عدالت کے ترازو میں اصلی اور نقلی شیوسینا

مہاراشٹر ہندوستان کی سب سے ترقی یافتہ ریاست ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی کاوجود ہے۔ اس کے باوجود گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے خیال میں عروس البلاد کا یہ درجہ یہاں موجود گجراتی اور مارواڈی لوگوں کی بدولت ہے۔ ان کے مطابق اگر وہ لوگ چلے جائیں تو ساری دولت چلی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ لوگ جاتے کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اپنا علاقہ اور صوبہ تو ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے۔ مودی جی نے اپنے دورِ اقتدار میں دنیا کے سارے رہنماوں کو احمدآباد کی سیر کرائی لیکن ممبئی کی اہمیت کو کم نہیں کرسکے ۔ گوتم اڈانی اور مکیش امبانی دونوں گجراتی ہیں لیکن ممبئی میں بیٹھ کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں ۔ برلا اور سنگھانیا راجستھان سے ممبئی آئے اور یہیں کے ہورہے۔ بھگت سنگھ کوشیاری خود بھی ہماچل پردیش کی سیاست سے راندۂ درگاہ ٹھہرے تو ان کی مہاراشٹر میں بازآباد کاری کی گئی۔ یہاں کا نمک کھا کر اس سے نمک حرامی کرنے کی جرأت عزت مآب گورنر نے کی اس کے باوجود ان کو بھگایا نہیں گیا یہ ممبئی کی کشادگی ہے۔ شر پوا رجیسے رہنما نے اس معاملے صرف اس جملے پر اکتفاء کیا کہ ’’ان کی ٹوپی اور دل کا(سیاہ) رنگ یکساں ہے‘‘ جبکہ ادھو ٹھاکرے انہیں کولہاپوری چپل دکھانے کی بات کی لیکن اس سے کالی ٹوپی والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مہاراشٹر کے اقتدار کی جنگ اب گورنر ہاوس سے نکل کر سپریم کورٹ میں پہنچ گئی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کا موڈ فی الحال شندے گروپ اور بی جے پی کے حق میں سازگارنظر نہیں آتا۔ حالیہ سماعت کا مقصد شیوسینا میں پھوٹ، نئی حکومت کی تشکیل، پارٹی پر دعویٰ کو لے کرآئینی بینچ کی سماعت کے لیے قانونی مسائل کو طے کرنا تھا لیکن چونکہ دونوں فریق اس بابت کنفیوژ تھے اس لیے کوئی بات نہیں بنی ۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے جب فریقین سے کیس سے متعلق قانونی سوالات کا ایک مجموعہ دریافت کیا تو مہاراشٹر کے گورنر کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا اسے پیش نہیں کرسکے ۔ ادھو گروپ کے وکیل کپل سبل کی دلیل یہ تھی کہ اگر دو تہائی ایم ایل اے الگ ہونا چاہتے ہیں تو انہیں کسی کے ساتھ الحاق کرنا ہوگا یا نئی پارٹی بنانا ہوگی۔ چیف جسٹس نے جب وضاحت طلب کی کہ کیا انہیں بی جے پی میں ضم ہونا چاہیے تھا یا الگ پارٹی بنانی چاہیے تھی، تب سبل نے کہا کہ یہ عمل قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔سبل نے یہ بھی کہا کہ باغی ایم ایل ایز کو پارٹی میٹنگ میں بلایا گیا تو وہ نہیں آئے۔ انہوں نے چونکہ ڈپٹی سپیکر کو خط لکھاکر اپنا وہپ بھی مقررکر دیا ہے اس لیے وہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں وہ اصل پارٹی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔

کپل سبل کے مطابق شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے ہیں اوراگر اس طرح دل بدلی قانون کی خلاف ورزی ہونے لگے تو ارکان اسمبلی کی اکثریت غیر منصفانہ طور پر حکومت گرا کر اقتدار کے ذریعہ پارٹی پر دعویٰ کرتی رہے گی۔شندے گروپ کے وکیل ہریش سالوے نےجب کہا کہ جس لیڈر کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا؟ اندرونی تقسیم کے بعد دوسرے دھڑے کے اجلاس میں نہ آنا نااہلی نہیں ہے؟ اس منطق پر چیف جسٹس کے تبصرے نے ان کا ارادہ ظاہر کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح پارٹی کا کوئی مطلب نہیں رہے گا۔ منتخب ہونے کے بعد کوئی بھی ایم ایل اے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ سالوے کی دلیل تھی کہ ایک لیڈر کو مکمل پارٹی نہیں ہے ۔ ان کے مؤکل ابھی تک پارٹی میں ہیں۔انہوں نے پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ لیڈر کے خلاف آواز اٹھائی ہےاور انہیں کسی نے نااہل قرار نہیں دیا۔اس پر چیف جسٹس نےسوال کیا کہ آپ الیکشن کمیشن کیوں گئے ہیں؟ اس طرح سالوے پھنس گئے اور بولے وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ نے حالات بدل دیئے ۔ بی ایم سی کے انتخابات سے قبل یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ پارٹی کے انتخابی نشان کون سا گروہ استعمال کرے گا۔

سالوے نے جب سبل کی ساری باتوں کو بے معنی قرار دے دیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ دونوں میں سے پہلے سپریم کورٹ میں کون آیا تھا؟ اس پر سالوے نے اعتراف کیا کہ و ہ آئے تھے کیونکہ ڈپٹی اسپیکر نے نااہلی کا نوٹس بھیجا تھا لیکن خود انہیں ہٹانے کی کارروائی زیر التوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے وہ بات کہہ دی جو ڈیڑھ متوالوں کی سرکار کے لیے سوہانِ جان بن گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کر دی تو اس دوران آپ نے حکومت بنا لی۔ اسپیکربدل گئے۔ اب آپ کہہ رہے ہیں، سب کچھ بے معنی ہے۔ چیف جسٹس کے اس استفسار نے سالوے کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیاکہ وہ ان باتوں پر غور کرنے سے منع نہیں کررہے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے فرمایا کہ وہ تمام معاملات کو اگلے دن صبح سنیں گے نیز شندے کیمپ کے دوسرے وکیل نیرج کشن کول کو یاد دلایا کہ آپ سب سے پہلے سپریم کورٹ آئے تھے ۔

پہلے دن کی اس جرح سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سی جے رمنا شندے گروپ کے دلائل سے ناراض ہیں کیونکہ ادھو گروپ کے دلائل خاصے قوی ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کی جانب سے سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ شیوسینا کے رائے دہندگان کا این سی پی اور کانگریس کے اتحاد سے ناراضی کا بیانیہ جھوٹ ہےکیونکہ شندے ڈھائی سال تک حکومت میں وزیر رہے اور کبھی اعتراض نہیں کیااگر ایسا ہوتا تو انہیں کابینہ میں شامل نہیں کیا جاتا۔ادھو ٹھاکرے کے دھڑے نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کو جب تک شندے دھڑے کے ایم ایل ایز کی نااہلی کا فیصلہ نہیں ہو جاتااس وقت تک یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ اصل شیوسینا کون سی ہے؟ یہ مطالبہ اس لیے اہم ہے کہ الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں کو 8؍ اگست تک دستاویزات جمع کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس کے بعد شندے اور فردنویس نے حکومت سازی کی تیاری شروع کردی لیکن دورانِ سماعت عدالت عظمیٰ نے ادھو ٹھاکرے کو راحت دے کر ان کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہہ دیا کہ وہ شندے دھڑے کی درخواست پر فی الحال کوئی فیصلہ نہ کرے۔

اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہونے والی قانونی چارہ جوئی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ پہلے تو سی جے آئی نے کپل سبل سے پوچھا کہ یہ سیاسی پارٹی کی منظوری کا معاملہ ہے، ہم اس میں مداخلت کیسے کر سکتے ہیں؟ اس معاملہ پر فیصلہ تو الیکشن کمیشن کو ہی کرنا ہے۔ اس پر کپل سبل کا جواب تھا کہ بفرِ ض محال کمیشن اس معاملے میں کوئی فیصلہ سنا دیتا ہے اور اس کے بعد سپریم کورٹ نااہلی کا فیصلہ دیتی ہےتوپھر کیا ہوگا؟ اس لیے نااہلی کا فیصلہ پہلے آنا چاہیے۔ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کی دلیل تھی کہ اگر کوئی فریق ایسے معاملات میں کمیشن کے سامنےلاتا ہے تو اصل فریق کا فیصلہ کرنا اس کا فرض ہے؟ اس لیے دستاویزات طلب کئے گئے ہیں اور یہ عمل بالکل مختلف ہے۔کمیشن کی حمایت میں ہریش سالوے نے کہا کہ اگر سب نااہل ہو جائیں اور الیکشن آ جائیں تو وہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ہم ہی اصل پارٹی ہیں؟ ان سارے دلائل کے باوجود سی جے آئی نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی کارروائی اس وقت تک ملتوی کر سکتا ہے جب تک عدالت فیصلہ نہیں دیتی؟ اور یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کو ابھی اس معاملے میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے لیکن تمام فریق حلف نامہ داخل کر سکتے ہیں۔ عدالت 8؍ اگست کو یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کو سماعت کے لیے 5 ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیجنا ہے یا نہیں؟

آخری سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر کی یہ درگت کیوں ہوئی کہ اس پر بھگت سنگھ کوشیاری جیسا گورنر مسلط ہوگیا اور یہاں ڈیڑھ ماہ سے ’’ڈیڑھ متوالوں ‘‘ کی صوبائی حکومت کو برداشت کرنے کی نوبت آگئی ؟ اس کی وجہ نادانستہ طور پر شیوسینا کے ترجمان سامنا نے شائع کردی۔ پچھلے دنوں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے یہ پیشنگوئی کردی کہ ان کی پارٹی کے سوا سب جماعتیں ختم ہوجائیں گی ۔ اس پر سامنا نے لکھا کہ کوے کی بددعا سے گائے نہیں مرتی اسی طرح بی جے پی شراپ سے صوبائی پارٹیاں نہیں مریں گی ۔ سامنا نے اپنے اداریہ میں یاد دلایا کہ گجرات فساد کے بعد جب سارے لوگوں نے موجودہ وزیر اعظم مودی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور خود ان کی پارٹی کے لوگ ’راج دھرم ‘ کی تلقین کررہے تھے تو صرف بالا صاحب ٹھاکرے نے ہندوتوا کی خاطر مودی کی حمایت کی تھی۔ کاش کہ ایسا نہیں کیا گیا ہوتا تو آج شیوسینا کے ہندوتوا کو جعلی ٹھہرا کر شندے کی حمایت نہیں کی جاتی ۔ مہاراشٹر کی درگت میں راج دھرم کے بجائے ہندوتوا کے پالن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔ آستین کے جس سانپ کو کل ہندوتوا کا دودھ پلاکر توانا کیا گیا تھا اور آج وہ اپنے محسن کو ڈس رہا ہے۔ آزمائش کی نازک گھڑی میں ادھو ٹھاکرے کے لیےبیس سال پرانے واقعہ میں عبرت و نصیحت کا سامان ہے لیکن افسوس کہ سیاست کی دنیا میں لوگ باگ سبق سیکھنے کے بجائے سبق سکھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن جو ایسا نہیں کرتے ان کے لیے یہ(ترمیم شدہ) خوشخبری ہے؎
یہ سیاست کا فسانہ بھی بدل جائے گا
وقت کے ساتھ زمانہ بھی بدل جائے گا




 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227796 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.