#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمنٰفقون ، اٰیت 9 تا 11
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
لا تلھکم اموالکم
و لا اولادکم عن ذکر
اللہ و من یفعل ذٰلک ذٰلک
فاولٰئک ھم الخٰسرون 9 وانفقوا
و انفقوا مما رزقنٰکم من قبل ان یاتی
احدکم الموت فیقول رب لو لا اخرتنی الٰی
اجل قریب فاصدق و اکن من الصٰلحین 10 و
لن یوؑخر اللہ نفسا اذاجاء اجلھا واللہ خبیر بما
تعملون 11
اے ایمان دار لوگو ! تُم کو اِس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا ہو گا کہ تُمہارے
اٙموال و اولاد تُم کو قُرآن کے اٙحکامِ ہدایت سے برگشتہ کر کے برباد نہ
کردیں اِس لئے یاد رکھو کہ تُم میں سے جو انسان بھی قُرآن کے خیالِ خیر سے
غافل ہو گا وہ برباد ہو جائے گا ، اگر تُم اپنی اِس بربادی سے بچنا چاہتے
ہو تو تُم کو ہم نے جو مالِ حیات دیا ہے اُس مالِ حیات کو اپنی حیات میں ہی
کسی اعلٰی مقصد کے اعلٰی مصرف میں لے آوؑ تاکہ موت کے وقت تُم اِس پچھتاوے
سے بچ جاوؑ کہ اگر اللہ تُمہارے لٙمحہِ موت کو کُچھ دیر تک ٹال دیتا تو تُم
اپنے جمع مال کو ایک اعلٰی مقصد کے اعلٰی مصرف میں صرف کر کے نہال ہو جاتے
لیکن جب انسان کی مُدتِ حیات ختم ہو جاتی ہے تو اُس کو مزید مُہلت ہر گز
نہیں دی جاتی ہے تاہم اگر مرنے والے کا یہ عملِ خیر سہوا موؑخر ہو گیا ہو
تو اُس کا ارادہِ خیر بہر حال اللہ کے علم میں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری تین اٰیات میں وہ ایک ہی مربوط مضمون ہے جو ایک ہی
نظر اور ایک ہی نشست میں پڑھ کر سمجھا اور سمجھ کر یاد رکھا جا سکتا ہے اور
اِن اٰیات میں سے پہلی اٰیت کے پہلے حصے کا جو پہلا مفہوم متنِ اٰیت کے تحت
ہم نے تحریر کیا ہے اُس مفہوم کا ایک مقصد تو وہی ہے کہ تُمہارے اٙموال و
اولاد تُمہاری عدمِ توجہ کے باعث تُم کو کہیں قُرآن کے اٙحکامِ ہدایت سے
برگشتہ کر کے برباد نہ کردیں لیکن اِس اٰیت کے اِس مفہوم کا ایک دُوسرا
مُمکنہ مُدعا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تُمہارے بے مقصد مصارفِ اٙموال تُمہاری
اولاد کو کہیں ایسے بے مقصد مشاغل میں نہ ڈال دیں کہ جو بے مقصد مشاغل
تُمہاری اولاد کو قُرآنی اٙحکامِ ہدایت سے مُنحرف کر کے تُمہارے سارے
خانوادے ہی کو برباد کر دیں اِس لئے تمہیں اپنے اموال کے مصرف اور اپنی
اولاد کے مشاغل کے بارے میں اِس بات کا بالکُل ٹھیک ٹھیک علم ہونا چائے کہ
تُمہارے اموال کا عملی مصرف کیا ہے یا کیا ہونا چاہیئے اور تُمہاری اولاد
کا علمی مٙکتب کون سا ہے یا کون سا ہونا چاہیئے کیونکہ جب تک ایک صاحبِ مال
و اولاد کو علمِ اخلاق کے اِن بُنیادی اصولوں اور علمِ معاشرت کے اِن
بُنیادی ضابطوں کا علم نہیں ہوتا تب تک وہ صاحبِ مال اپنے مصارفِ مال اور
وہ صاحبِ اولاد اپنے مشاغلِ اولاد کے بارے میں کوئی بھی مناسب فیصلہ نہیں
کر سکتا لیکن سُوئے اتفاق یہ ہوا ہے کہ اہلِ اسلام جب اِس بارے میں اپنی
علمی و فکری رہنمائی کے لئے قُرآن کی اِن اٰیات اور اِن جیسی بہت سی دُوسری
اٰیات کے قُرآنی تراجم و حواشی پر کوئی علمی و تحقیقی نظر ڈالتے ہیں تو اُن
کو وہاں پر پہلے تو صدقہ و خیرات کے کُچھ فضائل نظر آتے ہیں اور بعد ازاں
صدقہ و خیرات کے وہ مُستحق ادارے بھی نظر آجاتے ہیں جن اداروں کے پاس رُک
کر وہ کبھی کبھی اپنا وہ صدقہ دے کر وہاں سے گزر جاتے ہیں جو صدقہ اُنہوں
نے قُرآن کے اِن روایتی تراجم و حواشی میں کبھی پڑھا ہوتا ہے اور اِس صدقے
کے بارے میں اُن کا حاصل مطالعہ یہ ہوتا ہے کہ اِن کا دیا ہوا یہ صدقہ اُن
پر آنے والی تمام بلاووؑں کو ٹال کر اُن اٙفراد اور اُن اداروں پر ڈال دیتا
ہے جن افراد اور اداروں کو اُس صاحبِ مال نے وہ صدقہ دیا ہوتا ہے اور صدقہ
لینے والے اُن اٙفراد اور اداروں پر آنے والی تمام بلاوّں کو اللہ تعالٰی
ٹالتا ہے جس کے نام پر اُس صاحبِ مال نے وہ صدقہ دیا ہوتا ہے ، اِس خطرناک
تعلیم کا یہ خوفناک نتیجہ نکلتا ہے کہ صدقہ دینے والا بندہِ مُسلم جو صدقہ
دیتا ہے وہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے صدقہ نہیں دیتا بلکہ بندر کی بلا طویلے
کے سر ڈالنے کے لئے صدقہ دیتا ہے اور وہ صدقہ دیتے وقت اُس کو ایک لٙمحے کے
لئے بھی یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ اِس نے اپنے مال کے زورر پر اپنی جو بلا
جس غریب کے سر پر ڈالی ہے اُس غریب کی جان بچی بھی ہے یا اُس کے صدقے کے
بوجھ تلے دب کر فنا ہوگئی ہے ، جس اُمت میں صدقے کا مفہوم اپنی بلا دُوسرے
کے سر پر ڈالنا اور اپنی جان بچانے کے لئے دُوسرے انسان کو ہلاک کرنا ہوتا
ہے تو اُس اُمت کے اُن اٙفراد اور اُن اداروں کو ہلاکت سے بٙھلا کون بچا
سکتا لیکن اِن لغویات سے قطع نظر اٰیاتِ بالا کا حقیقی مقصد انسان کو یہ
سمجھانا ہے کہ مال اور اولاد اگرچہ ہر انسان پیدا کر سکتا ہے اِس فرق کے
ساتھ کہ ایک غریب انسان امیر انسان کے مقابلے میں مال کم اور اولاد زیادہ
پیدا کرتا ہے اور ایک امیر انسان غریب انسان کے مقابلے میں مال زیادہ اور
اولاد کم پیدا کرتا ہے لیکن اِن دونوں کے حقیقی مسائل اِن کے مال کے وہ
مناسب مصارف اور اِن کی اولاد کے وہ مناسب مشاغل ہیں جن کی تکمیل کی عملی
صورتِ حال یہ ہے کہ مال کمانے کے بعد مال بچانے کے لئے انسان نے وہ بڑے بڑے
علمی ادارے بنائے ہوئے ہیں جن میں انسان کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ مال بنانے
کے بعد مال بچایا کس طرح جاتا ہے اور مال بڑھایا کس طرح جاتا ہے لیکن جہان
تک بچوں کی تخلیق کے بعد اُن کی مناسب اخلاقی تعلیم اور مناسب سیرت سازی کا
تعلق ہے تو اُس کے لئے غریب والدین کے پاس صُبح و شام کی ایک آزردگی سے
زیادہ کُچھ بھی نہیں ہوتا اور غریب والدین کی غریب اولاد کے پاس بھی شب و
روز کی آوارگی سے زیادہ کُچھ نہیں ہوتا لیکن اِس کے برعکس جو والدین زیادہ
امیر ہوتے ہیں اُن کے مشاغل بھی زیادہ تر عیاشی ہی ہوتے ہیں اور اُن زیادہ
تر امیر والدین کی زیادہ تر اولاد بھی زیادہ عیاشی اور زیادہ بدمعاشی میں
اپنے والدین کی اٙندھی مُقلد ہوتی ہے ، قُرآن اِن دونوں طرح کے والدین سے
بار بار یہی ایک بات کہتا ہے کہ وہ اپنے اموال کو بے مقصد مصارف میں صرف
کرنے کے بجائے با مقصد مصارف میں صرف کریں اور اپنی اولاد کو بے مقصد مشاغل
میں مشغول رکھنے کے بجائے با مقصد مشاغل میں مشغول رکھیں اور قُرآن اِن
والدین کو جو با مقصد عمل بتاتا ہے وہ بامقصد عمل فہمِ قُرآن ہے اور قُرآن
اِن کو جو با مقصد شغل بتاتا ہے وہ با مقصد شغل بھی صرف قُرآن ہے !!
|