#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورُةُالتغابن ، اٰیت 1 تا 10
سفرِ حیات و مقصدِ سفرِ حیات اور منزلِ حیات !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یسبح للہ
ما فی السمٰوٰت و
ما فی الارض لہ الملک
و لہ الحمد و ھو علٰی کل شئی
قدیر 1 ھوالذی خلقکم فمنکم کافر و
منکم موؑمن واللہ بما تعملون بصیر 2 خلق
السمٰوٰت والارض بالحق و صورکم فاحسن صورکم
و الیہ المصیر 3 یعلم ما فی السمٰوٰت و الارض ویعلم ما
تسرین و ما تعلون واللہ علیم بذات الصدور 4 الم یاتکم نبوؑ
الذین کفروا من قبل فذاقوا و بال امرھم و لھم عذاب الیم 5 ذٰلک
بانہ کانت تاتیھم رسلھم بالبینٰت فقالوا ابشر یھدوننا فکفروا و تولوا و
استغنی اللہ واللہ غنی حمید 6 زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلٰی وربی
لتبعثن ثم لتنبوؑن بما عملتم و ذٰلک علی اللہ یسیر 7 فاٰمنوا باللہ و رسولہ
والنور
الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر 8 یوم یجمعکم لیوم الجمع ذٰلک یوم
التغابن و من
یوؑمن باللہ و یعمل صالحا یکفر عنہ سیاٰتہ و یدخلہ جنٰت تجری من تحتہا
الانھٰر خٰلدین
فیھا ابدا ذٰلک الفوز العظیم 9 والذین کفروا و کذبوا باٰیٰتنا اولٰئک اصحٰب
النار خٰلدین فیہا
و بئس المصیر 10
سارے آسمانوں کی ساری زمینوں میں حرکت و عمل میں رہنے والی ساری مخلوق اُس
ایک بادشاہِ عالٙم کے تعارفِ ذات پر مامور کی گئی ہے جو بادشاہ اپنی ساری
مخلوق کو حرکت و عمل کا اختیار دینے اور اپنی ساری مخلوق سے حرکت و عمل کا
اختیار واپس لے لینے کا اختیار رکھتا ہے ، وہ وہی باشاہِ عالٙم ہے جس نے
تُم کو ارادہِ عمل و اختیارِ عمل کا مالک بنایا ہے اِس لئے تُم میں سے جو
انسان اپنے ارادے سے اُس پر ایمان لایا ہے اور جو انسان اپنے اختیار سے اُس
کا مُنکر ہوا ہے وہ اُس کے اعمالِ خیر و شر کو دیکھ رہا ہے ، وہ وہی
بادشاہِ عالٙم ہے جس نے جس طرح آسمانوں اور زمینوں کو اُن کی تخلیق کے بعد
ایک صورت دی ہے اُس نے اسی طرح تُم کو بھی تُمہاری تخلیق کے بعد ہر صورت سے
زیادہ حسین صورت دی ہے اِس لئے اٙب یہ تُماری مرضی ہے کہ تُم اپنے حسین
اعمال کی ایک حسین صورت لے کر اُس بادشاہ کے پاس جاتے ہو یا اپنے بدترین
اعمال کی ایک بدترین صورت لے کر اُس کا سامنا کرتے ہو ، وہ بادشاہِ عالٙم
تُمہارے اُن اعمال کو بھی جانتا ہے جو تُمہارے پردہِ خیال میں نہاں ہوتے
ہیں اور تُمہارے اُن اعمال کو بھی جانتا ہے جو تُمہارے کسی قول و عمل سے
عیاں ہوتے ہیں بلکہ وہ تو تُمہارے جسم کے پردے میں چُھپے ہوئے دلوں سے
گزرنے والے اُن موہُوم خیالات کی اُن موہُوم لہروں سے پیدا ہونے والی اُس
موہُوم سی صوت و صدا کو بھی سُنتا ہے جو اُن لہروں کے باہمی ارتعاش سے پیدا
ہوتی رہتی ہے ، تُم تک یقینا اُن اٙقوامِ ماضی کا اٙحوال بھی پُہنچ چکا ہے
جو اٙقوام عالٙم کے اُس بادشاہ کی اِن قُوتوں اور قُدرتوں کا انکار کر کے
اپنے بُرے اٙنجام کو پُہنچ چکی ہیں ، اُن اٙقوام کی ہدایت کے لئے اُس نے
اُن میں اپنے وہ رسول مامور کیئے تھے جن پر ایمان لانے سے اُن اقوام نے
مُکمل انکار کیا تھا اور جن کے ساتھ کفر کرنے پر بھی اُن اقوام نے مُکمل
اصرار کیا تھا جس کے بعد اللہ نے بھی اُن اٙقوام کو دُھتکار دیا تھا ، اُن
سرکش اٙقوام کی اُس سرکشی کا سبب اُن کا یہ گمان تھا کہ اللہ اُن کی موت کے
بعد اُن کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکے گا اِس لئے آپ اپنی قوم کو بتادیں کہ
زمین کے تمام زندہ انسانوں کو موت دے کر دُوسری زندگی دینا اور اُس کا حساب
لے کر اُن کو جزا و سزا دینا اُس بادشاہ کے لئے ایک بہت ہی آسان سا کام ہے
اِس لئے تُم سب لوگ اللہ کی توحید اور اُس کے رسول کی رسالت پر ایمان لا کر
تنزیلِ حق کی اُس قندیلِ حق کی روشنی میں آجاوؑ جو روشنی اُس نے اپنے رسول
کے ذریعے تُمہارے لئے روشن کی ہے اِس لئے کہ ہر وہ انسان جو اِس روشنی میں
آئے گا وہ اِس عارضی جہان کے بعد اُس دائمی جہانِ جنت میں داخل ہو جائے گا
جہاں پر ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اُس نے راحتوں اور مُسرتوں میں پلتے رہنا ہے
اور ہر وہ انسان جو اِس روشنی میں نہیں آئے گا وہ یومِ حساب کے بعد اُس
جہنم میں جائے گا جہاں پر ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اُس نے جلتے رہنا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا نام تغابُن بروزنِ تعاوُن ہے جو بابِ تفاعل سے دو طرف کے دو
اعمالِ خیر و شر کی وہ عام سی ایک بیانیہ صورتِ حال ہے جس کی لفظی ترکیب پر
داخل ہونے والے { الف لام } نے اِس عام صورتِ حال کو ایک خاص صورتِ حال بنا
دیا ہے ، اہلِ لُغت کے نزدیک اگرچہ اِس کا معنٰی اہلِ تجارت کا تجارت میں
ایک دُوسرے کو دھوکا دینا ہے لیکن تغابن ایک حاصل مصدر ہے جس کا حاصل اہلِ
تجارت کا تجارتی رازوں کو ایک دُوسرے سے چُھپانا ہوتا ہے اور اِس اٰیت میں
اِس کا مُرادی مفہوم اُس لٙمحہِ قیامت کے اخفا کے حوالے سے آیا ہے جس
لٙمحہِ قیامت میں انسانی اعمال کے نتائجِ اعمال چُھپے ہوئے ہیں اور اِس
اعتبار سے اِس سُورت کا موضوعِ سُخن بھی قیامت ہے اور قیامت کے اِس موضوعِ
سُخن کے حوالے سے اِس سُورت سے پہلی تین سُورتوں کے دو دو مضامین کی طرح
اِس سُورت میں بھی وہ دو بڑے مضامین وارد ہوئے ہیں جن دو بڑے مضامین میں سے
پہلا بڑا مضمون توحید و رسالت اور ایمان و عمل کے نتائجِ اعمال سے عبارت ہے
اور دُوسرا بڑا مضمون اُن اٙسباب پر مُشتمل ہے جو اٙسباب انسان کو روشنی کے
اُس روشن راستے سے ہٹاتے ہیں جو راستہ جنت میں جاتا ہے اور تاریکی کے اُس
تاریک راستے پر چلاتے ہیں جو راستہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ، اِس
پہلے مضمون کا مقصدی مفہوم وہی ہے جو مٙتنِ اٰیات کے تحت ہم نے تحریر کیا
ہے لیکن جہاں تک اِس مفہوم پر ایک اضافی نقد و نظر کا تعلق ہے تو اِس سُورت
کے اِس پہلے مضمون کا حرفِ اٙوّل فعل { یسبح } ہے جو مضارع مجہول کا صیغہ
ہے جس کا معنٰی حرکی اٙشیاء کی وہ حرکت ہے جس حرکت کی بنا پر پانی پر چلنے
والی کشتی کو { سباح } اُنگلیوں کی حرکت سے حرکت کرنے والی تسبیح کو {
مُسبحہ } گفتگو کے دوران بار بار حرکت میں آنے والی اٙنگُشتِ شہادت کو {
مٙسبحہ } کہا جاتا ہے اور قُرآنِ کریم نے سیاروں کی اپنے مدار میں جاری
گردش پر بھی { کُل فی فلک یسبحون } کا یہ حُکم بھی اسی بنا پر لگایا ہے کہ
فلک کے یہ سیارے بھی ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اپنے دائرہِ مدار میں یہی حرکت
و عمل کر رہے ہیں جو حرکت و عمل اُن کے لئے مقرر کر دی گئی ہے ، قُرآنِ
کریم نے قُرآنِ کریم میں حرکت و عمل کے اِس زیرِ نظر مصدر کا جن 73 مقامات
پر ذکر کیا ہے اِس سُورت کا یہ مقام اُن 73 مقامات سے 69 واں مقام ہے اور
چونکہ قُرآن کی یہ سُورت حرکت و عمل کے اِس مصدر کے ساتھ صادر ہونے والے
اِس صیغے سے شروع ہونے والی آخری سُورت ہے اِس لِئے اِس سُورت کے اِس آخری
مقام پر قُرآنِ کریم نے { یسبح } کا یہ مجہول صیغہ لا کر اِس مضمون کو بارِ
دیگر اِس تفصیل سے مُفصل کر دیا ہے کہ عالٙم کی تمام بے جان اٙشیاء چونکہ
ارادہ و اختیار کی حامل نہیں ہیں اِس لئے خالقِ عالٙم نے اُن تمام اشیائے
عالٙم کو اُس خود کار نظام کا پابند بنایا ہوا ہے جس خود کار نظام کے ساتھ
وہ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے وہ خود بخود حرکت و عمل کر رہی ہیں جو خود کار
حرکت و عمل اُن کے جسم میں ایک رُوح بنا کر ڈال دی گئی ہے اور وہ روزِ اٙزل
سے روزِ اٙبد تک اسی رُوح کے بل بوتے پر وہ حرکت و عمل کر رہی ہیں جس حرکت
و عمل کا اُن کو حُکم دیا گیا ہے بخلاف اِس کے کہ انسان اپنے ارادہ و
اختیار کا مالک ہے اِس لئے اللہ نے اُس کو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اُس کے
اُس خود اختیار نظام کا پابند بنا دیا ہے جو اُس نے اپنے ارادے اور اختیار
سے ترک یا اختیار کرنا ہے اور انسان نے جب اِس زندگی سے نکل کر دُوسری
زندگی میں داخل ہونا ہے تو اُس نے اسی ایک سوال کا جواب دینا ہے کہ اُس نے
اپنے ازاد ارادے اور اپنے آزاد اختیار کو برُوئے کار لا کر خیر کے مقابلے
میں شر کیوں اختیار کیا تھا حالانکہ اُس کے پاس مُختلف اوقات میں اللہ
تعالٰی کے مُختلف اٙنبیاء و رُسل آتے رہے تھے اور اُس کو بار بار بتاتے رہے
تھے کہ اعمالِ خیر کا مآل کیا ہے اور اعمالِ شر کا وبال کیا ہے ، اِس پر
مُستزاد یہ کہ اللہ تعالٰی کے وہ اٙنبیاء و رُسل ایک مناسب مُدت تک اپنی
اپنی اُن اقوم کے درمیان رہ کر اور اُن ظالم اقوام کے سارے مظالم سہہ کر
بھی اُن اقوام کو خیر و شر کا فرق بھی سمجھاتے رہے تھے اور اِس پر مُستزاد
دٙر مُستزاد یہ کہ اللہ تعالٰی کے وہ اٙنبیاء و رُسل اپنی اپنی قوم میں وہ
نوشتہِ علم و عمل بھی چھوڑ کر جاتے رہے تھے جس نوشتہِ علم و عمل کو پڑھ کر
اُن اقوام کے وہ افراد اپنے ارادے اور اپنے اختیار سے راہِ حق کو اختیار
اور راہِ باطل کو ترک کر سکتے تھے لیکن اُنہوں نے اپنے اُس خُداد ارادے اور
اپنے اُس خُدا داد اختیار کو اللہ تعالٰی کی اطاعت کے بجائے اللہ تعالٰی کی
بغاوت کے لئے استعمال کیا ہے تو کیوں کیا ہے ، یہی وہ بُنیادی سوال ہے جس
پر انسان کی نجات و عدمِ نجات کا اور جس پر انسان کی جزا و سزا کا دار و
مدار ہے ، ترتیبِ اٰیات کے حوالے سے سلسلہِ کلام کی پہلی اٰیت اللہ تعالٰی
کے نُورِ توحید پر اور دُوسری و تیسری اٰیت انسان کی تخلیق و تصویر کی
تاریخ پر مُشتمل ہے جبکہ اِس سلسلہِ کلام کی چوتھی اٰیت میں اللہ تعالٰی کے
اُس بیکراں علم کا ذکر کیا گیا جس بیکراں علم کی بنا پر وہ اٙز کراں تا بہ
کراں پھیلے ہوئے اِس جہان کی ایک ایک چیز کے ظاہر و باطن کو دیکھ رہا ہے ،
پانچویں اور چٙھٹی دو اٰیات میں اقوامِ حال و اقوامِ مُستقبل کے سامنے
اقوامِ عالم کا اٙحوالِ عبرت بیان کرنے کے بعد اٰیت 7 میں اقوامِ حال و
مُستقبل کو قُرآن پر ایمان لانے اور قُرآن کو اپنا ضامنِ حال و ضامنِ
مُستقبل بنانے کی تلقین کی گئی ہے اور اٰیت 8 میں یومِ محشر کی ایک جٙھلک
دکھانے کے بعد اٰیت 9 اور اٰیت 10 میں جزائے جنت و سزائے جہنم پر اِس بڑے
مضمون کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور اِس بڑے مضمون کے ضمن میں آنے والے اُن
ضمنی مضامین کو انسان کی عقل و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ انسان اِس
مرکزی مضمون کے ساتھ اُن ضمنی مضامین پر بھی غور و فکر جاری رکھ کر اپنی
علمی و فکری بصیرت میں ایک قابلِ لحاظ اضافہ کرتا رہے !!
|