سورۂ یس کی آیت 61 کا ترجمہ ہے "اور بے شک اس نے تم میں
سے بہت سی خلقت کو بہکا دیا تو کیا تمہیں عقل نہ تھی؟" یہاں 'اس' سے مراد
شیطان ہے۔
دنیا کی تمام مخلوقات اور انسان میں فرق صرف عقل ہی کا تو ہے، جو اللہ رب
العزت نے انسان کو عطا کر کے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دے دیا۔ اچھا ویسے
تو ہم اپنے آپ کو بہت سمجھدار اور عقلمند سمجھتے ہیں مگر مجھے سمجھ یہ نہیں
آتی کہ جب شیطان ہمیں ورغلا رہا ہوتا ہے، بہکا رہا ہوتا ہے، تب ہماری عقل
کہاں چلی جاتی ہے؟ اس نے تو علی الاعلان رب تعالی سے عہد لیا تھا کہ میں
بہت سے انسانوں کو تیری صراط مستقیم سے گمراہ کرونگا۔ ہم سب یہ جانتے ہوۓ
بھی ساری زندگی انجان بن کر ہی گزارنا چاہتے ہیں، اپنی من مانی کرتے ہوۓ،
اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہوۓ، اپنے خوابوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لۓ۔
ان سب کے لۓ خواہ ہمیں اپنے رب کی کتنی ہی نافرمانی کیوں نہ کرنی پڑے اور
کتنا ہی شیطان کو follow کرنا پڑے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان کا سب سے بڑا وار ہمیں گناہ کی جانب لے جانا اور
گناہ کا ارتکاب کروانا ہے۔ نہیں جناب! ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیں اسی
مغالطے میں ڈالے رکھتا ہے کہ یہ زندگی بہت طویل ہے، جو کرنا ہے، جیسے کرنا
ہے، بس کرتے چلے جاؤ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی کی عمر
بہت ہی قلیل مدت پر محیط ہے۔ اس کی بھرپور ترجمانی کسی کی کہی ہوئ یہ کہاوت
کرتی ہے "زندگی بالکل برف کی مانند ہے پگھل تو رہی ہے ایک دن ختم بھی ہو
جاۓ گی۔" لہذا اس کے پگھلنے کے عمل کے دوران ہی ہم سب کو اپنے آپ کو
سدھارنے کی طرف دھیان دینا ہو گا۔ کوئ نیک عمل کرنا چاہتے ہیں تو فورا" کر
گزریں، کوئ گناہ ترک کرنا چاہتے ہیں تو فورا" چھوڑ دیں، یہ سوچے بنا کہ
ابھی وقت بہت ہے، کل یا بعد میں یا پھر بڑھاپے میں کر لیں گے۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عقلمند بننے یا دکھنے سے ذیادہ اپنی عقل و
دانش کو استعمال میں لاتے ہوۓ صحیح اور غلط، نیکی اور بدی، گناہ اور ثواب
میں فرق کرنے کا سلیقہ سیکھ جائیں۔ اس طرزعمل کو اپنانے کی بدولت ہمیں رحمن
کو ماننے اور شیطان کو شکست سے دوچار کرنے کا ہمت و حوصلہ ملے گا، جو ہمارے
دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کا وسیلہ بنے گا۔ ان شاء اللہ۔
میری مانیں تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، جو وقت گمراہی میں گزر گیا اس پر
نادم ہو کر ہمیں بکثرت توبہ و استغفار کرنا چاہیۓ اور جو وقت رہ گیا ہے اسے
رب تعالی کا تحفہ جانتے ہوۓ اپنے آپ کو نیکی کی طرف راغب کرنے کی بھرپور
سعی کرنی چاہیۓ۔ وقت نہایت ہی تیزی مگر غیر محسوس انداذ سے بالکل ریت کی
مانند ہماری مٹھیوں سے پھسلتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاۓ
اپنا احتساب خود کر لیجیۓ کیونکہ بلاشبہ انسان اپنے آپ کو خود سب سے بہتر
جانتا ہے۔ ہم سب کو خود احتسابی کی عادت اپنانی چاہیۓ اور ہر لحظہ موت و
قبر کو یاد رکھنا چاہیۓ جہاں زندگی میں کیا گیا ہر اچھا برا عمل ہمارے ساتھ
کھڑا ہو گا جو ہماری جزا و سزا کا تعین کرے گا۔
میں دعا گو ہوں کہ ہمارا رحیم و کریم رب تعالی ہم سب کو شیطان کے ہر قسم کے
وار و وسوسوں اور بہکاؤں سے محفوظ رکھے اور ہمیں راہ ہدایت پر چلنے کی
توفیق عطا فرماۓ۔ (آمین)
|