|
|
ایک سر پھرے رئیس زادے کو ایک مڈل کلاس ٹیچر کی لڑکی
پسند آجاتی ہے۔ لڑکی اس رئیس سے بہت خوفزدہ ہوتی ہے لیکن یہ رئیس کیونکہ
ہیرو ہے تو وہ ہیروئن اور اس کے خاندان کو جتنا بھی ہراساں کر لے لیکن وہ
ہیرو کی سچی محبت کے کھاتے میں آتا ہے اور اس کے لئے ہر طرح کا تشدد جائز
ہے ۔ ہیرو کی ضد پر شادی ہونے لگتی ہے تو ہیروئن کو ہیرو کا باپ عین رخصتی
والے دن مروا دیتا ہے۔ اب وہ ہیروئن ہے مر تو سکتی نہیں کسی طرح بچ جاتی ہے
لیکن وہ دنیا والوں کی نظر میں مر چکی ہے اب چچا کو لڑکی مل جاتی ہے وہ اس
کے باپ کو بلاتا ہے۔ لڑکی یعنی مہک باپ سے تو منہ چھپائے بیٹھی ہوتی ہے
لیکن جب باپ اور چچا اس کو ملتان روانہ کرتے ہیں تو وہ منہ چھپائے بغیر
ٹرین میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی ہوتی ہے تاکہ اس کے مروانے والے جان لیں
کہ وہ زندہ ہے یا رئیس زادہ جس سے وہ شدید نفرت کرتی ہے جس نے اس کی ناک
میں دم کر کے رکھا ہوا ہے اس کو ضرور پتا چل جائے کہ وہ زندہ ہے۔ کہانی کے
جھول دیکھ کر بس سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ |
|
یہ ڈرامہ 'کیسی تیری خود غرضی" ہے جو ان دنوں عوام میں
مقبول ترین ڈرامہ جا رہا ہے۔ ہیرو دانش تیمور ہیں جو کافی حد تک سلمان خان
کو نقل کر رہے ہیں۔ کہانی میں کافی ٹوئسٹ آتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو
یہ منفی سوچ رکھنے والے لڑکوں کو ہوا دینا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک سنکی اور
مغرور لڑکے کو ہیرو دکھایا گیا ہے جو اپنی پسند کو پانے کے لئے کسی بھی حد
تک جا سکتا ہے۔ سوسائٹی ویسے ہی اس طرح کے امیر زادوں سے محفوظ نہیں ہے۔
ابھی ایک کیس منظر عام پر آیا جس میں ایک ڈاکٹر لڑکی کو ایک امیر خاندان کی
طرف سے رشتہ نہ قبول کرنے پر اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ ہی
صرف نہیں اس پر تشدد کرتے ہوئے ویڈیو بنا کر بڑے فخر سے جاری بھی کی گئی ہے۔
اگر ڈراموں میں ہم اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو ہیرو دکھائیں گے تو اس طرح
کے کردار اپنے آپ کو ایک ہیرو سمجھ کر دندناتے پھریں گے۔ |
|
|
|
اب تنقید کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں، کہانی مزید آگے کچھ
اس طرح بڑھتی ہے کہ اب شمشیر (ہیرو) اور مہک(ہیروئن) کی شادی ہو گئی ہے۔ اب
ہیروئن کا کام ہے کہ وہ ہیرو کو راہ راست پر لائے گی۔ برسوں سے ہمارے
معاشرے میں یہ ہی تو ہوتا آرہا ہے لڑکا چاہے کیسا بھی ہو اس کی شادی بہترین
لڑکی چن کر کی جاتی ہے کہ لڑکی محبت سے لڑکے کا دل جیت لے گی اور لڑکا ایک
اچھا انسان بن جائے گا۔ کیا اس لڑکے کو سدھارنا اس کی ماں کا کام نہیں ہے؟
لڑکے کو ماں سدھار نہ سکی تو ایک معصوم لڑکی کی زندگی داؤ پر لگا دی جاتی
ہے کہ وہ محنت کر کے لڑکے کو سدھارے۔ آخر ہم اس گھسی پٹی سوچ سے کب نکلیں
گے؟ |
|
حسینہ معین اور ان جیسے دوسرے رائٹرز نے اپنے اسکرپٹ کے
ذریعے سوسائٹی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ لڑکیاں بھی انسان ہیں ان کے
بھی احساسات ہیں ان کو بھی محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی ہیروئن کو
کافی مضبوط اور بےباک کر دیا تھا۔ لیکن ان کی چالیس سالہ محنت پر آج کے
رائٹرز پانی پھیرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور ہم
پیچھے کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ جبکہ دیکھا جائے تو آج کی عورت تو بہت
مضبوط ہو چکی ہے اب ہمیں کتنی ہی سنگل مائیں نظر آتی ہیں جو اپنا اور اپنے
خاندان کا بوجھ بخوشی احسن طریقے سے اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ کسی انسانی
سہارے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ ایک مضبوط عورت ہی ایک مضبوط خاندان بنا
سکتی ہے۔ ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے معاشرے کی غلط تصویر پیش کرنا کہاں کا
انصاف ہے۔ باہری دنیا میں پاکستان کو ویسے ہی بہت قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔
بھارت نے اپنی فلم انڈسٹری کے زریعے دنیا کے سامنے ایک جنت نظیر بھارت کی
منظر کشی کی ہوئی ہے۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی معاشرے کی اصلیت اس
سے الٹ ہے۔ |
|
|
|
ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے زی شعور رائٹرز
سامنے آئیں اور وہ ایک درمیانی راہ نکال کر اچھی کہانیاں لکھیں جس میں
معیار جھلکے اور ساتھ میں معاشرے کی اصلاح بھی ہو اور ریٹنگ بھی اچھی ہو
کیونکہ دیکھنے والوں کو اگر صرف معیاری متن دکھایا جائے گا تو اس ٹریننگ کے
ساتھ ان کا ذہن معیاری کہانیوں کو قبول کرے گا ۔ اب رائٹرز پر یہ کڑی ذمہ
داری ہے۔ |