اللہ تعالی کے آخری رسول حضرت محمدؐ کو تبلیغ اسلام کی
پاداش میں مشکلات ، تکالیف اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مکہ میں جان
لیوا مظالم ، جانثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور حبشہ کی جانب ہجرت ، شعب ابی
طالب کا تین سالہ محاصرہ ، قریشیوں کے ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یہاں
تک جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے سے نہ رکے تو آپ نے مکہ سے باہر کی طرف
نظر دوڑائی اور طائف کی طرف سفر کا ارارہ فرمایا۔ بعثت نبوی کا 10 واں سال
شوال المکرم کا مہینہ تھا آپ ﷺ فریضہ تبلیغ کے لیے یہاں پہنچے اور ہمراہ
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ، دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص
کے سامنے دین اسلام پیش کیا لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا۔ آخر کار آپ
صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے سرداروں عبدیالیل ، مسعود اور حبیب کے پاس
تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان
بدقسمتوں کی بدنصیبی کہ انہوں نے آپ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت
گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ کا مذاق اڑایا ، ایک نے طنز کا نشتر چبھوتے
ہوئے کہا: اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی
عزت پامال کر رہا ہے۔ دوسرے نے پھبتی کستے ہوئے کہا :اللہ کو تیرے علاوہ
اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔ تیسرے نے آوازہ کستے ہوئے
کہا: اللہ کی قسم !میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا اگر تو واقعی اللہ کا رسول
ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور
اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے
بات کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں
اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔ (القرآن)
۔۔۔۔۔
ہوا کے دوش پر لہراتی ہوئی گندم کی ڈالی پر دانے کی صورت میرا جھولتا ہوا
وجود ابھی زندگی کا خوبصورت احساس لیے زندہ تھا۔ یہ خوبصورتی محبت کے نام
پر بننے والے اس اعتبار کی تھی جو ایک روز مجھے زندگی کے احساس سے الگ کر
کے زمین کی گہرائیوں کے سپرد کر گئی۔ میں بے یقینی کی کیفیت میں یہ سمجھنے
سے قاصر تھا کہ ان ہاتھوں نے مجھے کیوں دفنا دیا جو میرے اعتماد کا محور
تھے ؟۔ کیوں زندگی کے ان رنگوں سے مجھے محروم کر دیا گیا کہ جن پر میرا حق
ابھی باقی تھا ؟ یہ زندگی تھی یا سزا ؟ میرا جرم کیا تھا؟ چاروں اطراف کی
خاموش گہری سیاہی، وہ تنہائی کی وحشت، مایوسی، فکر، بےاعتباری، اور اضطراب
کے ٹکڑوں میں بٹا ہوا میرا وجود۔ رب سے گلہ کرتا، لڑتا ہوا میرا وہ دل جسکی
سزا میرا امتحان بن کے میرے ہی سامنے آ کھڑی ہوئی اور اس امتحان پر "نہ نہ"
کہتا زندگی کا یہ حصہ "بے یقینی اور دکھ" کہلایا
۔۔۔
کفار اسلام کی آپﷺ سے اس دلخراش مکالمے کے بعد ان بد نصیبوں نے طائف کے
اوباشوں اور آوارہ گردوں کوآپ کے پیچھا لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا ، کوئی
سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا ، کوئی ہلڑ بازی کرتا ، شور اور اودھم مچاتے
ہوئے آپ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے۔ یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر
ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے اور اس شدت سے پتھر مارنا شروع کیے کہ سر مبارک سے
لے کر پائوں مبارک بلکہ نعلین مبارک تک آپﷺ لہولہان ہو گئے ، گہرے زخم اور
بہتا ہوا اتنا خون کہ نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے۔
حضرت زید بن حارثہ آپﷺ کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے کبھی دائیں بائیں
اورکبھی پیچھے۔ ان کا بھی سر لہولہان ہو گیا۔ پتھروں کے برستی بارش میں
کبھی آپﷺ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو
دوبارہ کھڑا کر دیتے ، چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپﷺ کی
بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پھر پتھر برساتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو صبر کرو ، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔
(القرآن)
۔۔۔۔۔
ایک کمزور اور معمولی بیج کا وجود لیے، اسکے شب و روز یونہی گزرتے رہے۔
چاروں طرف آواز تھی تو بس ایک شکایت کی کہ وقت کی روانی میں بخت کی یہ کیسی
گرانی ہے جو ہر دن ماضی کی یاد اپنے سابھ لاتی ہے اور شام اپنے پہلو میں
جینے کے وہ خواب سجا کر آنے لگتی کہ چاہنے کے باوجود ان پر اعتماد نہیں کر
پاتا۔ وہ تھک گیا تھا اور ہار کر اس مٹی میں گم ہو جانے کی چاہ سکون کا
واحد راستہ محسوس ہوتا۔ مگر یہ دل بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، صاف دکھتے ہوئے پت
جھڑ میں بھی بہاروں کو ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ وہ اس قید میں سنائی دینے والی ہر
آہٹ، ہر آواز پر یوں چونکتا کہ دل بےاختیار ہو کر اس آواز کو اپنے پاس
بلانے کی تمنا میں جت جاتا۔ بعض دفعہ ایک ہمدرد آواز دنیا کی ہر راحت سے
زیادہ اہم اس لیے ہو جاتی ہے کہ وہ وجود کے ہر گھاؤ کو سی دینے کی واحد
امید ہوتی ہے۔ وہ بس اسی ایک آواز کی ضرورت میں تھا۔ "وہ تنہائی، وہ
اندھیرے وقت کے ساتھ اسکے اپنے اس لیے بنتے گئے کہ ان کے سامنے وہ موم بن
کے پگل جاتا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا"۔ برداشت ختم ہونے لگی تھی۔ اور
زندگی کا یہ باب "تسلیم" کہلائی۔ ایک ایسی تسلیم کہ اس دنیا کے ہرہر وجود
کی حقیقت ایک زرے کے برابر بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔
جب طائف والوں کی طرف سے دی گئ تکلیف حد سے بڑھ گئی تو آپﷺ بے ہوش ہو کر
زمین پر گر پڑے۔ حضرت زید بن حارثہ نے آپ کو اٹھایا ، قریب ہی کچھ پانی
تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھوئیں ، کچھ دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی
تو قریب میں ایک باغ تھا اور انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے آپﷺ تھوڑی دیر
لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں عابد حق پرست بن کر مناجات و دعا میں
مشغول ہو گئے۔ آپ کے سوز و گداز ، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس سے نالہ
فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپ
نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی:
’’ " اے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں ، یہ مجھے رسوا
کرنا چاہتے ہیں اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں ، اے سارے مہربانوں سے
زیادہ مہربان۔۔ اے میرے پرودگار!آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں جو مجھ سے
دور ہیں جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض
نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں
خداوندا!تیرا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے۔۔ اے اللہ میں پناہ مانگتا
ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو ، تجھ ہی کو منانا ہے
اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے"
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ اور اگر تم مومن ہو (تو) تم ہی غالب رہو
گے. (القرآن)
۔۔۔۔۔
دفن کیا گیا اسکا تھکا ہوا وجود اب فیصلہ کرنے کے مقام پر تھا۔ اسکے سامنے
دو ہی راستے تھے ایک موت اور دوسریصبر کی قبا اوڑھے نئی زندگی کی امید۔ تھک
ہار کر اب اس نے رب کو پہلی بار سچے دل سے پکارا تو مایوسی کے ان اندھیروں
کو چیرتی ہوئی ایک آواز کانوں سے ٹکرائی "اپنی تکیف کو رب کی رضا سمجھ کر
تسلیم کر کے دیکھو اور مانگو مدد"۔ آج پہلی بار رب کے ساتھ کا وہ احساس اسے
اتنا پرسکون کر گیا کہ اس اندھیرے میں بھی بہت کچھ دکھائی دینے لگا۔ اس نے
دیکھا کہ اسکی تکلیف کے مقام پر اس سے پہلے کچھ اور وجود بھی تھے اور وہ
تھے اسکی طرح دفن کیے گئے کنکر، ریت، پتھر اور جا بجا بھکرے ہوئے مختلف
بیج۔ فرق تھا تو شاید یہ کہ مایوسی میں کسی نے وجود کو مٹا کر سکون پایا تو
کسی نے زات کے وجود سے رابطہ رکھ کے سکون پایا ۔ وہ تو سب کا رب ہے پھر
کیسے ممکن ہو کہ وہ اپنی مخلوق کے لیے کسی ایسی چیز کا انتخاب کرے جو اسکے
حق میں بہتر نہ ہو؟۔ وہ جان گیا تھا کہ پائے کوباں کے اس زنداں میں وہ نیا
ضرور تھا مگر پہلا نہیں تھا۔ اور زندگی کا یہ باب تسلیم کے راستے سے ہوتا
ہوا "ہمت اور امید" کے رخ مڑ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دءا کے بعد آپﷺ اس باغ سے اٹھے ، قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی ، اوپر نظر
اٹھائی بادل نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا ، بادل پر نظر جمائی تو اس میں
جبرائیل امین جلوہ افروز تھے اور عرض کی : یارسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے سن
لیا ، دیکھ لیا آپ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ
اور سن لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال(پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ )
موجود ہیں آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔ ملک الجبال نے عرض کی : مجھے
اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپ حکم
دیں مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو
پیس ڈالوں ؟
آپ ﷺ آزمائش کے دوہرائے پر کھڑے تھے ۔ پہلا امتحان تھا صبر وضبط اور
استقلال کا دوسرا امتحان تھا دعویٰ رحم و کرم کا اور وسعت ظرفی کا۔ اللہ
کریم نے آپ کو دونوں میں کامیاب فرمایا ،دریا دلی والے دل رحمت میں کرم کی
ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا ، فرشتوں کو
جواب دیا۔ اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی
نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں ، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ
ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے
قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہــہ دو میــرے ان بنــدوں سے۔جنہیــں حالات ناممکــن لگ رہــے ہیں۔ میں
ہـــر شے پہ قدرتـــ رکھنــے والا ہوں۔
(القرآن )
۔۔۔۔۔۔۔
میرے۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے کیا تھا میں بھلانا چاہتا تھا۔ میرے آگے کیا ہو گا میرے
لیے ڈھونڈنا اور اس پر دوبارہ سے یقین کرنا مشکل تھا۔ وجود کی حیثیت سے بس
ایک کام جو میں کر سکتا تھا اور وہ تھا خدا کے بعد اپنی زات پر یقین۔ اس
بات کا یقین کہ اس سفر میں کچھ نا کچھ میرے لیے ضرور ہو گا۔ یہ سب سے مشکل
مرحلہ اس لیے تھا کہ دل گواہی تو دے رہا تھا مگر میں تھک گیا تھا۔ خالی
امید ہی نئی زندگی کا ضامن نہیں بن سکتی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بہترین
دنوں کے لیے برے دنوں سے لڑنا ہوگا۔ میری رات نے نئے سورج کی تلاش کا عزم
کیا۔ ہر آگ سے واقف ہونے کے لیے میں نے جلنا سیکھ لینے کا ارادہ کیا۔ رونق
بزم کو لوٹنا ہو گا۔ اگر میری یہ مشکل خدا کی مرضی ہے تو پھر اسی کی مدد سے
میرے ہنر کو بولنا ہو گا۔ اس پیکرء خاکی میں جاں پیدا کرنی ہو گی۔ میں نے
چلنا شروع کیا تو یقین ہوا کہ "منزل اونچی ضرور تھی مگر راستہ میرے پیروں
کے نیچے تھا"۔ میرے پاس اب کھونے کو کچھ بچا ہی نہ تھا اور اسی تسلیم نے
مجھے انتہائی طاقتور بنا دیا۔ باہر نکلنے کی ہر کوشش میرے وجود کو زخمی
کرنے لگی۔ ہر گھاؤ پر میں سوچنے لگتا کہ رب کی یہ کیسی محبت ہے جو دل کے
بعد وجود کو زخمی کیے ہوئے ہے۔ دل سے درد نکتا تو ساتھ ہی دعا ۔ جسکا اثر
یہ نکلا کہ ایک روز رحمت خداوندی نے ایسا جوش مارا کہ ٹوٹ کے بارش برسی۔
پھر میں نے وہ بھی دیکھا کہ میری راہ کی ہر رکاوٹ اور سخت مٹی یوں نرم پڑی
کہ وہی رکاوٹیں میرے آگے بڑھنے کا وسیلہ بن گئی۔۔
وہ برسات میرے وجود کے زخموں سے ایک ننھے پودے کا وجود ظاہر کرنے لگی۔ بیج
کی آنکھ سے دکھنے والی ہر رکاوٹ اب پودے کی طاقت اور حوصلے کی بدولت آگے
بڑھنے کا وسیلہ بن گئی۔ مٹی مزید نرم پڑنے لگی۔ اندھیرا مدھم ہونے لگا اور
بلآخر ایک روز میرا وجود ایک پودے کی صورت میں آسمان سے آتی ہوئی روشنی کی
کرنیں دیکھنے لگا۔ "زندگی صدیوں، سالوں یا دنوں میں نہیں بدلتی۔ زندگی ایک
لمحے میں بدل جاتی ہے کہ جب آپ زندگی بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں"۔ مجھے ماننا
پڑا کہ یہ آزمائش اذیت دینےکے لیے نہیں تھی بلکہ وہ سکھانے اور نوازنے کے
لیے تھی جس کے لیے دفن ہونا ضروری تھا۔ آج ایک مضبوط درخت کی صورت میں تیز
ہواؤں اور موسموں کی سختیوں کی فکر سے آزاد ، بے سبب یہ دل اس لیے جھومنے
لگتا ہے کہ جس نے اندھیرے میں سنبھالا تھا وہ آج بھی موسموں کی سختیوں میں
سنبھال لے گا۔ فکر وہاں ختم ہوتی ہے جہاں ہر چیز خوشی سے اللہ کے ہاتھ میں
تھما دی جاتی ہے ۔ ہاتھوں کی قید مجھے دفن کے اندھیروں تک لے گئے۔ اور وہی
اندھیرے میرے وجود کو اللہ کی خالص محبت کی مٹھی میں بند کروا گئ۔ یہ مشکل
ہی میری بہترین تکمیل بنی اور دفنانے والے سمجھے میں گم ہو گیا ہوں۔
|