#العلمAlilmعلم الکتابسُورٙةُالجُمعة ، اٰیت 9 تا 11
اٙلجُمعة و اٙحکامِ الجُمعة اور حُکامِ الجُمعة { 2 }اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اٙستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا الذین
اٰمنوا اذا نودی للصلٰوة
من یوم الجمعة فاسعوا الٰی
ذکر اللہ و ذرالبیع ذٰلکم خیر لکم
ان کنتم تعلمون 9 فاذا قضیت الصلٰوة
فانتشروا فی الارض و ابتغوا من فضل اللہ
و اذکروا اللہ کثیر لعلکم تفلحون 10 و اذا راو
تجارة او لھو انفضوا الیھا و ترکوک قائما قل ما عند
اللہ خیر من الھو و من التجارة واللہ خیر الرازقین 11
اے ایمان دار لوگو ! تُم جب کبھی بھی قُرآنی اٙحکام کے قُرآنی مرکز کی طرف
سے قُرآنی اٙحکام کی سماعت و تلاوت کے لئے کسی بھی وقت کہیں پر بھی بُلائے
جاوؑ تو اپنے معمول کے سارے کام چھوڑ کر اُس علمی مرکز کی طرف جاوؑ اور پھر
اُس قُرآنی مرکز سے قُرآن کی سمعی و بصری تعلیم و تفہیم لے کر اٙطرافِ زمین
میں پھیل جاوؑ تاکہ تُم قُرآن کے اِس عالمی فیض سے فیض یاب ہو کر اپنے رسول
کے دست و بازُو بن جاوؑ اور قُرآن کے اِس عالمی فیض سے سارے عالٙم کو فیض
یاب کرو اور یقین جانو کہ اگر تُم یہ عملِ خیر کرتے رہو گے تو دُنیا و آخرت
دونوں میں کامیاب ہو جاوؑ گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے اِس مُختصر مقصدی مفہوم کے بعد ہم اِس بات کا اعادہ کریں گے
کہ اِس سُورت کی گزشتہ 8 اٰیات کا پہلا مضمون جو اِس سُورت کے نفسِ موضوع
کا ایک کلمہِ تمہید تھا اور اِس سُورت کی اِن آخری اٰیات کا یہ آخری مضمون
اِس سُورت کے اُس نفسِ موضوع کا ایک کلمہِ تکمیل ہے اور اِس کلمہِ تکمیل کی
اہم ترین بات یہ ہے کہ اِس سُورت کے اِس آخری مضمون پر انسانی عقل نے جو
پیچیدہ قفل چڑھائے ہوئے ہیں اُن پیچیدہ قفل کو کھولنے کے لئے قُرآن نے اِن
ہی اٰیات میں وہ دس کلیدِ قفل بھی رکھی ہوئی ہیں جن کی مدد سے اِن پیچیدہ
قفل کو کھول کر علم کے اُن پوشیدہ خزانوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے جن
پوشیدہ خزانوں کا سامنے آنا اور سامنے لایا جانا لازم ہے ، اگر ہم اِن دس
کلید کا ترتیبِ کلام کے لحاظ سے ترتیبِ کلام کے مطابق انتہائی اختصار کے
ساتھ ذکر کریں تو اِن کلید میں سے پہلی کلید حرفِ شرط و ظرفِ زمان { اذ }
ہے جس کا مُجرد معنٰی { جب } اگرچہ وقت کا ایک محدُود لٙمحہِ وقت ہے لیکن
اِس کے اِس محدُود مفہوم میں وقت کے { جب بھی } اور { جب کبھی بھی } یا {
جہاں کہیں بھی } کے وہ تمام کے تمام لامحدُود زمان و مکان بھی شامل ہوتے
ہیں جن میں کوئی حُکم دینے کا کوئی امکان موجُود ہوتا ہے اِس لِیئے اِس
حرفِ { اذا } کی اِس لامحدُود وسعت نے اِس حرفِ { اذا } کے اِس مُجرد معنی
کو بھی زمان و مکان کی لا محدُود وسعتوں کا حامل بنا دیا ہے ، قُرآنِ کریم
کے اِس مُقفل خزانے کی دُوسری علمی کلید اِس کا وہ فعل مجہول { نودی } ہے
جس کا معلوم معنٰی ایک نا معلوم پُکارنے والے کا کسی کو پُکارنا ہوتاہے
لیکن جب اِس طرح کے ایک معلوم فعل کا فاعل معلوم نہیں ہوتا تو اُس غیر
معلوم فعل کا فاعل اللہ تعالٰی کی ذات کو سمجھا جاتا ہے اور اللہ تعالٰی
چونکہ اپنے کسی نبی یا اپنے کسی رسول کے سوا کسی انسان کو براہِ راست کوئی
حُکم نہیں دیتا اِس لِئے اِس اٰیت کے اِس خاص مقام پر اِس خاص فعل کا خاص
فاعل اللہ تعالٰی کے اُس رسولِ مُرسل کو سمجھا جائے گا جو رسولِ مُرسل اللہ
تعالٰی کے حُکم سے انسان کو قُرآن کے اٙحکام سنانے پر مامور کیا گیا تھا ،
قُرآن کے اِس علمی خزانے کی تیسری کلید { الصلٰوة } ہے جس کا قرآنی معنٰی
قُرآن کی اتباع ہے اور قُرآن کے اِس اٙمرِ اتباع کی قُرآنی دلیل
سُورٙةُالقیٰمة کی یہ دو اٰیات ہیں { فلا صدق ولا صلٰی } حق کے اُس منکر نے
حق کی تصدیق بھی نہیں کی اور حق کی اتباع بھی نہیں کی بلکہ اِس کے برعکس
اُس نے { کذب و تولٰی } حق کی تکذیب بھی کی اور حق سے رُو گردانی بھی کردی
ہے ، قُرآن کے اِس علمی خزانے کی چوتھی کلید اِس کلام کا کلیدی لفظ {
الجمعة } ہے جو ہفتے کے سات ایام میں سے ایک یوم کا اسمِ علٙم نہیں ہے بلکہ
عملِ جمع کا اسمِ کا ایک مصدر ہے جس کی قُرآنی دلیل سُورٙةُالتغابن کی وہ
اٰیت 9 ہے جس میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ { یوم یجمعکم لیوم الجمع ذٰلک یوم
التغابن } یعنی جس ہنگامی دور کے ایک ہنگامی دور میں تُم سب کو ایک ہنگامی
صورتِ حال میں ایک جگہ پر جمع کیا جائے گا وہی دور تُمہارے ایک جگہ پر جمع
کیئے جانے کا ایک مناسب دور ہو گا ، اِس اٰیت میں یوم کا معنٰی ایک ہنگامی
دور ہے کیونکہ یومِ قیامت ہمارے فکری حساب کا ایک دن نہیں ہے بلکہ اللہ کے
فطری حساب کا ایک لامتناہی دور ہے اور قُرآن کے 70 مقامات پر قیامت کے اُس
لامتناہی دور کے دور کے دورانیئے کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ قیامت کا
وہ لامتناہی دور جب بھی آئے گا بالکُل ہنگامی طور پر آئے گا اور ایک ہنگامہ
خیز صورتِ حال کے ساتھ آئے گا ، قُرآن کے اِس خزانے کی پانچویں کلید اِس کا
اٙمرِ { فاسعوا } ہے جس میں اُس ہنگامی صورتِ حال میں صادر ہونے والے حُکم
پر اُسی تیزی کے ساتھ عمل در آمد کا حُکم دیا گیا ہے جس تیزی کے ساتھ وہ
حُکم جاری ہوا ہے ، قُرآن کے اِس خزانے کی چٙھٹی کلید { ذکر اللہ } ہے جس
سے مُراد قُرآن کریم ہے جس کی تعلیم و تفہیم کا اِس سُورت کی دُوسری اٰیت
میں ذکر کیا گیا ہے اور اللہ کے اِس ذکر سے مُراد قُرآنی تعلیم ہے اور اِس
سے قُرآنی تعلیم مُراد لینے کی دلیل سُورٙہِ فُصلت کی اٰیت 41 ہے جس میں
اِس ذکر سے مُراد یہی کتابِ عزیز ہے جس کی تعلیم کا اِس سُورت کی اِن اٰیات
میں یہ حُکم دیا گیا ہے کہ اِس کتاب کا جب بھی حُکم آئے اور جہاں پر جن
حالات میں بھی حُکم آئے اُس حُکم پر بلا تاخیر عمل کیا جائے ، قُرآن کے اِس
خزانے کی ساتویں کلید اِس کے اِس سلسلہِ کلام میں آنے والا اِس کا مرکب {
وذرواالبیع } ہے جس میں یہ حُکم دیا گیا ہے کہ جب رسول کی طرف سے قُرآنی
تعلیم کا حُکم آجائے تو جاری کاروباری نظام کو فوری طور پر معطل کر کے
قُرآن کے اُس فوری حُکم پر عمل کیا جائے ، قُرآن کے اِس علمی خزانے کی
آٹھویں کلید اِس کا وہ قانون { قضیت الصلٰوة } ہے جس میں یہ حُکم دیا گیا
ہے کہ جب قُرآن کا وہ مُعلم اپنی اُس تعلیمی مجلس میں بلائے گئے اُن
مُتعلمین کی تعلیم کی تکمیل کا اعلان کردے تو اُس وقت اُن کی اُس تعلیمی
نشست کو دُوسری نشست کے دُوسرے اعلان تک برخواست کر دیا جائے ، قُرآن کے
اِس نادیدہ علمی خزانے کی نویں کلید اِس اٰیت میں دیا گیا قُرآن کا حُکم {
اذکر اللہ کثیرا } ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اِس کتاب کی اِس پہلی تعلیمی
نشست کے بعد اِس کی دُوسری تعلیمی نشست مُنعقد ہونے تک قُرآن کے پڑھے ہوئے
کلام کو بار بار لسان و لٙب سے دُہرایا جائے تاکہ اُس کے سارے اسرار و رموز
مُتعلمِ قُرآن کے سینے میں دائمی طور پر مرکوز ہو جائیں اور قُرآن کے اِس
علمی خزانے کی دسویں علمی کلید اِس کا وہ موہوم امکان { وترکوک قائما } ہے
جس میں یہ حُکم دیا گیا ہے کہ تُمہاری اِس ساری جد و جہد کا حاصل یہ نہیں
ہونا چاہیئے کہ تُم تُم قُرآن کی اِس عالمی تعلیم کی عالمی جد و جہد میں
اپنے رسول کو تنہا چھوڑ دو بلکہ اِس جد و جہد کا نتیجہ ہمیشہ ہی یہ ہونا
چاہیئے کہ تُم اِس عملی جد و جہد میں اپنے رسول کے شانے کے ساتھ شانہ ملاکر
کھڑے رہو تاکہ اِس کتاب کا عالمی فیض عالٙم میں عالٙم گیر ہو جائے ، اِس
تفصیل کا ماحصل یہ ہے کہ قُرآن کا الجمعة ہفتے کے سات دنوں میں سے چوبیس
گھنٹے کا ایک دن نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے کا طویل وقت میں سے وہ ایک
ہنگامی وقت ہے جس ہنگامی وقت میں قُرآنی ریاست کا نگران رسول اہلِ ریاست کو
کسی بھی وقت قُرآنی تعلیم و تفہیم یا ریاست کے سیاسی و معاشرتی معاملات پر
مشاورت کے لئے اللہ کے حُکم سے بلاتا ہے یا اُس کا کوئی مقرر کیا ہوا
نمائندہ اُس رسول کے حُکم سے ایک منادی کر کے اہلِ ریاست کو جمع کرتا ہے
اور اہلِ ریاست اُن کے اِس حُکم پر جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں تک انسان کے
انسانی یوم الجمعہ کا تعلق ہے تو اہلِ روایت کی روایات کے مطابق سیدنا محمد
علیہ السلام کے مدینے میں تشریف لانے سے قبل اہلِ مدینہ نے اپنے اِس خیال
سے جاری کیا ہوا تھا کہ جس طرح اُن کے یہودی اہلِ شہر ہفتے کے سات دنوں میں
سے ایک دن جمع ہوتے ہیں اور جس طرح اُن کے عیسائی اہلِ شہر بھی ہفتے کے سات
دنوں میں ایک دن جمع ہوتے ہیں اِسی طرح وہ بھی ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک
دن ایک جگہ پر جمع ہوا کریں چنانچہ اہلِ مدینہ نے یومِ عروبہ پر جمع ہونا
شروع کیا تھا اور پھر سب سے پہلے کعب بن لوی نے اپنے جمع ہونے کے حوالے سے
اِس دن کا نام یوم الجمعة مقرر کیا تھا اور اِس کے بعد یوم الجمعة کا یہ
ہفتہ وار اجتماع مُنعقد ہونے لگا تھا ، اہلِ روایت اپنی اِن روایات میں اِس
اٙمر کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے بذاتِ خود اہتمامِ جمعہ کا
کوئی حُکم جاری نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے اُن صحابِ مدینہ نے اپنے اجتہاد سے
اپنے اِس ہفتہ وار اجتماع کا اہتمام کیا تھا لیکن اِن اہلِ روایت نے یہ
روایت بیان کرتے ہوئے اِس حقیقت کو نظر انداز کردیا ہے کہ اللہ کے رسول کی
موجودگی میں انسانی معاشرے کے بڑے سے بڑے اٙفراد کے کسی بڑے سے بڑے اجتماع
کو بھی اجتہاد کرنے کا حق نہیں ہوتا لیکن یہ اہلِ روایت یہ بات بہر حال
تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے مدینے تشریف لانے سے پہلے ہی مدینے میں
جمعة ادا کیا جاتا تھا اور ساتھ یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ آپ نے بھی مدینے
تشریف لانے کے بعد اہلِ مدینہ کے ساتھ ایک جمعہ ادا کیا تھا لیکن ظاہر ہے
کہ یہ روایات نمازِ جمعہ کی فرضیت پر کوئی دلیل نہیں ہیں یہاں تک کہ اہلِ
روایت کے بڑے امام ، امام بخاری نے کتاب البخاری کی کتاب التفسیر میں اِس
سُورت کی اِن اٰیات کے تحت میں سیدنا ابو ہریرہ کے حوالے سے حدیث نمبر 4898
اور حدیث نمبر 48 99 کی صورت میں جن و دو احادیث کا اہتمام کیا ہے اُنہوں
نے بھی اپنی اُن احادیث میں صلٰوةِ جمعہ کے بجائے صرف کسبِ تجارت کا ذکر
کیا ہے لیکن جہاں تک اِس عمل کی بقائے جواز کا تعلق ہے تو سُورٙةُالحدید کی
اٰیت 27 کی رُو سے کسی نیک جذبے کے تحت کسی نیک عمل کے شروع کرنے اور اُس
کے اُسی بُنیادی نیک جذبے کے تحت اُس میں کوئی بدعت شامل کیئے بغیر اُس کے
تسلسل و تواتر کا جواز موجُود ہے !!
|