عہدِ رسالت کے مُنافق اہلِ سیاست

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمنٰفقون ، اٰیت 1 تا 8 !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذاجاء
المنٰفقون قالوا
نشھد انک لرسول
اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ
واللہ یشھد ان المنٰفقین لکٰذبون 1
اتخذوا ایمانہم جنة فصدوا عن سبیل
اللہ انہم ساء ما کانوا یعملون 2 ذٰلک بانہم
اٰمنوا ثم کفروا فطبع علٰی قلوبھم فھم لا یفقھون 3
واذا رایتہم تعجبک اجسامھم و ان یقولوا تسمع لقولھم کانھم
خشب مسندة یحسبون کل صیحة علیہم ھم العدو فاحذرھم قاتلھم
اللہ انٰی یوؑفکون 4 واذا قیل لھم تعالوا یستغفرلکم رسول اللہ لووارءوسہم
ورایتہم یصدون و ھم مستکبرون 5 سواء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفرلھم
لن یغفر اللہ لہم ان اللہ لا یھدی القوم الفٰسقین 6 ھم الذین یقولون لا تنفقوا علٰی من عند
رسول اللہ حتٰی ینفضوا و للہ خزائن السمٰوٰت و الارض ولٰکن المنٰفقون لایفقھون 7 یقولون لئن
رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منہا الاذل و للہ عزة و لرسولہ و للموؑمنین و لٰکن المنٰفقین لا یعلمون 8
اے ہمارے رسول ! جو منافقینِ شہر آپ کے پاس آکر کہتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں تو اِن کی زبان کی زبان سے کہی ہوئی یہ بات تو یقینا سٙچی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ اِن کی جھوٹی گواہی پر یہ سچی گواہی بھی دیتا ہے کہ یہ وہ منافق لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مطلب براری کے لئے اپنی اِنہی جُھوٹی قسموں کے اِس بدترین عمل کو ہی اپنی ڈھال بنا رکھا ہے اِس لئے کہ ایمان کی روشنی میں نہ آنے اور کفر کی تاریکی میں رہ جانے کی وجہ سے اِن کے دلوں پر انکار کی ایک ایسی اٙنمٹ مُہر لگ چکی ہے کہ بظاہر تو یہ لوگ اپنے گاوؑ تکیوں سے ٹیک لگا کر بڑی معززانہ گفتگو کرلیتے ہیں لیکن در حقیقت یہ دیوار سے لگی ہوئی وہ خشک لکڑیاں ہیں جنہوں نے آپ کی دشمنی کی آگ میں جلتے رہنا ہے اور آپ نے اِن خُدا کے مارے اور دُھتکارے ہوئے شریر لوگوں کے شر سے بچ کر رہنا ہے ، اہلِ ایمان اگرچہ اِن لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تُم اپنی خطا بخشی کی درخواست لے کر اللہ کے رسول کے پاس جاوؑ لیکن یہ اُن کے مشورے کے بعد بھی اپنے تکبر پر رُکے رہتے ہیں اِس لئے آپ کا اِن کی خطابخشی کرنا نہ کرنا برابر ہے کیونکہ ایسے سرکش لوگ کبھی بھی آسانی سے راستی کے راستے پر نہیں آتے بلکہ یہ لوگ تو آپ کے اٙصحاب و احباب کو بھی یہ گُم راہ کن مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ آپ کے ساتھ اپنا تعاون ترک کردیں گے تو یہ لوگ مہاجرین کو رُسوا کر کے شہر بدر کردیں گے لیکن یہ منافق یہ نہیں جانتے کہ زمین و آسمان کی عزت و روزی خُدا کے پاس ہے اور خُدائے عزت دار کی عزت بخشی اُس کے رسول و اٙصحابِ رسول کے لئے ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن شہرِ مدینہ کے منافقین اور شہرِ مدینہ کے مومنین کا وہ کردار و عمل ہے جو شہرِ مدینہ کے ایک خاص سیاسی و معاشرتی ماحول میں ظاہر ہوا تھا اور چونکہ منافقین و مومنین کا وہ کردار و عمل بعد میں آنے والی اٙقوام کے لئے انتہائی دُور رٙس سیاسی نتائج کا حامل تھا اِس لئے قُرآن نے اُن کے اُس کردار و عمل اور اُس کردار و عمل کے نتائجِ عمل کو آنے والی اٙقوام کی عبرت و موعظت کے لئے محفوظ کرلیا ہے لیکن اُس زمانے کی اُس حقیقی صورتِ حال کو جاننے کی طرح جاننے کے لئے سب سے پہلے تو اِس اٙمر کا جاننا لازم ہے کہ جس طرح ہر زمانے کی ہر زمین پر انسانی شہروں اور انسانی بستیوں میں جو خونیں درندے دٙر آتے ہیں وہ اُن انسانی بستیوں میں آتے اور ہوتے تو ضرور ہیں لیکن وہ خونیں درندے اُس انسانی بستی میں رہنے والی اُس انسانی جماعت میں شامل نہیں ہوتے جس انسانی جماعت کی حدُود میں وہ موجُود ہوتے ہیں اسی طرح شہرِ مدینہ کی اسلامی ریاست میں بھی وہ منافقینِ ریاست موجُود تو ضرور تھے جن منافقین کا قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں ذکر کیا ہے لیکن وہ منافقین مومنین کی اُس جماعت میں شامل ہر گز نہیں تھے بلکہ وہ منافقین مومنین کی ریاستی حدُود میں بالکُل اسی طرح موجُود تھے جس طرح ہر زمانے اور ہر زمین کی انسانی بستیوں میں کُچھ خونیں درندے ہمیشہ موجُود ہوتے اور موجُود رہتے ہیں اِس لئے جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے تو بالکُل غلط سمجھا ہے کہ اُس زمانے میں شہرِ مدینہ میں جو منافقین موجُود تھے وہ مومنین کی اُس جماعت کا حصہ تھے جو جماعت سیدنا محمد علیہ السلام کی تربیت یافتہ جماعت تھی اسی لئے قُرآن نے اِس سُورت کی پہلی 8 اٰیات میں منافقین کی اُس جماعت کا الگ ذکر کیا ہے جو اُن مومنین کی اُس معاشرت میں دٙر آئے تھے اور اِس سُورت کی آخری تین اٰیات میں اُن مومنین کی جماعت کا الگ ذکر کیا ہے جن کے قرب و جوار میں وہ منافقین موجُود ہوتے تھے ، دُوسری بات جو اُس زمانے کے اہلِ نفاق کے نفاق کو جاننے کے لئے جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں کسی نبی یا کسی رسول کے مخالف اُس نبی یا اُس رسول کے لائے ہوئے دین مخالف نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ اُس نبی اور اُس رسول کے اِس لئے مخالف ہوتے تھے کہ وہ اُس نبی و رسول کے لائے ہوئے دین کو اپنے اُس غیر منصفانہ سیاسی و معاشی مفاد کے خلاف سمجھتے تھے جہاں تک نفسِ دین کا تعلق ہے تو وہ اُس دین کو سچا دین سمجھتے ہوئے کبھی کبھی اُس دین کی صحت و صداقت کا اسی طرح اظہار بھی کرلیتے تھے جس طرح کہ شہرِ مدینہ کے منافق اُس سچے دین کے سچے ہونے کا اقرار کرتے تھے اگر چہ اُن کا یہ اقرارِ زبانی صرف حصولِ مفاد کے لئے ہی ہوتا تھا اِس لئے اُن لوگوں کی یہ رائے بھی غلط ہے کہ ریاست مدینہ کے مخالف لازما وہ یہودی ہی تھے جو اُس ریاست کے مُسلم ہونے کی وجہ سے اُس ریاست کے مخالف تھے چنانچہ جب ہم ابنِ ابی اور اُس کے 9 ساتھی مالک و سوید ، قاعس و اوس بن قبطی ، زید بن صلت و عبد اللہ بن نبیل اور معتب بن قشر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف طور پر نظر آتا ہے کہ وہ نبی علیہ السلام کے دینی مخالف کم اور سیاسی مخالف زیادہ تھے ، وہ آپ کو اور آپ کے لائے ہوئے دین کو سچا دین سمجھنے کے باوجُود اِس لئے آپ کے مخالف تھے کہ اُس وقت ابنِ ابی شہر مدینہ پر اپنے اقتدار کا جو خواب دیکھ رہا تھا اُس کے خیال میں اُس کے اِس خواب کے شرمندہِ تعبیر ہونے کا یہی موزوں وقت تھا جب اسلام اپنے ابتدائی دور سے گزر رہا تھا اِس لئے اُس کے خیال میں اُس کے لئے ضروری تھا کہ مدینے کی اِس ریاست سے محمد علیہ السلام کو بیدخل کر کے اُِس وقت اُس پر قبضہ کر لیا جائے جب محمد علیہ السلام شہر میں موجود نہ ہوں اور پھر اسی خیال سے اچانک ہی اُس نے اور اُس کے حامیوں نے شہر میں یہ افواہ پھیلادی کہ بنی مصطلق کا سردار حارث ضرار مدینے پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور جب نبی علیہ السلام یہ اطلاع پاکر اپنے تیس سواروں کے ایک دستے کے ساتھ حارث ضرار کے سرکوبی کے لئے نکلے تو ابن ابی تو اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ لے کر آپ کے ساتھ نکل کھڑا ہوا لیکن اپنے ایک تجربہ کار ساتھی زید بن رفاعہ بن تابوت کو اِس ہدایت کے ساتھ اپنے پیچھے چھوڑ گیا کہ وہ اِس عرصے میں اُس کے لئے ایک شاہی تاج تیار کرے تاکہ وہ جیسے ہی اپنے زعم کے مطابا اِس جنگ میں نبی علیہ السلام و اٙصحابِ نبی علیہ السلام کو شکست سے دو چار کراکر واپس آئے تو فورا ہی اُس کی تاج پوشی ہو جائے لیکن جب رسول اللہ قبیلہ بنی مصلق کی بستی میں پُہنچے تو حارث ضرار ابن ابی کے ساتھ اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت پہلے ہی بستی سے فرار ہو چکا تھا کیونکہ اُس کا مقصد کوئی عملی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ رسول اللہ کو اپنے قبیلے کے کُچھ اٙفراد کے ذریعے ایک محدُود جنگ میں اُلجھا کر اتنا وقت حاصل کرنا تھا کہ ابن ابی کی تاج پوشی ہوجائے اور ابن ابی کے ساتھی نبی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر نبی علیہ السلام سے پہلے مدینے واپس پُہنچ کر اپنی بغاوت کے ذریعے مدینے کی حکومت کو مدینے سے نکال باہر کرے لیکن رسول اللہ نے جب بنی مصلق کی بستی سے اچانک ہی رٙختِ سفر باندھا تو اُن کا منصوبہ ناکام ہو گیا کیونکہ عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ کو نبی علیہ السلام کی مدینے آمد سے پہلے ہی اپنے باپ کو یہ کہہ کر مدینے میں داخل ہونے سے روک لیا کہ میں نے اِس سفر کے دوران اپنے کانوں سے آپ کے اُس خطرناک منصوبے کی تفصیل سنی ہے جو منصوبہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بنایا ہے اِس لئے آپ رسول اللہ کے واپس پُہنچنے کے بعد اور آپ سے شہرِ مدینہ میں داخلے کی اجازت کے بعد ہی مدینے میں داخل ہو سکتے ہیں اور جب رسول اللہ کی مدینے میں تشریف آوری کے بعد ابن ابی کو مدینے میں داخلے کی اجازت مل گئی تھی تو اُس نے اور اُس کے ایک اور ساتھی نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ منافقانہ اعلان کیا تھا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور شاید رسول اللہ بھی عام حالات میں اپنی فطری نرم دلی کی بنا پر اُن کے اِس دعوے پر یقین کر لیتے لیکن اللہ نے آپ کو اِس سُورت کی یہ وحی بر وقت یاد دلادی اور اِس طرح نبی علیہ السلام نے ابن ابی کی سازش شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادی ، اِس سُورت کی اِن اٰیات کا یہی وہ پس منظر ہے جو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ہم نے بیان کیا ہے ، اِن اٰیات کے اِس سلسلہِ کلام کی آخری بات یہ ہے کہ اِس سلسلہِ کلام کی تیسری اٰیت میں وارد ہونے والے الفاظ { ذٰلک بانہم اٰمنوا ثم کفروا } سے اہلِ روایت و تفسیر نے جو یہ گمان کیا ہے اور شاید نیک نیتی ہی سے کیا ہے کہ اٙصحابِ محمد علیہ السلام میں کُچھ ایسے اٙفراد بھی موجُود تھے جنہوں نے پہلے ایمان قبول کیا تھا اور بعد ازاں دوبارہ کفر اختیار کرلیا تھا لیکن یہ گمان محض ایک بدگمانی ہے کیونکہ اِس سُورت کی اِس اٰیت سے پہلے ایمان و کفر کے رٙد و قبول کے جُملہ پہلووؑں پر سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 62 , 218 ، 277 ، سُورٙہِ اٰلِ عمران کی 137 ، سُورٙةُالنساء کی اٰیت 137 ، سُورٙةُالمائدة کی اٰیت 69 ، سُورٙةُالاٙنفال کی اٰیت 72 ، سُورٙہِ یُونس کی اٰیت 9 ، سُورٙہِ ھُود کی اٰیت 23 ، سُورٙةةالکہف کی اٰیت 13 ، 30 ، 107 ، سُورٙہِ مریم کی اٰیت 73 ، 96 ، سُورٙةةالحج کی اٰیت 14 ، 17 ، سُورٙہِ لُقمان کی اٰیت 8 ، سُورٙہِ فصلت کی اٰیت 8 اور سُورٙةُالاٙحقاف کی اٰیت 3 میں ایمان کے رٙد و قبول اور نتائجِ رٙد و قبول کی ساری گفتگو مُکمل ہو چکی ہے اور سُورٙةُ النساء کی اٰیت 137 میں تو خصوصیت کے ساتھ اہلِ ارتداد کے ارتداد پر قُرآن نے ایک مُفصل اور غیر مُبہم کلام کیا ہے اور جہاں تک اِس سُورت کی اِس اٰیت کا تعلق ہے تو اِس میں منافقین کے نفاق کا یہ پہلو اُجاگر کیا گیا ہے کہ اِن اہلِ نفاق نے ایمان و کفر دونوں سے اعراض کر کے صرف نفاق کو اختیار کیا تھا حالانکہ ایمان اِن کے سامنے موجُود تھا اور ایمان کو انہوں نے دیکھ بھال اور سمجھ بوجھ کر رد کیا تھا اسی لئے اُن کے دل سر بمہر ہوئے تھے لیکن جو لوگ دین و ایمان کو سمجھے بوجھے بغیر رٙد کرتے ہیں اُن کے لئے حق کی عدمِ قبولیت حق کے عدمِ فہم کا نتیجہ ہوتی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558311 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More