پاکستان 14 آگسٹ 1947 کو وجود میں آیا ۔ پاکستان کے وجود کا مقصد آزادی
تھا،آزادی ظلم سے،زیادتی سے ،نا انصافی سے جبر سے اور فسطائیت سے اور مقصد
تھا ایک اسلامی ریاست کا قیام۔اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں
نے اپنا لہو بہایا،اپنی جان،مال اور گھر لٹائے،مائوں نے اپنے شیر خوار و
نومولود بچے قربان کیے ،ہمارے بڑوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ہزاروں عالم اور
طالب، نظربند،قید اور شہید ہوئے۔مقصد کیا تھا ؟ آزادی اور لاالہ الا اللہ
کی سربلندی۔
آخر شہیدوں کا خون رنگ لایا اور ہمیں آزادی مل گئی۔کیا ہم نے پروردگار سے
جو وعدہ کیا تھا ظلم و زیادتی کو مٹانے کا اور لا الہ الا اللہ کی سربلندی
وہ پورا کیا؟ جی نہیں۔ہم نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا اس لیے تو 75 سال سے ملک
میں انتشار و انارکی کا سلسلہ بند نہ ہوسکا۔
ہم 75 سالوں سے ناشکری کے ناسور بیماری میں مبتلا ہیں۔آج بھی ہم نے صرف 14
آگسٹ کو ہری جھنڈیاں لگانے کو آزادی سمجھ رکھا ہے ہمارا یہ خیال ہے ہری
جھنڈیاں سجانا،نغمے گانا ،چند تقریبات کرنا اور رقص کرنا یہ مقصد ہے میرے
وطن کے وجود کا۔جان کی امان پاوں تو عرض کروں میرے دیس کے آزادی کا مقصد ہر
گز یہ نہیں۔ وطن کی آزادی کا مقصد مظلوم کو انصاف کی فراہمی ہے۔ میرے وطن
کا مقصد حاکم، سپاہ سالار ،قاضی اور عام شہری میں برابری کرنا ہے اور قانون
میں یکساں نظر سے دیکھنا ہے۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو رہا ہے کن کے لیے
عدالتیں رات و رات کھلتیں ہیں اور کن کے لیے سالہا سال بند رہتی ہیں۔حق تو
یہ ہے کہ سب کو فوری انصاف ملے۔ ملک سے سود اور رشوت اور ہر غیر شرعی اقدام
خاتمہ ہو۔
ہمیں آزادی تو ملی ہے لیکن کون سی؟
ہمیں یہ آزادی ملی ہے کہ اپنے سے کمتر کا مال لوٹو اور خوب لوٹو۔ ہمیں
آزادی ملی ہے اپنے کمتر کو ستاو اور خوب ستاو۔ ہمیں آزادی ملی ہے مخالفین
کی کردار کشی کرنے کی۔ہمیں آزادی ملی ہے ایک دوسرے کو گستاخ گستاخ اور کافر
کافر کہنے کی۔ ہمیں آزادی ملی ہے کسی غیر کے بیٹی پر تیزاب پھینکنے کی۔ہمیں
آزادی ملی ہے کسی غیر کی بیٹی کو اٹھانے کی۔ ہمیں آزادی ملی ہے معصوم زینب
سے زیادتی کر کے فرار ہونے کی۔ہمیں آزادی ملی ہے کسی غریب کے گھر پر قبضہ
کرنے کی۔ ہمیں آزادی ملی ہے قبضے کے لیے مسجد اور امام بارگاہ لگانے کی۔
ہمیں آزادی ملی ہے دہاڑی دار سے رشوت لینے کی۔ کیا کیا لکھوں ہمیں ایسی
آزاد ملی ہے جو نہیں ملنی چاہیے تھی اور ہمیں جو حقیقی آزادی ملنی چاہیے
تھی وہ تو ملی ہی نہیں وہ تو ہم نے دیکھی ہی نہیں وہ تو ہم نے سنی نہیں وہ
تو اقبال و جناح کے بعد ہم نے تصور ہی نہیں کی۔
ہمیں چاہیے کہ ابھی بھی وقت گیا نہیں اپنے وطن کے وجود کے نظریے اور مقصد
کو سمجھیں اور اللہ کا شکر کریں ۔ ہم اس آزادی کو اللہ تعالی کی نعمت
سمجھیں اپنی آزادی کو دوسرے ہم وطنوں کی بربادی کا سبب نہ بنائیں۔ یوم آخرت
سے ڈریں ہمیں ابھی مرنے کے بعد بھی زندہ ہونا ہے اور پروردگار کو نماز
،روزے اور حج کی طرح آزادی کا بھی حساب دینا ہے۔
|