نبوت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے ،انسانیت کے
ماتھے کا جھومر،قرآن کے اولین مخاطب ،نبی کریم ﷺ پر فدا ہونے والے جانثار
اور فرماں بردار،اولئک ہم الراشدون ،اولئک ہم الفائزون ،اولئک ہم المومنون
حقا،رضی اﷲ عنھم ورضو عنہ کے حقیقی مصداق،ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر نبوت
سے مستفید ہونے والے،غزوات میں ایک دوسرے کی خاطر خود کو ڈھال بنانے
والے،ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ،ایک دوسرے کا بہترین دلاسہ ،ایک
دوسرے سے دین سیکھنے اور سمجھنے والے ،رحما ء بینھم کی عملی تفسیر اور
تشریح،نبوت کی پہلی درسگاہ سے اکھٹے اکتساب فیض کرنے والے ،نبوی بشارات کے
انعام یافتہ ،پروردگار عالم کی طرف سے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے بہترین محافظ
اور معتقدین،نبوی ارشادات کی مجسم صورت، ایک دوسرے کے احترام ،محبت
،مودت،غم خواری کا معیار ،احکام الہی اور اسلامی تعلیمات پر من وعن عمل
کرنے والے ،کفر کے خلاف سیسہ پلائی دیواراور آپس میں باہم شیر وشکرصحابہ
کرام اور اہلبیت عظام رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین کی قدسی صفات جماعت تھی
۔
ان میں سے کسی ایک پر بھی اگر سب وشتم کیا جائے تو نعوذ باﷲ اس کا مطلب یہ
ہوگا کہ نبی کریم ﷺ کی محنت رائیگاں گئی ، کیونکہ آپ ﷺ کی آواز پر لبیک
انہوں نے ہی کہی ،یہی کٹ مرنے کو تیار ہوئے ،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور یہ اس کی عملی تفسیر تھے ،نبی کریم ﷺ نے
مسلمانوں کے باہمی تعلقات ،آپسی پیار و محبت ،باہمی احترام ،باہمی فکرمندی
اور خیرخواہی کے جذبات کے متعلق جو کچھ فرمایا انہوں نے بغیر کسی لیت و لعل
کے من و عن ویسے ہی عمل کیا اور قیامت کی صبح تک تمام انسانیت کے لئے عملی
نمونہ بن گئے ۔
یہ تحریر ایک تحریر نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو آج کل کے مسلمانوں کے سامنے
رکھا جارہا ہے کہ کیسے مشکل حالات میں مل جل کر مقابلہ کیا جاتا ہے ،کیسے
اپنے فطرتی اختلافات کو اپنی قوت بنایا جاتا ہے ،کیسے متحد ہوکر دشمن کا
مقابلہ کیا جاتا ہے ،کیسے دین اسلام کی سربلندی کو مقصد حیات بنا کر دنیا
میں غلبہ حاصل کیا جاتا ہے ،کیسے ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے ،کیسے
ایک ایسا اسلامی اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جاتا ہے کہ قیامت کی صبح تک
دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ۔
آج کل لوگ ان قدسی صفات جماعت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پھوٹ ثابت کرنے
کی ناکام کوشش کرکے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں درحقیقت وہ جانے انجانے میں
اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے درپے ہیں اگر ہم ان لوگوں کی بات پر کان
دھرنے لگیں تو خود سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان مقدس شخصیات نے نبی کریم
ﷺ کی تعلیمات سے روگردانی کی ہو ،روگردانی تو ایک طرف انہوں نے تو احکام
نبوی ﷺ کی تعمیل میں ایک لمحہ بھی تاخیر کرنا گوارا نہ کیا ،نبی کریم ﷺ نے
حکم فرمایا چل پڑو تو یہ چل پڑے کسی نے ایک سیکنڈ کی مہلت نہیں مانگی تو
بھلا جن کو نبی کریم ﷺ نے آپسی تعلقات کے متعلق باقاعدہ تعلیم دی بلکہ عملی
مشقیں بھی کروائی ہوں اور جنہیں آنے والی تمام انسانیت کے لیے نمونہ بنانا
ہو وہ کیسے آپ ﷺ کی احکامات سے روگردانی کرسکتے ہیں ،جن کا جینا
،مرنا،اٹھنا ،بیٹھنا ،چلنا ،پھرنا ،کھانا،پینا ،معاملات ،معاشرت اور زندگی
کا ہر ہر لمحہ نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق ہو وہ کیسے باہمی الفت و محبت کو
ترک کرسکتے ہیں ؟۔
آئیں میں آپ کو ان کے باہمی تعلقات اور باہمی احترام و احساس کے رشتے کو
مستند حوالے سے دکھاتا ہوں آئیں آپ کو آج سے پندرہ سو سال پہلے مکہ اور
مدینہ کی گلیوں میں لے چلوں ۔
سیدنا صدیق اکبر ؓ اور سیدنا فاروق اعظم ؓ اپنے دور خلافت میں سیدنا عباس
بن عبدالمطلب ؓ کو دیکھتے تو احتراماً اپنی سواریوں سے اتر پڑتے ۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ اپنے دور خلافت میں سیدناعباس بن عبدالمطلب ؓ سے بارش
کے لیے دعا کروایا کرتے تھے ۔
طبقات ابن سعد میں مروی ہے کہ حضرۃ عمر ؓ نے حضرۃ عباس ؓ سے فرمایا ـ’’اﷲ
کی قسم !جس دن آپ اسلام لائے آپ کا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے
اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا کہ وہ اسلام لاتے کیوں کہ آپ کا اسلام رسول
اﷲ ﷺ کو خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا ‘‘۔(البدایہ والنہایہ ج۲ ص
۸۹۲)
سیدنا صدیق اکبر ؓ نے حضرۃ علی ؓ سے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے
میں میری جان ہے رسول اﷲ ﷺ کے رشتے کو جوڑنا میرے نزدیک میری رشتہ داری کو
جوڑنے سے زیادہ محبوب ہے ۔(صحیح البخاری باب مناقب قرابت الرسول ﷺ)
ابن عبدا لبر نے حضرۃ عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ عبداﷲ بن عباس ؓ کے سلسلہ
میں فرمایا کرتے تھے ’’قرآن کے بہترین ترجمان عبداﷲ بن عباس ؓ ہیں ،اور جب
وہ سامنے آتے تو فرماتے ادھیڑ عمروں کا نوجوان آگیا ،سوال کرنے والی زبان
اور عقل مند دل آگیا‘‘۔(الاستیعاب لابن عبدالبر ۱۴۴۷)
علامہ ابن عبد البر نے الاستعیاب ص ۱۸۷۱ میں نقل کیا ہے کہ حضرۃ معاویہ ؓ
کے سامنے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ حضرۃ علی ؓ کو اس کے بارے میں پوچھنے
کے لیے خط لکھتے جب حضرۃ معاویہ ؓ کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو فرمایا
’’ابن ابو طالب کی موت سے فقہ اور علم چلا گیا ‘‘۔(آل رسول اور اصحاب رسول
ص۷۴)
حضرۃ علی المرتضی ؓ خلفائے ثلاثہ کے ادوار میں مجلس شوری کے اہم رکن ،مجلس
حربیہ کے مشیر رہے ،قانون سازی میں بڑا عمل دخل تھا حضرۃ عمر ؓ نے تو یہاں
تک فرمایا کہ ’’اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ‘‘۔
سیدہ فاطمہ ؓ جب علیل ہوئیں تو حضرۃ ابوبکر ؓ کی زوجہ محترمہ حضرۃ اسماء
بنت عمیس ؓ نے ان کی خدمت کی اور رحلت کے بعد سیدہ ؓ کو غسل بھی انہوں نے
ہی دیا اور جنازہ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے سیدنا علی المرتضی ؓ کے کہنے پر
پڑھایا،دیکھیں کیسا اتفاق ہے کہ سیدنا علی المرتضی ؓ کو شادی کے لیے ترغیب
بھی سیدنا صدیق اکبر ؓ نے دی اور اس شادی میں گواہ بھی بنے ،شادی کے
انتظامات میں شرکت بھی کی سبحان اﷲ ۔
کنز العمال میں ہے کہ حضرۃ علی المرتضی ؓ کو پتا چلا کہ کچھ لوگ حضرۃ
ابوبکر وعمر ؓ کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں تو آپ ؓ منبر پر
تشریف لائے اور فرمایا’’اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور
روح کو پیدا کیا ! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہوگا اور ان
دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت ہوگا کیونکہ ان دونوں کی محبت
تقرب الہی کا سبب ہے اور ان سے بغض رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت، ان
لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو رسول اﷲ ﷺ کے دو بھائیوں اور دو وزیروں اور دو
ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ
سے یاد کرتے ہیں میں انہیں اس پر سزا دوں گا ‘‘۔(صحابہ و اہلبیت کے درمیان
یگانگت اور محبتیں ص۳۲)
حضرۃ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں حضرۃ عمر ؓ کی شہادت کے بعد ان کے جسم
اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی
کہنی رکھی اور فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے بے شک مجھے امید ہے کہ
اﷲ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ
)کا ساتھ عطا کرے گا کیونکہ میں نے بارہا رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے سنا تھا
’’میں تھا اور ابوبکر و عمر ،میں نے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے ،میں چلا
اور ابوبکر و عمر ،میں داخل ہوا اور ابوبکر وعمر ،میں نکلا اور ابوبکر و
عمر ‘‘رضی اﷲ عنہم ۔میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ حضرۃ علی المرتضی ؓ تھے
۔(بخاری باب المناقب ،مسلم کتاب الفضائل )
امام محمد باقر ؒ کے بارے میں طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۳۲۱ میں لکھا ہے کہ ابن
سعد نے حسام صیرفی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے ابو جعفر سے
ابوبکر اور عمر ؓ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا :اﷲ کی قسم
!میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک کو ان دونوں سے محبت کرتے ہوئے دیکھا
ہے ۔(آل رسول اور اصحاب رسول ص۳۷)
البدایہ والنہایہ ج۹ ص ۲۱۱ میں تحریر ہے کہ جابر ؒ نے فرمایا کہ مجھ سے
محمد باقر بن علی نے کہا :جابر مجھے معلوم ہوا ہے کہ عراق میں بعض لوگ
ہماری محبت کا دعوی کرتے ہیں اور ابوبکر و عمر ؓ کو گالیاں دیتے ہیں ان
لوگوں کا دعوی ہے کہ میں نے ان کو اس کا حکم دیا ہے ،میری طرف سے ان کو یہ
بات پہنچا دو کہ میں اﷲ کے یہاں ان سے بری ہوں ،اس ذات کی قسم جس کے قبضے
میں میری جان ہے اگر مجھے ذمہ دار بنایا جائے تو میں ان کا خون کرکے اﷲ کا
تقرب حاصل کروں گا ،اگر ابوبکر ؓ و عمر ؓ کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا نہ
کروں تو مجھے محمد ﷺ کی سفارش نہ ہو‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’جس نے ابوبکر
و عمر ؓ کی فضیلت نہیں جانی وہ سنت سے ناواقف ہے ۔(آل رسول اور اصحاب رسول
ص۳۸)
آپس میں رشہ داریاں کرنا بھی ایک دوسرے سے محبت کا لازوال اور بہترین اظہار
ہے اور یہی اظہار کئی نسلوں تک صحابہ اور اہلبیت عظام رضی اﷲ عنہم کا جاری
رہا تا کہ آنی والی امت کو ان کے آپسی تعلق اور محبت کا علم ہو ۔
امام جعفر صادق ؒ نے فرمایا مجھے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے دوبار پیدا کیا
۔(سیر اعلام النبلا ج۶ ص۲۵۵)اس قول کا سبب یہ نسب ہے والد کی طرف سے جعفر
الصادق بن محمد بن علی بن حسین بن علی المرتضی ؓ اور والدہ کی طرف سے ام
فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر اور والدہ ہی کی طرف سے ام فروہ بنت
اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ ۔(صحابہ و اہلبیت کے درمیان یگانگت اور
محبتیں ص۱۷)
سیدنا جعفر بن ابی طالب ؓ کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ سیدہ اسماء بنت عمیس
ؓ(سیدنا علی المرتضی ؓ کی بھابھی)کا نکاح سیدنا صدیق اکبر ؓ سے ہوا ،ان سے
آپ کا ایک بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے ،سیدنا صدیق اکبر ؓ کی رحلت کے
بعد انہی اسماء بنت عمیس سے سیدنا علی المرتضی ؓ نے نکاح فرمایا ،محمد بن
ابی بکر کے بارہ میں سیدنا علی المرتضی ؓ فرمایا کرتے تھے’’ یہ ابوبکر کی
پشت سے ہے لیکن میرا بیٹا ہے ‘‘انہیں سیدنا علی المرتضی ؓ نے مصر کا گورنر
بھی مقرر فرمایا تھا ۔(صحابہ و اہلبیت کے درمیان یگانگت اور محبتیں ص۱۷)
اسی طرح سیدنا حسن بن علی المرتضیٰ نے سیدنا صدیق اکبر ؓ کے بیٹے عبدالرحمن
کی صاحبزادی حفصہ سے نکاح فرمایا تھا ۔یہ رشتہ داری کا سلسلہ کئی نسلوں تک
یونہی چلتا رہا جیسے موسی الحجون بن عبداﷲ المحض بن الحسن المثنی بن الحسن
السبط بن علی المرتضیؓ نے سیدنا صدیق اکبر ؓ کے پوتے عبداﷲ بن عبدالرحمن کی
پڑپوتی ام سلمہ بنت محمد بن طلحہ بن عبداﷲ سے نکاح فرمایا تھا ۔
اسحق بن عبداﷲ بن علی بن الحسین بن علی المرتضی نے کلثوم بنت اسماعیل بن
عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق سے نکاح فرمایا تھا ۔
سیدنا علی ؓ اور سیدنا فاطمہ ؓ کی صاحبزادی سیدہ ام کلثوم کا نکاح سیدنا
فاروق اعظم ؓ سے ہوا ،ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا زید بن عمر اور جناب زید بڑے
فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں دو خلیفوں کا بیٹا ہوں ۔(سیر اعلام النبلاج۳
ص۵۰۲)
سیدنا حسین بن علی بن علی بن حسین بن علی المرتضی کا نکاح سیدہ جویرہ بنت
خالد بن ابی بکر بن عبداﷲ بن عمر فاروق ؓ سے ہوا ،یعنی سیدنا حسین بن علی
المرتضی ؓ کے پوتے کے پوتے کا نکاح سیدنا عمر فاروق ؓ کے پوتے کی پوتی سے
ہوا ۔
سیدنا عثمان غنی ؓ کے بیٹے ابان بن عثمان کا نکاح عبداﷲ بن جعفر بن ابی
طالب کی بیٹی ام کلثوم سے ہوا ۔
سیدنا عثمان ؓ کے پوتے زید بن عمر و بن عثمان کا نکاح سیدنا علی بن ابی
طالب کی پوتی اور سیدنا حسین بن علی کی بیٹی سکینہ سے ہوا ،اسی طرح سیدنا
عثمان ؓ کے ایک اور پوتے محمد بن عبداﷲ بن عمرو بن عثمان کا نکاح سیدنا
حسین ؓ کی دوسری بیٹی فاطمہ سے ہوا ۔
محبت کا ایک انداز اپنی اولاد کا نام خلفائے ثلاثہ کے نام پر رکھنا بھی ہے
مثلاًحضرۃ علی المرتضی ؓ نے کمال محبت سے اپنی تین بیٹوں کا نام خلفائے
ثلاثہ کے نام پر رکھا ابوبکر بن علی ، عمر بن علی ،عثمان بن علی اور یہ
تینوں سیدنا حسین ؓ کے ساتھ کربلا میں شہیدہوئے ۔
سیدنا حسن ؓ نے بھی اپنے والد محترم کی طرح اپنے صاحبزادوں کے نام حضرات
شیخین کریمین ؓ کے نام پر ابوبکر بن حسن اور عمر بن حسن رکھا ،اسی طرح
سیدنا حسین ؓ نے بھی اپنے ایک صاحبزادے کانام عمر بن حسین بن علی رکھا
۔سیدنا علی بن حسین زین العابدین نے بھی اپنے نور چشم کا نام سیدنا عمر بن
علی بن حسین اور بیٹی کا نام عائشہ بنت علی بن حسین بن علی رکھا ۔
سیدنا موسی بن جعفر صادق نے بھی اپنے بیٹے کانام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ
رکھا ۔(کشف الغمۃ ج ۳ ص۹۲،تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱۲)
یہ ذخیرہ کتب سے چند واقعات آپ حضرات کے سامنے رکھے ہیں ورنہ اس موضوع پر
بے شمار کتابیں مل سکتی ہیں جن میں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اﷲ
تعالی علیھم اجمعین کے محبت و مودت کے واقعات موجود ہیں ،یہ تحریر ایک دعوت
فکر ہے ہر اس شخص کے لیے جو، ان حضرات پر لکھنا اور پڑھنا چاہتا ہے کہ وہ
اس موضوع کو مدنظر رکھ کر کتابوں کو کھنگالے تو بہت سے قیمتی موتی آپ کے
علمی دامن میں جگمگاتے نظر آئیں گے، یہ تحریر ایک سوال بھی ہے موجودہ زمانے
کے لوگوں سے کہ وہ ان کے تعلقات کو چند ایک ایسے واقعات کے ترازو میں تولنے
لگ جاتے ہیں جس ترازو میں کبھی صحابہ اور اہلبیت کی نسلوں نے نہیں تولا
،اور جس طرح صحابہ اور اہلبیت کے تعلقات کو آج ہم دیکھ رہے ہیں کیا اس طرح
ان کی نسلوں نے بھی دیکھا ؟۔
نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ لوگوں کی زندگیاں ہی اصل میں مشعل راہ اور کسوٹی
ہیں ،احکامات الہی کو نبی کریم ﷺ کے طریقہ پر جس طرح انہوں نے عمل کرکے
دیکھایا اسی طرح کیا جائے گا تو بارگاہ لم یزل میں مقبول ہوگا ورنہ رد
کردیا جائے گا تو جو کسوٹی ہے اگر اس میں سقم رہ گیا تو پھر پیچھے کیا بچے
گا سو ان کے تعلقات کو اپنے تعلقات اور احساسات کے زاویے سے دیکھنے کی
بجائے اپنے خیالات کو ان کے تعلقات پر ڈھالنا ہی میانہ روی ، اعتدال اور
راہ حق کہلائے گا ۔جزاک اﷲ خیرا۔
٭٭٭
|