معاف کرنے سے انسان کی روح پاکیزہ ہوتی ہے

اللہ پاک نے انسان کو اس دنیا میں تنہا رہنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ بہت سے خونی اور اخلاقی رشتوں میں منسلک کر دیا کیونکہ معاملات زندگی میں ایک دوسرے کے بغیر چلنا نا گزیر ہے ۔کوئی بھی انسان اکیلے زندگی گزار نہیں سکتا ۔جب روزمرہ کی زندگی میں ہمارا لوگوں سے میل جول ہوتا ہے تو بہت سے رویوں کی چھان چھاننی پڑتی ہے ۔ بہت سے مزاجوں کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔کچھ رویے ،کچھ تعلق ہمارے لیے موزوں ہوتے ہیں اور کچھ ہمارے مزاج کے بر عکس ہوتے ہیں ۔بہت سے لوگوں کی باتیں ہمیں پریشان کرتی ہیں اور بہت سے لوگوں سے بات کر کے ہمیں تسکین ملتی ہے ۔تضاد وہاں ہوتا ہے جہاں لوگوں کی باتیں ہماری دل آزاری کرتی ہیں ایسے میں سوال جنم لیتا ہے کہ ہمیں اس صورت میں کیا حکمت عملی اپنانی چاہیئے ۔ بحثیت مسلمان اگر ہم اس کا جواب قرآن کریم ، سیرت نبوی صل الله عليه وسلم اور اسوہ حسنہ کی رو سے دیکھیں تو ہمیں عفو درگزر اور معاف کرنے کا درس ملتا ہے ۔

پیارے نبی صلی الله عليه وسلم کے ساتھ اگر کوئی غلط رویہ رکھتا ،آپ کی شان میں کوئی گستاخی کرتا یا آپ کو تکلیف پہنچاتا تو آپ کبھی بھی ان سے بدلہ نہ لیتے بلکہ معاف کرنے کو ترجیح دیتے اور ان کے حق میں دعا فرماتے ۔

اللہ کے نبی صل الله عليه وسلم نے عفوردگزر اور معاف کرنے کی اعلٰی مثالیں قائم کر کے اپنی امت کو عفودرگزر اور برداشت کرنے کا درس دیا ۔

جب طائف والوں نے آپ پر ظلم کیا تو دو جہاں کے آقا نے ان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ ان کے حق میں دعا بھی فرمائی ۔

آپ نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا۔

ان تمام مثالوں کے ذریعے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی معاف کرنا چاہیے ۔کیونکہ معاف کرنا سنت نبوی صل الله عليه وسلم ہے ۔اس میں ہی سکوں ہے اور اللہ کی رضا بھی اسی میں ہے ۔جب انسان کسی کو معاف کرتا ہے تو اس کا دل نرم ہو جاتا ہے ۔

حضور پاک صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
"جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں کی طرح نرم ہوں گے ۔"
اور مومن یقیناً نرم دل ہوتا ہے وہ فاسق نہیں ہو سکتا ۔

ہم انسان ہیں ۔انسان لفظ نسیان سے نکلا ہے جس کا مطلب بھولنے والا ہے ۔اس لیے تو انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے اور انسان ہونے کے ناطے غلطی کسی سے بھی سر زد ہو سکتی ہے ۔اس لیے تو جہاں غلطی کی صورت میں جلد معافی مانگنے کا حکم۔ہے وہاں جلد معاف کرنے کا بھی حکم ہے ۔

معاف کرنے سے انسان کی روح پاکیزہ ہوتی ہے ۔ایک انسان سے کتنی ہی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں اور ہم ہمیشہ جب رب کے حضور سجدہ بسجود ہوتے ہیں یا سر خم کرتے ہیں یا رب کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہمیشہ معافی کے طلب گار ہوتے ہیں ۔اور یہی امید کرتے ہیں ہمارا رب ہمیں معاف کر دے اور ہماری بخشش ہو جائے ۔تو ایک لمحے لے لیے سوچیئے کہ اگر ہم رب کی مخلوق کو معاف نہیں کرتے تو ہم کس منہ سے اپنی غلطیوں کی معافی کے لیے رب کے حضور پیش ہوں گئے ۔اگر اللہ پاک سے ہم معافی کے طلب گار ہیں تو ہمیں بھی معاف کرنا آنا چاہیئے ۔

کسی دانشور نے کہا تھا کہ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ کہ وہ انسان کو معاف نہیں کرتا اور اللہ سے یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ اسے معاف کر دے ۔

معاف کرنا کسی بھی انسان کے لیے کردار سازی کا اہم جز ہے ۔ایک عالی ظرف اور باکردار انسان بدلے باز نہیں ہوتا بلکہ وہ معاف کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔

لوگوں کے درست باتوں کو تو ہر کوئی برداشت کر لیتا ہے ۔اصل بہادری اور دریادلی تو تب ہے جب آپ کسی کی نامناسب بات کو بھی اللہ کے لیے برداشت کرنا سیکھیں ۔اللہ کے لوگوں سے ہارنا سیکھیں ۔اللہ کے لیے ہارنے سے مراد ہے اپنی انا کو قربان کر کے لوگوں کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دیا جائے ۔

اکثر ہم بے چیں ،بے سکوں صرف اس لیے رہتے ہیں کہ جن لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرنا چاہیئے تھا انھیں ہم نے اپنے اذہان میں جگہ دی اور وہ پریشانی کا باعث بنی ۔

ایک دفعہ کلاس میں ایک استاد نے اپنے طلباء کو ایک ورکشاپ کروائی اور انھیں ایک ٹاسک دے دیا ۔سب کو کہا کہ ایک بیگ میں ٹماٹر لے کر آئیں اور سارا دن کلاس میں اپنے پاس رکھیں ۔طلبا لے آئے ۔اب کلاس جب ختم ہوئی تو استاد نے انھیں گھر ساتھ لے جانے کو بولا اور اگلے دن پھر دوبارہ ساتھ لانے کا حکم دیا ۔لیکن جب اگلے دن طلبا وہی بیگ دوبارہ اپنے ساتھ لے کے آئے تو وہ گل سڑ چکے تھے اور بد بو آ رہی اور ان طلبا کو وہ بیگ اپنے پاس رکھنا محال تھا ۔جب تمام طلبا نے یہ مسئلہ بیان کیا تو استاد نے اپنے طلباء کو اس سرگرمی کا مقصد بھی بتایا اور اس سے ایک سبق بھی دیا ۔استاد نے کہا اس ٹماٹر کے بیگ کی مثال دوسروں کی غلطیوں اور ان کی غلط باتوں کی ہے آپ انہیں آپ ساتھ لیے پھرتے ہیں اور اپنے ہی دل ودماغ کو گندا کر لیتے ہیں اور بے سکون ہو جاتے ہیں ۔حتی کہ انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔آپ لوگوں کو چاہیئے کہ اگر کوئی آپ سے غلط کرتا ہے تو اسے معاف کر کے آگے بڑھیں نہ کہ ٹماٹروں کی طرح ساتھ ساتھ لیں پھریں ۔اور نہ ہی خود کو ان کی وجہ سے پریشان کریں ۔لوگوں کو باتیں کرنے سے آپ نہیں روک سکتے مگر ان کی باتوں پر آپ اپنا رسپانس مثبت رکھ سکتے ہیں۔دوسروں کو معاف صرف اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہ اخلاقی فرض ہے بلکہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ ہمیں بھی سکون چاہیئں ۔

معاف نہ کر کے ہم دوسروں کی غلطیوں کی سزا ہم خود کو دیتے ہیں ۔ہماری بے چینی اور بے سکونی کی بھی یہی وجہ ہے ۔

جب ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے تو ہم میں انا ،چڑچڑاپن ،حسد اور نفرت جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں
"تم اپنی ہزار غلطیوں کے باوجود اپنے آپ سے محبت کرتے ہو لیکن دوسروں کی ایک غلطی کی وجہ سے نفرت کیوں کرنے لگے جاتے ہو یا تو خود غلطیاں کرنا چھوڑ دو یا دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لو" ۔

اصل میں معاف کرنا ہم بچپن سے اپنے گھروں سے ہی نہیں سیکھتے ۔اکثر گھروں کے بچے جب کسی سے الجھ کر گھر آتے ہیں تو والدین کہتے ہیں کہ اگر اس نے تمیں ایک تھپڑ لگایا تو تم نے اس کا بدلہ کیوں نہیں لیا یعنی وہ انا کا مسئلہ بناتے ہیں ۔بلکہ اس کی بجائے بچے کی درست پرورش کرنی چاہیئے کہ کوئی بات نہیں بچے انھیں معاف کر دو اللہ آپ سے راضی ہو گا ۔

جیسے جیسے بچے بڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ عادت اور پختہ ہو جاتی ہے اور وہ انسان معاف نہیں کر پاتا اور سخت دل ہو جاتا اور ایسے رویے اگر لوگ رکھیں گے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا ۔

اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ فقیر ،درویش لوگ بڑے خوش اسلوب ہوتے ہیں ۔ وہ پریشان حالات میں بھی پرسکون رہتے ہیں ۔ ان کے پرسکون ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ بدلے باز نہیں ہوتے ۔ وہ کینہ فساد نہیں رکھتے ۔دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں۔

ایک یہاں اور نقطہ جنم لیتا ہے جس کو واضح کرنا بہت ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو آخر کب تک معاف کریں لوگ تنگ کرنے،دل آزاریوں سے ،ٹانگ کھنچنے سے سے باز نہیں آتے۔ ہم کتنی بار معاف کر کے ان سے تعلق قائم رکھے ۔

اس سلسلے میں ہمییں بحثیت مسلمان چاہئے کہ ہم دل میں کسی کے لیے بغض نفرت نہ رکھیں ۔بدلے کی ٹو میں نہ لگے رہیں ۔بلکہ اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کر دیں ۔معاف کرنے کا ہر گز مطلب نہیں کہ ہم دوبارہ ان سے دوبارہ تعلق رکھے ۔آپ دوبارہ تعلق نہیں رکھنا چاہتے تو آپ ان سے محتاط ہو جائیں مگر کسی کے لیے دل میں کینہ ،فساد والی سوچ نہ رکھیں۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں آپ انھیں گلے سے لگائیں اور ویسے تعلق رکھیں بلکہ خود سے عہد کرنا ہے کہ جو اذیت انھوں نے دی ہم نے انھیں نہیں دینی ۔ان کے بارے میں ہمیں دل کو صاف رکھنا ہوتا ہے ۔

کیونکہ رب لوگوں کے دلوں میں سراہت کرتا ہے اور دل ہمیشہ پاک صاف ہونے چاہئے ۔معرفت کا اصول بھی یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں ،انا تکبر کو قربان اور عاجزی کو پروان چڑھائیں ۔لوگوں کی نامناسب رویے کا متبادل آپ کا اچھا رویہ ہونا چاہیئے ۔

معاف کرنا قدرت کے اکاؤنٹ ایک ایسی انویسٹمنٹ ہے جس کا سرمایہ آپ کو سکون اور اللہ کی خوشنودی کی صورت میں ملتا ہے ۔جو انسان دوسروں کو معاف کرنا جانتا ہے اللہ پاک اسے اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اور ایسا انسان بہت سے اخلاقی بیماریوں سے بچ جاتا ہے ۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کیسی گہرے تعلق میں ایک طرف سے غلطی سر زد ہو جاتی ہے یا غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ان میں ایک شخص کو احساس بھی ہو جاتا ہے اور غلطی ہونے یا نہ بھی ہونے کی صورت میں معافی مانگ لیتا ہے۔ صلح رحمی میں پہل کرنے یا معافی طلب کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہی انسان غلط تھا بلکہ اس میں تعلق نبھانے کی چاہت زیادہ تھی ۔اور جو شخص صلح رحمی میں پہل کرتا ہے اللہ کے ہاں وہ اعلٰی مقام پاتا ہے ۔ تو اس صورت میں سامنے والے کو چاہیئے کہ اناپرست بننے کی بجائے معاف کرنے کی روش اختیار کرے ۔

اس لیے اگر کوئئ تعلق کا بھرم رکھنے کے لیے آپ سے رجوع کر لیں تو اسے اس کی غلطیاں یاد کروائے بغیر اسے معاف کر دینا چاہیئے ۔اس کے برعکس اگر کوئی انسان آپ سے معافی بھی طلب کرتا ہے اور آپ معاف بھی کر سکتے ہیں اور معاف نہیں کرتے تو ایسے میں اللہ کے نبی صل الله عليه وسلم نے فرمایا
"جس کے پاس اس کا بھائی مَعْذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے بھائی کو مُعاف کردے، خواہ وہ جُھوٹاہو یا سچا۔جو معاف نہیں کرے گا ، حوض ِکوثرپر نہ آسکے گا۔"

اس لیے کوئی معافی کا شرعی عذر لے .کر آ جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیئے کیونکہ برائی کو نیکی سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔غلطی کو معافی سے سدھارا جا سکتا ہے ۔معاف کرنے سے کوئی بھی انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا اور نہ ہی اسکی عزت کم ہوتی ہے بلکہ اس سے معاشرہ منظم تشکیل پاتا ہے اور محبت ،پیار کی فضا پھیلتی ہے ۔


 

Faizan Waris
About the Author: Faizan Waris Read More Articles by Faizan Waris: 3 Articles with 2567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.