مغربی فلسفہء الحاد وتشکیک کو علم کے ایک ہی وار سے کاٹ
دینے کا جامع، صحیح اور آسان طریقہ (قرآنی تعلیمات اور غزالی کی تلقینات کی
روشنی میں چند مفید اشارات)
علم کا وہ ایک وار جس سے مغربی فلسفہء الحاد وتشکیک کی پوری عمارت کو یک
لخت منہدم کیا جاسکتا ہے، یہ دراصل وہ علمی وار ہے جس کے ذریعہ امام غزالی
نے اپنے دور کے فلسفہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علم اور
استدلال کا وہ وار قرآن کی چند روشن تعلیمات سے مستفاد ہے۔
ہم نے اپنی کتاب 'غزالی اور ابن رشد کا قضیہ' کے تیسرے اور چوتھے باب میں
تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح فارابی اور بوعلی سینا سے کر ابن رشد تک تمام
فلاسفہء اسلام ارسطو کے الہیاتی اور نیم الہیاتی نظریات کو ریاضی کی طرح
قطعی سمجھتے تھے۔ جبکہ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ کی صورت میں قلم
اٹھایا تو خود انہی کے الفاظ ہیں کہ فلسفہ کے غیر اسلامی اجزاء کی نشان دہی
کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں میرا دوسرا بڑا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ فلسفہ
کے الہیاتی یا نیم الہیاتی نظریات صرف ظن وتخمین پر مبنی ہیں اور انہیں
قطعی ماننا محض ایک دھوکا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزالی نے ایسا کرنے پر اکتفاء کیوں کیا۔ یعنی وہ ان
کے دعوائے قطعیت کو رد کرکے اور ان کے نظریات کے ظنی ہونے کو واضح کرکے آخر
کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے کئی جواب کتاب کے اندر دیے گئے ہیں،
ہماری نظر میں سب سے عمدہ جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطابق الہیات یعنی
غیبیات کے بارہ میں کسی بھی بات کا محض ظنی وتخمینی ثابت ہونا ہی اسے مسترد
کرنے کے لیے کافی ہے اور امام غزالی ان کے فلسفیانہ افکار میں تشکیک اجاگر
کرکے انہیں اسی بنیاد پر مسترد کرنا چاہتے ہیں۔
وہ بات جو ظن وتخمین پر مبنی ہو، اس کے پیچھے بھاگنے اور اس کی اتباع کرنے
سے اجتناب کرنا چاہیے، اس پر قرآن کی ایک سے زیادہ آیات دلالت کرتی ہیں۔
مثلا قرآن کا مطالبہ ہے : لاتقولوا علی اللہ الا الحق، یعنی اللہ کے بارہ
میں صرف وہ بات کہو جو قطعیت سے ثابت اور خدا کے حسب شان ہو۔
اسی طرح ملائکہ کو مونث کہنے والوں اور سیدنا عیسی کو ابن اللہ قرار دینے
والوں سے قطعی دلیل کا مطالبہ کرنا بھی قرآن کے اسی منہاج کی نہایت واضح
دلیل ہے۔
اسی طرح ارشاد ہے کہ ولاتقف ما لیس لک بہ علم، یعنی جس بات کا قطعی علم
تمہیں حاصل نہ ہو، اس کی اتباع مت کرو
ایک جگہ ارشاد ہے کہ ان یتبعون الا الظن وان ہم الا یخرصون، یعنی یہ اہل
کفر صرف ظن وتخمین اور اٹکل کے پیچھے چل رہے ہیں۔
جبکہ ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ ان الظن لایعنی من الحق شیئا، یعنی ظن اور
اندازہ کی بناء پر حقیقتیں نہیں بدلی جاسکتیں۔
ظاہر ہے کہ قرآن کی یہ ساری باتیں اس کے لیے ہیں جو صاحب تقوی یعنی محتاط
آدمی ہو اور احتیاط کے ساتھ علمی حقائق پر بات کرنا اس کے پیش نظر ہو۔ اسی
وجہ سے قرآن کو ہدی للمتقین یعنی محتاط لوگوں کے لیے کتاب ہدایت قرار دیا
گیا ہے۔ جبکہ جو غیر محتاط، غیر سنجیدہ اور غیر متقی لوگ ہیں، ان سےقرآن کا
پہلا مطالبہ سنجیدگی اور احساس ذمہ داری بیدار کرنے کا ہے، باقی سب باتیں
بعد کی ہیں۔
سو تہافت الفلاسفہ کے اندر فلاسفہ پر لگائی گئی غزالی کی علمی ضرب اور زقند
کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی نظریہ کا محض ظنی وتخمینی ثابت ہوجانا ہی اسے اسلامی
میزان کی رو سے مسترد کرنے کے لیے کافی ہےاور غزالی کے اسی منہج ومیزان کو
لے کر جب ہم اپنے عہد کے مغربی فلسفہ کی طرف بڑھتے ہیں تو ایک خوش گوار
حیرت کے ساتھ ہمارا ٹاکرا ہوتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغربی فلسفہ کو
اب ظنی ثابت کرکے مسترد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جدید فلسفہ خود ہی اپنی
ظنیت کا اعتراف کرچکا ہے۔
سو اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ جدید مغربی فلسفہ کو علم کے شکنجہ میں کسنا
اور اسلامی میزان پر تولتے ہوئے اس کے تمام دبستانوں کی یکلخت تردید کرنا
قدیم فلسفہ کو جواب دینے سے بھی زیادہ آسان ہے۔
مگر ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ذہنوں کو یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوگی
کیونکہ ان ذہنوں کے اندر خود ہمارے بعض جدید متکلمین نے ہی ہیوم، فرائڈ اور
نطشے کی علمی عظمت کا نقشہ کچھ اس طرح بٹھا دیا ہے کہ جس طرح ماضی میں کچھ
ذہن ارسطو اور افلاطون کی مرعوبیت میں مبتلا تھے اور ان کی سوچنے سمجھنے کی
صلاحیتیں مفلوج ہوچکی تھیں۔
فلسفہ کا سارا رعب ودبدبہ اس کی ثقیل لفاظی اور بھاری بھرکم اصطلاحاتی زبان
کے طلسم کا مرہون منت ہے۔ اس طلسم کو اگر اندر سے نکال دیاجائے تو پیچھے
اٹکل پچوؤں کا صرف ایک میوزیم ہی بچ جاتا ہے۔
مغربی فلاسفہ کتنے حقیقت پسند اور خداومذہب کے بارہ میں کتنے سنجیدہ تھے،
اس کی چند معمولی سی جھلکیاں ان شاء اللہ عرض کی جائیں گی۔
|