ہمیں پیسے نہیں کھانا اور خیمے چاہئیں، سیلاب متاثرین کو امداد کے نام پر 500 روپے دینے والے عوامی نمائندوں پر شدید تنقید

image
 
پاکستان میں جاری مون سون بارشوں سے جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 903 ہو گئی ہے۔14 جون سے شدید بارشوں کے باعث مرنے والے 903 افراد میں سے 326 بچے اور 191 خواتین ہیں۔۔ہزاروں افراد کے بے گھر ہونے کے بعد حکومت نے صورتحال کو "انسانی بحران" قرار دے دیا ہے۔
 
جنوبی پنجاب میں کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، لوگوں کے گھر برباد ہوچکے ہیں اور درجنوں افراد اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں لیکن تاحال حکومت متاثرین کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔
 
سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے متاثرین کی مدد کے بجائے صرف فوٹو سیشن کرنے کی حد تک محدود ہیں، سوشل میڈیا پر سامنے آنے ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کہیں سندھ میں بڑے بڑے وڈیرے لوگوں کو 5 سو روپے تو کہیں سرکاری حکام 1000 روپے دیکر احسان جتارہے ہیں۔
 
سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے کئی ادارے میدان میں آچکے ہیں جبکہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاستدان اور حکومتی نمائندے متاثرین کی داد رسی کے بجائے محض زبانی جمع خرچ تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
 
 
سوشل میڈیا پر سامنے آنیوالی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد مہر سیلاب متاثرین کو اپنی گاڑی میں ہی بیٹھ کر تسلیاں دے رہے ہیں اور امداد کے نام پر ایک شخص کو 5 سو روپے دے رہے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کی۔
 
سندھ کی ہی ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں لاڑکانہ شہر کے کمشنر گھنور علی سیلاب متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے آئے تو انہوں نے اپنی گاڑی سے اترنا بھی گوارا نہیں کیا اور ایک شخص کو 1000 روپے دیکر پانی نکالنے کی ہدایت کرکے چلتے بنے جس پر شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور ان کی گاڑی کو روکنے کی بھی کوشش کی تاہم کمشنر لاڑکانہ وہاں سے نکل گئے۔
 
شہریوں کا کہنا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں کھانا چاہیے، گھر سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں ہمارے علاقوں سے پانی نکالا جائے تاہم کمشنر لاڑکانہ نے کسی کی دہائی پر کان نہیں دھرے۔
 
 
پاکستان میں قدرتی آفات کا سلسلہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا ، یہ حقیقت ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا کسی بھی انسان کیلئے ممکن نہیں ہے لیکن ایسی آفات سے بچاؤ اور انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کیلئے اقدامات حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
 
پاکستان کا محکمہ موسمیات مون سون سے پہلے حکومتی اداروں کو متنبہ کرتا رہا کہ امسال ملک میں ماضی سے زیادہ بارشیں ہونگی اور سیلاب کی صورتحال بن سکتی ہے لیکن حکمرانوں نے نوٹس لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
 
سیلاب سے سب سے زیادہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب متاثر ہوا ہے۔سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کاکہنا ہے کہ پورا صوبہ زیر آب ہے،صوبے میں گزشتہ سال کے مقابلے اگست میں 600 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہیں۔
 
وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس خوراک، خیمے اور یہاں تک کہ لکڑیاں ختم ہو رہی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں بجلی اور قدرتی گیس کی کمی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں فوری طور پر 10 لاکھ خیموں کی ضرورت ہے، شاہ نے غیر سرکاری تنظیموں اور خیراتی اداروں سے مدد کی اپیل کی۔
 
ندی نالوں میں طغیانی، رابطہ سڑکیں بہہ جانے اور پل ٹوٹنے کے باعث بلوچستان کا ملک کے دیگر تمام صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔بارشیں برسانے والا مضبوط سسٹم جنوب وسطی اور مغربی بلوچستان تک پھیل رہا ہے جس کے باعث چمن شہر کے نواحی علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارشیں ہو رہی ہیں۔
 
ایک طرف حکومت عوام اور ملکی وغیر ملکی اداروں سے امداد مانگ رہی ہے تو وہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سندھ میں سیلاب متاثرین کیلئے آنے والا سامان فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے۔
 
اس بات سے انکار نہیں کہ قدرتی آفات سے ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں قدرتی آفت کو شہرت، کمائی اور کرپشن کا موقع بنالیا جاتا ہے۔ متاثرین کے فنڈز میں خرد برد اور تباہ حال لوگوں کے ساتھ تصاویر بناکر ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں اور ان کے نام پر فنڈز جمع کرکے اپنے خزانے بھرے جاتے ہیں۔
 
حکومت سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے ساتھ ساتھ غیر ذمہ داری اور غفلت کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو سیلاب میں ڈبونے کے ذمہ داران کا تعین کرے اور محکمہ موسمیات کی پیشگوئیوں پر پیشگی اقدامات نہ کرنے پر سخت ایکشن لیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔
YOU MAY ALSO LIKE: