حیات کے اِمکاناتِ حال و مُمکناتِ مُستقبل

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةةالحشر ، اٰیت 18 تا 24حیات کے اِمکاناتِ حال و مُمکناتِ مُستقبل !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا الذین
اٰمنوا اتقوا اللہ ولتنظر
نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ
ان اللہ خبیر بماتعملون 18 و لا تکونوا
کالذین نسوا اللہ فانسٰہم انفسھم اولٰٰئک ھم
الفٰسقون 19 لا یستوی اصحٰب النار و اصحٰب الجنة
اصحٰب الجنة ھم الفائزون 20 لو انزلنا ھٰذا القراٰن علٰی جبل
لرایتہ خاشعا متصدعا من خشیة اللہ و تلک الامثال نضربھا للناس
لعلھم یتفکرون 21 ھو اللہ الذی لا الٰہ الا ھو عٰلم الغیب و الشھادة ھو
الرحمٰن الرحیم 22 ھو اللہ الذی لا الٰہ الا ھو الملک القدوس السلٰم الموؑمن
المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحٰن اللہ عما یشرکون 23 ھو اللہ الخالق البارئ
المصور لہ الاسماء الحسنٰی یسبح لہ ما فی السمٰوٰت و الارض و ھو العزیز الحکیم 24
اے ایمان شناس انسانو ! تُم اپنی خود شناسی کے لئے خُدا شناسی کے اُس حلقے میں آجاوؑ جس حلقے میں آنے کے بعد تُم بچشمِ خود یہ دیکھ سکو گے کہ تُمہاری جانوں نے تُمہارے حال میں کیا کمایا ہے اور تُمہارے مستقبل کے لئے کتنا بچایا ہے ، اگر تُم علمِ خُدا شناسی کے اِس حلقے میں آوؑ گے تو تُم اُن سارے لوگوں سے مُمتاز ہو جاوؑ گے جو اللہ کے علمِ خیر و خبر سے بے خیر و خبر ہو کر اپنے جوہرِ خود شناسی سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ کہ جہالت کے جہنم میں جلنے والے اور علم کی جنت میں پلنے والے یہ دو طبقات کبھی بھی ایک برابر نہیں ہو سکتے ، اِن میں سے جو لوگ علم کی جنت میں جاتے اور رہتے ہیں وہ قُرآن کے اُس اٙزلی و اٙبدی نظام کے تابع ہوتے ہیں جس اٙزلی و اٙبدی نظام کو اگر ایک قلبِ کوہ پر نازل کردیا جاتا تو وہ بھی اِس اٙزلی و اٙبدی نظام کا مطیع ہو جاتا لیکن یہ عظیم قُرآن سارے جہان کی ساری مخلوق کو چھوڑ کر اُس خالقِ جہان نے انسان پر نازل کیا ہے جو خالقِ جہان اپنے اِس جہان کا تنہا مالک و مقتدر ہے ، جو اِس جہان کے ہر ایک مقامِ حاضر و غائب کا علم رکھتا ہے ، اُس کے اِس جہان کے اقتدار و اختیار میں اُس کا کوئی بھی ہٙمسر یا شریک نہیں ہے ، اُس کا وسیع علم و اقتدار اُس کے اِس وسیع جہان کے ہر پست و بالا اور ہر ادنٰی و اعلٰی پر ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے حاوی ہے ، اُس کی ذات ہر زوال سے دُور اور ہر کمال سے بٙھر پُور ہے ، جہان میں جس چیز کی جو تخلیق و تکمیل ہو رہی ہے وہ اُسی خالقِ عالٙم کے حُکم کی تعمیل و تکمیل ہو رہی ہے ، جہان میں جہان کی ہر چیز اُسی کی قُوت سے محفوظ ہوتی ہے اور اُسی کی قُدرت سے محفوظ رہتی ہے ، وہ اپنے اِس جہان کے ہر ذرے اور آفتاب پر غالب ہے اور اُس کے جہان کا ہر ذرہ و آفتاب اُسی غالبِ کار کے علم و حکمت سے حرکت و عمل میں مصروفٙ عمل رہتا ہے لیکن یہ اُس خالقِ جہان کی اٙنگنت صفات میں سے محض چند صفات ہیں جو انسانی فہم میں آسکتی اور سما سکتی ہیں اور اہلِ شرک نے اُس کی ذات و صفات کے ساتھ جن چیزوں کو شریکِ ذات و صفات بنایا ہے اُس کی ذات اُن ساری چیزوں سے ایک بلند تر ذات ہے ، زمین و آسمان میں جہاں جہاں اُس کی جو جو مخلوق حرکت و عمل کرتی رہی ہے ، جو جو مخلوق حرکت و عمل کر رہی ہے اور جو جو مخلوق حرکت و عمل کرے گی وہ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اُسی غالب کار و حکمت کار کے حُکم سے حرکت و عمل کرے گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورٙةُالحشر کی اِن آخری سات اٰیات میں سے پہلی اٰیت کا پہلا مضمون انسانی حیات کے اِس حُسنِ خیال سے عبارت ہے کہ انسانی حیات انسان کا وہ دائرہ سفر ہے جس دائرہِ سفر میں حیات کے وہ سارے لوازماتِ سفر بھی موجُود ہیں جن لوازماتِ سفر کا کُچھ حصہ انسان اپنی حیاتِ حال کے استعمال میں لا سکتا ہے اور کُچھ حصہ اپنی حیاتِ مُستقبل کے لئے بھی بچا سکتا ہے ، انسانی حیات میں اِن دو لوازماتِ حیات کی اِس تقسیم کی عملی صورت یہ ہوتی ہے کہ انسانی حیات کا جو لٙمحہِ حال انسانی حرکت و عمل کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اُس لٙمحہِ حال کے دوران انسان کی حرکت و عمل کے سارے امکانات و مُمکنات انسان کی دسترس میں ہوتے ہیں اور انسان اپنی حیات کے اُن سارے امکانات و مُمکنات کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور انسانی حیات کا لٙمحہِ مُستقبل وہاں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں پر انسان کا وہ پہلا لٙمحہِ حیات مُکمل ہو جاتا ہے جس لٙمحہِ حیات کے محاصلِ حیات کا ایک حصہ صرفِ حال اور ایک حصہ محفوظ بالمُستقبل ہو جاتا ہے ، انسانی حیات کے اِن دو اثاثوں میں انسان کی ضرورتِ جان اور ضرورتِ ایمان کے وہ دونوں اثاثے شامل ہوتے ہیں جو اُس کی حیاتِ دُنیا کے آخری اور اُس کی حیاتِ آخرت کے پہلے دن تک اُس کے کام میں آتے رہتے ہیں ، اِس مضمون کی دُوسری اٰیت کا دُوسرا مضمون یہ ہے کہ جو انسان اپنی جان اور اپنے ایمان کے اِن دونوں اثاثوں کو اپنی حیات میں شامل نہیں کرسکتا وہ فاطرِ عالٙم کے اُس نظامِ فطرت میں بھی شامل نہیں ہو سکتا جس نظامِ فطرت میں شامل ہونا انسان کی دینی و دُنیاوی ضرورت ہے اور اِس سلسلہِ کلام کی تیسری اٰیت کا تیسرا مضمون یہ ہے کہ جو مُستعد انسان اپنی اِس جان اور اپنے اِس ایمان کے اِن اثاثوں کے ساتھ جادہِ مُستقبل میں جاتے ہیں وہ قُدرت کے نادیدہ باغوں اور اُس کی نادیدہ بہاروں میں پُہنچ جاتے ہیں اور جو غیر مُستعد انسان جان و ایمان کے اِن اثاثوں کے بغیر جادہِ مُستقبل میں جاتے ہیں اُن کے اِس سفر کے دوران اُن کے پر بھی جٙھڑ جاتے ہیں اور اُن کے پیر بھی جل جاتے ہیں اور اِس مضمون کی چوتھی اٰیت کے چوتھے مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمان و مکان میں ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے پڑھا جانے والا قُرآن اور ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے پڑھایا جانے والا قُرآن قُدرت کا وہ قانونِ نازلہ ہے کہ اگر اِس قانُونِ نازلہ کو ایک کوہ و جبل کے قلب پر بھی نازل کر دیا جاتا تو وہ کوہ و جبل بھی اِس کی نافرمانی کے ہولناک نتائج سے ڈر کر اِس قانون کا مطیع ہوجاتا لیکن خالقِ عالٙم نے اِس قُرآن کو انسان کے دل پر اِس لئے نازل کیا ہے کہ انسان کا دل تمام کوہ و جبال سے زیادہ قوی ہے اور یہ قُرآن اِس انسان کے قلب پر اِس مقصد کے لئے نازل کیا گیا ہے کہ انسان اِس قانونِ نازلہ کے مطابق زندگی گزار کر اپنے خالق کے اُس اٙعلٰی انعام و اکرام کا مُستحق ہو جائے جس اٙعلٰی انعام و اکرام کا وہ طلب گار ہے اور اِس سُورت کے اِس سلسلہِ کلام کی آخری تین اٰیات کے آخری مضمون میں قُرآن نے اُس خالقِ عالٙم کی 14 ذاتی صفات کو اُجاگر کیا ہے جس خالقِ عالٙم نے انسانی نوع کے ایک فردِ عظیم کے قلبِ عظیم پر انسانی نوع کی ہدایت و رہنمائی کے لئے یہ قُرآنِ عظیم نازل کیا ہے اور خالق کی اِن صفاتِ عالیہ کو بیان کرنے کا پہلا مقصد انسان کو یہ باور کرانا ہے کہ انسان اِس عالٙم کے جس غنی کا انسان فقیر ہے یہ سارا جہان اُسی ایک غنی کا فقیر ہے اور اِس جہان میں وہی انسان عبدالغنی ہے جو اُس ایک غنی کا فقیر ہے اور خالقِ جہان کی اِن اٙعلٰی صفات کو بیان کرنے کا دُوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان اُس رحمٰن کی اِن اٙعلٰی رحمانی صفات سے مُتصف ہو کر اُس کی اُس خلاقی میں اپنا وہ تخلیقی کردار ادا کرسکے جس خلاقی میں جو کردار ادا کرنے کے لئے خالق نے اُس کو تخلیق کیا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558072 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More