لاول الحشر
ما ظننتم ان یخرجوا وظنوا انہم
ما نعتہم حصونہم من اللہ فاتٰہم اللہ من
حیث لم یحتسبوا و قذف فی قلوبھم الرعب
یخرجون بیوتہم باید الموؑمنین فاعتبروا یٰاولی الابصار
2 ولو لا ان کتب اللہ علیھم الجلاء لعذبھم فی الدنیا ولھم فی
الاٰخرة عذاب النار 3 ذٰلک بانھم شاقوا اللہ و رسولہ و من یشاق اللہ
فان اللہ شدید العقاب 4 ماقطعتم من لینة او ترکتموھا قائمة علٰی اصولھا
فباذن اللہ ولیخزی الفٰسقین 5
سات آسمانوں اور اُن کی ساری زمینوں کی ساری مخلوق کے درمیان ماضی میں جو نقل و حرکت ہوتی رہی ہے اور حال میں جو نقل و حرکت ہو رہی ہے وہ اُسی غالب کار و حکمت کار خالقِ عالٙم کے غلبہِ عام اور حکمتِ تام کے مطابق ہی ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے جس خالق نے اِس وقت اہلِ کتاب کی اُس کافر قوم کو اُس کے اُن مضبوط قلعوں سے بیدخل کیا ہے جن کے بیدخل ہونے کا تُم نے اور خود اُس نے بھی کبھی گمان نہیں کیا تھا لیکن جب اللہ نے اُس کو اُس کی اُن زیرِ قبضہ زمینوں اور مکانوں سے بیدخل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اُس پر تُمہارے خوف کا وہ عذاب ڈال دیا کہ وہ آپ ہی اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کرنے اور تُمہارے ہاتھوں سے برباد کرانے کے بعد اہلِ زمین کے لئے نقشِ عبرت بن گئی ، اگر اللہ نے اُس کو اِس دُنیا میں جلاوطنی کی یہ سزا دینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اُس کو اِس دُنیا میں بھی ایک بڑا عذاب دے دیا جاتا لیکن اُس کے ساتھ جو کُچھ بھی ہوا ہے وہ اِس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ جنگ آزما ہو چکی تھی اور جو قوم اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف جنگ آزما ہوتی ہے وہ اسی سزا کے مُستحق ہوتی ہے جو سزا ہم نے اُس کو دی ہے ، تُم نے اُس کی نقل و حرکت کو چُھپانے والے جن درختوں کو کاٹا اور جن کو چھوڑ دیا ہے اُن کا کاٹ دینا اور چھوڑ دینا بھی اللہ کا اپنا فیصلہ تھا اِس لئے تُم کو اپنے اُس عمل پر دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا نام { حشر } ہے جو اسمِ نکرہ ہے اور اِس پر تعریف کا جو { الف لام } داخل ہوا ہے اُس نے اِس اسمِ نکرہ کو وہ اسمِ معرفہ بنا دیا ہے جس کا ایک معروف معنٰی انسانی جمعیت اور اِس کا ایک معنٰی انسانی جمعیت کی جلا وطنی ہے اور اِس مقام پر اِس سے اِس کا یہی دُوسرا معنٰی مراد ہے جس سے مراد بنی اسرائیل کے ایک ہی قبیلے کی پہلی جلا وطنی کے بعد اُسی ایک قبیلے کی دُوسری بار ہونے والی دُوسری وہ خاص جلا وطنی ہے جس کا اِس سُورت میں خاص طور پر ذکرِ عبرت کیا گیا ہے ، سُورٙةُالحشر کا یہ علمی و تاریخی مضمون اگرچہ اہلِ نفاق کے عملِ نفاق کے بارے میں سُورٙةُالمجادلة کی آخری اٰیات کے آخری مضمون میں بیان ہونے والے اُسی مُجمل بیان کا ایک مُفصل بیانیہ ہے جو اِس سُورت میں پہلے سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن اِس سُورت کے اِس موضوعِ سُخن کا ایک مضمون تو اِس کا وہ علمی منظر ہے جو اِس سُورت کی پہلی اور آخری اٰیت میں بیان کیا گیا ہے اور ایک وہ تاریخی پس منظر ہے جو اِس سُورت کی پہلی اور آخری اٰیت کے درمیان بیان کی گئی اٰیات میں بیان کیا گیا ہے ، اگر ترتیبِ کلام کے لحاظ سے اِس موضوع پر نظر ڈالی جائے تو اِس کا علمی منظر یہ ہے کہ اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں جو { سبح للہ ما فی السمٰوٰت والارض } آیا ہے اُس میں { سبح } ماضی معروف کا صیغہ ہے جو یہاں پر یہ ظاہر کرنے کے لِئے لایا گیا ہے کہ ماضی میں زمین پر اہلِ زمین نے جو نقل و حرکت کی ہے اگر اُن کی اُس نقل و حرکت کے ارادے میں اللہ تعالٰی کی توفیق شاملِ حال نہ ہوتی تو اُن کی وہ نقل و حرکت کبھی بھی وہ نتائج کی حاصل نہ کر پاتی جو نتائج ماضی میں اُن اہلِ زمین نے حاصل کئے ہیں اور اِس سُورت کی آخری اٰیت میں جو { یسبح لہ مافی السمٰوٰت و ما فی الارض } ہے اُس میں { یسبح } مضارع کا وہ صیغہ ہے جو یہاں پر یہ ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ مُستقبل میں بھی اہلِ زمین اِس زمین پر اپنی جس نقل و حرکت کا ارادہ کرنا چاہیں گے تو اگر اُن کی اُس نقل و حرکت کے اُس ارادے میں اللہ کی توفیق شاملِ حال نہیں ہوگی تو مُستقبل میں بھی زمین کے اہلِ زمین اپنی نقل و حرکت سے وہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے جو نتائج وہ حاصل کرنا چاہیں گے اور اِس سُورت کی دُوسری اٰیت سے اِس سُورت کا جو پہلا بیان شروع کیا گیا ہے اُس بیان میں زمین کے اہلِ حال کو اُن کے مُشاہدہِ حال سے اللہ کی اِس توفیق کی اِس قُوت و قُدرت پر یہ دلیلِ حال دی ہے کہ تُم اپنے دشمنوں کے جن قلعوں کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے وہ خود بھی اُن کو تُمہاری طرح ناقابلِ تسخیر ہی سمجھتے لیکن جب اللہ نے اُن کو اُن کے اُن ناقابلِ تسخیر قلعوں سے بیدخل کرنے کا ارادہ کرلیا تو اُن کی اپنی ہی نقل و حرکت اللہ کے ارادے کی اِس طرح تکمیل کرنے لگی کہ وہ خود ہی اُن قلعوں کو چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے اور اہلِ زمین کے ماضی و حال اور مُستقبل کا یہ وہ نقشہ ہے جو اہلِ عقل پر یہ ثابت کرنے کے لئے بہت کافی ہے کہ اہلِ زمین جو بھی نقل و حرکت کرتے ہیں اور اپنی اُس نقل و حرکت سے جو بھی نتائج حاصل کرتے ہیں وہ نتائج اللہ کی توفیق کے بغیر کبھی بھی حاصل نہیں کرتے اور کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے ، جہاں تک اِس علاقے کی اِن زمینوں اور اِن مکانوں سے بیدخل ہونے والی اُس قوم کا تعلق ہے تو اہلِ روایت و تفسیر نے اُس قوم کے بارے میں یہ غلط اندازہ لگایا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کی ایک یہودی قوم تھی اور اُن کا یہ اندازہ اِس لئے غلط ہے کہ قُرآن نے اُس قوم کے بارے میں یہ بیان دیا ہے کہ { ھوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتٰب من دیار ھم لاول الحشر } یعنی یہ جلا وطن قوم وہ قوم تھی جو اہلِ کتاب کے دینِ کتاب سے اپنی پہلی جلاوطنی کے زمانے میں ہی انکار کر کے پہلے ہی کافر ہو چکی تھی اِس لئے یہ اپنی اِس دُوسری جلا وطنی کے وقت اہلِ کتاب میں بھی شامل نہیں تھی اور اہلِ کتاب کے دینِ کتاب کی حامل بھی نہیں تھی تاہم اِس قوم کا اپنا دعوٰی یہی تھا کہ وہ 1200ء قبل مسیح سے یہاں پر آباد ہے لیکن اُس کے اِس دعوے کی کوئی تاریخی تصدیق موجُود نہیں ہے اور اِس قوم کے بارے میں جو تاریخی تصدیق موجُود ہے وہ یہ ہے کہ اِس قوم کے کُچھ لوگ پہلے 70ء میں اور کُچھ لوگ اِن کے بعد 123ء میں بظاہر تو ایک یہودی قوم کے یہودی اٙفراد کے طور پر یہاں آکر آباد ہوئے تھے لیکن قُرآن نے اُن کی اُس مہاجرت کے وقت اُن کے اہلِ کتاب ہونے کی جو تردید کی ہے وہ حرفِ آخر ہے کیونکہ جس وقت وہ اِس علاقے میں آئے تھے اپنے عمل کے اعتبار سے وہ لامذہب ہو چکے تھے لیکن وہ اپنے اُس قول کے اعتبار سے ضرور یہودی تھے جو اُن کا ایک غیر معتبر قول تھا ، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عربی زبان میں چونکہ ہر شہر کو مدینہ کہا جاتا ہے اِس لئے وہ لوگ اپنے خیال کے مطابق مدین کے جس علاقے کے جس شہرِ مدینہ سے ہجرت کر کے اِس علاقے کے جس شہر میں پُہنچے تھے وہ شہر بھی مدینہ تھا اِس لئے اِس پر اپنا حقِ ملکیت ثابت کرنے کے لئے اُنہوں نے اُس شہر کو { یثرب } کہنا شروع کر دیا تھا کیونکہ مصدر { ثرب } بمعنی بدلہ سے یثرب کا معنٰی وہ شہر ہوتا ہے جو اپنے متروکہ شہر کے بدلے میں اُن کو ملا ہوا ہوتا ہے اور جب اِس مدینے کا نام اُنہوں نے یثرب رکھ دیا تو پھر یہ شہر اسی نام سے مشہور ہو گیا یہاں تک کہ جب سیدنا محمد علیہ السلام مکے سے ہجرت کر کے یہاں پر تشریف لائے تو وہ یثرب پھر سے مدینہ بن گیا ، خلاصہِ کلام یہ ہے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے کسی یہودی اہلِ کتاب خاندان کو اِس علاقے سے خارج نہیں کیا بلکہ اللہ تعالٰی نے خود ہی اُس قبضہ مافیا کو اِس شہر سے بیدخل کیا ہے جس شہر پر اُس مافیا نے اپنا ناجائز قبضہ قائم کیا ہوا تھا اور اُن کی اِس بیدخلی کا سبب یہ تھا کہ اِس سُود مافیا کے یہ لوگ امن و سکون سے رہنے اور رہنے دینے کے بجائے اللہ اور اُس رسول کے خلاف جنگ آزما ہو چکے تھے اور اللہ نے اُن لوگوں کو اُن کے اسی جُرم کی سزا دے کر شہر بدر اور علاقہ بدر کیا تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462259 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More