ہمارا آج ان کے کل سے مختلف نہیں۔۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان بدقسمتی سے چند چیزیں بالکل ایک جیسی ہیں

image
 
پاکستان کے موجودہ حالات سے کون واقف نہیں ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے بزنس کو پاکستان میں بند کر چکی ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عوام پریشان ہے کہ کل کیا ہوگا ، تو کیا دنیا کے دوسرے ممالک بھی اس غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں؟ آئیے سری لنکا کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اور ہمیں بدترین حالات سے بچنے کے لئے من حیث القوم کیا کرنا چاہیئے۔
 
 سری لنکن عوام کی نظر میں ان کے ملک کی معاشی اور سیاسی سورتحال کی بین الاقوامی میڈیا کوریج ان کا اپنا جنازہ دکھائے جانے کے مترادف ہے ہر کوئی یہ قیاس کر رہا ہے کہ ان کی موت کیسے ہوئی۔ کچھ اس طرح کی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ چین پر الزام ہے کہ وہ سری لنکا کو قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔ بین الاقوامی تجزیے کے مطابق ماحولیاتی، سماجی اور کارپوریٹ گورننس کے پروگراموں نے سری لنکا کو مار ڈالا۔ ہر کوئی راجا پاکسا، بدعنوان سیاسی خاندان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے جس نے سری لنکا پر حکمرانی کی۔
 
درحقیقت حالات کے پس منظر پر غور کیا جائے تو الزام مغربی تسلط والے نو لبرل نظام پر جاتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو قرضوں سے بھری نوآبادیات کی شکل میں رکھتا ہے۔ یہ نظام بحران کا شکار ہے اس کی متزلزل بنیادیں یوکرائن کی جنگ کے زریعے بے نقاب ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں خوراک اور ایندھن کی قلت، وبائی بیماری اور دنیا بھر میں دیوالیہ پن اور بھوک کی لہر دوڑ رہی ہے۔
 
سری لنکا کبھی ایک ابھرتی ہوئی معاشی امید تھا جہاں ایک تعلیم یافتہ آبادی اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ اوسط آمدنی تھی۔ لیکن اب یہ سب ایک وہم کی طرح لگتا ہے۔ 450 سال کی کولونائزیشن، 40 سال کی نو لبرل ازم اور سیاست دانوں کی مکمل ناکامی کے بعد سری لنکا اور اس کے عوام بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔۔ بین الاقوامی قرضوں تلے دبنا صرف سری لنکا کا ہی درد نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس ناکام نظام کی لپیٹ میں ہے ۔
 
image
 
سری لنکا میں گیس ختم ہوچکی ہے اور جن افراد کے پاس گاڑی تھی وہ اسے ذخیرہ اندوزی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بچے گاڑی کے اندر کھیل رہے ہوتے ہیں۔ گاڑی رکھنے والے اب سائیکل پر آگئے ہیں۔ معیشت نے حرکت کرنا بالکل بند کر دیا ہے۔ روپے کی قدر روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے بجلی کی کٹوتی شروع ہوئی تو بجلی کی کمی کی وجہ سے لوگ بلیک آؤٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ فیکٹریاں اور دیگر کام کی جگہیں بند ہو گئیں ہے۔ چاول، سبزیاں، مچھلی اور چکن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بہت سے لوگ سری لنکا میں دن کے ایک کھانے پر اکتفا کر رہے ہیں۔
 
پھر حالات کچھ بدلے اور ناراض سری لنکن لوگوں نے ان سب زیادتیوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔اس کسمپرسی کے حالات کے خلاف پہلا بڑا احتجاج مارچ میں شروع ہوالوگ شدید غم وغصے میں تھے۔ مظاہرین صدارتی رہائش گاہ اور وزیراعظم کے دفتر گھس گئے ۔ ہزاروں عام سری لنکن ان قلعوں کے اندر داخل ہوئے جس کے آس پاس وہ کبھی پھٹک بھی نہیں سکتے تھے۔ عجب سماں تھا والدین اپنے بچوں کو ایوان صدر لے گئے لوگ گارہے تھے ناچ رہے تھے، سوئمنگ پول میں تیر رہے تھے۔ صدارتی کچن لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ ایک فارم ہاؤس کا نقشہ تھا اور سری لنکن عوام ایک خاندان کی طرح وہاں مزے کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی جگہ کا خوبصورت نظارہ تھا جہاں اشرافیہ تھوڑی دیر پہلے مسلح محافظوں سے گھرے ہوئے تھے۔ یہ سب ایک خوبصورت نظارہ پیش کر رہا تھا۔لیکن یہ حقیقی جمہوریت کی ایک مختصر کلپ تھی۔
 
سری لنکا بنیادی کولونائزیشن کی ایک زندہ مثال ہے جہاں بظاہر تو مقامی اشرافیہ کا قبضہ ہے لیکن درحقیقت معاشی کنٹرول بیرون ملک ہے۔ I.M.F. نے ہمیشہ سخت شرائط کے ساتھ سری لنکا کو قرض دیا ،جس کے نتیجے میں ملک قرضوں اور سود کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔اور جتنا مغرب چین پر شکاری قرضے کا الزام لگاتا ہے، سری لنکا پر غیر ملکی قرضوں کا صرف 10 سے 20 فیصد چین کو واجب الادا ہے نوے فیصد یہ ملک امریکی اور یورپی مالیاتی اداروں یا جاپان جیسے مغربی اتحادیوں کا مقروض ہے جو آج بالآخر اسے تباہی کے دہانے پر لے آیا۔
 
اب دوسرے قرض میں ڈوبے ممالک کو بھی اسی خطرے کا سامنا ہے۔ تقریباً 60 فیصد کم آمدنی والے ممالک اور 30 فیصد متوسط آمدنی والے ممالک قرض کی پریشانی میں ہیں یا اس کے خطرے میں ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، تیونس، گھانا، جنوبی افریقہ، برازیل، ارجنٹائن، سوڈان - مصیبت میں مبتلا ممالک کی فہرست تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
 
image
 
جب پروڈیوس کرنے والے ممالک تباہی کا شکار ہوگئے ہیں تو لامحالہ اب بڑی معیشتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یورپ کو توانائی کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، امریکی اپنے پٹرول ٹینک بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور برطانوی شاہی خاندان کو اپنی پرتعیش زندگی خطرے میں پڑتی محسوس ہورہی ہے۔
 
حالات مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں جیسے جیسے معیشتیں تباہ ہوں گی مغربی قرضے آسانی سے ادا نہیں ہوں گے اور غریب قومیں ڈالر کے نظام سے باہر ہو جائیں گی جو مغربی طرز زندگی کو سہارا دیتا ہے۔ پھر امریکی بھی مصیبت سے نکلنے کا راستہ نہیں تلاش کر سکیں گے مثلاً سری لنکا نے ہندوستانی روپوں میں قرضوں کا تصفیہ شروع کر دیا ہے اور ہندوستان روسی تیل روبل(روسی کرنسی) میں خرید رہا ہے۔ چین یوآن کے ساتھ سعودی تیل خرید رہا ہے۔
 
سری لنکا کی بغاوت جس نے لیڈروں کو نکال باہر کیا اسے" اراگالیا "کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’جدوجہد‘‘۔ سری لنکا کے حالات سے ہم بخوبی اپنے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سری لنکن جدوجہد آہستہ آہستہ ایک عالمی جدوجہد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ حالات تشویشناک ہیں یہ کوئی ڈراوا نہیں ہے بلکہ پیشن گوئی ہے۔ بیماری ہونے سے پہلے اس کی احتیاط کر لی جائے تو بڑی پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔ ان مسائل کا حل ایک حب الوطن گورننس ہی کر سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اپنے رہنما دیکھ کر چنیں۔ کرپشن کو عوامی طاقت کے زور پر روکا جائے۔ ہر مسئلے کا کوئی حل لازمی ہوتا ہے۔۔۔۔۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
 
یہ بھی یاد رہے کہ سری لنکا کی عوام بھی اسی انتظار میں رہی کہ سب کچھ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور اسی خوش فہمی نے انہیں بدترین حالات تک پہنچا دیا- سری لنکن عوام کے یہ حالات ہمارے لیے سبق ہیں کہ ہم اپنا بچاؤ کرلیں-
YOU MAY ALSO LIKE: