مصائب و آلام، مصیبتوں و پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر
دینا صبر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں مشقت
اور حوصلہ کی ضرورت ہو تی ہے جو بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں لیکن اس کا انعام
بہت زیا دہ ہے، صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے، صبر
کا دین اسلام میں بڑا مقام ہے اور اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی منازل میں
سے ایک منزل صبر کی بھی ہے اور وہ اس کو پالیتے ہیں خوش قسمت ہے وہ شخص جس
نے تقویٰ اور صبر کے ذریعے نفس پر قابو پا لیا،صبر کی اہمیت و افادیت اس
بات سے عیاں ہوتی ہے کہ اﷲ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا
ہے،آج ہم دین سے دوری کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو جانتے ہی نہیں اور ان
تعلیمات کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا
میں پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق
اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو
جائیں گے، کیونکہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے،
ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے، جب کوئی
کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقینا انسان غصے میں آتا ہے
اور بعض اوقات غصے میں آ کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس
کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں،گویا گھرکے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے
کے ایک اہم رکن تک ہر شخص کو خلاف معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر
کامیاب اُس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے
اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر
سکتا ہے جو صبر کی دولت سے مالا مال ہو۔ہر آدمی اپنی ہمت کے مطابق جو کام
کرتا ہے اس میں آگے نکلنے و جیتے کی کوشش کرتا ہے لیکن آگے وہی نکلتا ہے جو
آخر تک صبر سے کام لیتا ہے،اسی لئے خالق کائنات نے ارشاد فرمایا،ترجمہ:اے
ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر
کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے(البقرۃ،153/2)آزمائش پر صبر اﷲ تعالیٰ کی
بشارت کا ذریعہ ہے،دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے برداشت کر
لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوشخبری اﷲ خود دیتا ہے،اﷲ جل شانہُ
فرماتے ہیں،ترجمہ:اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک
سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ!) آپ ان
صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں، جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں:
بے شک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے
ہیں(البقرہ155-156/2) رب کی رضا کے لیے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین
گھر کی خوشخبری دی گئی ہے،ترجمہ:’’اور ہم نے اسے دنیا میں بھی بھلائی عطا
فرمائی اور بے شک وہ آخرت میں بھی صالحین میں سے ہوں گے( رعد 122)صبر کرنے
والوں کی حضور ﷺ سے حوض کوثر پر ملاقات ہو گی، غزوہ حنین کا مال غنیمت
تقسیم کرتے ہوئے حضور ﷺ نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا:عنقریب تم دیکھو گے
کہ بہت سے معاملات میں لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، تم اس پر صبر کرنا
حتیٰ کہ تم اﷲ اور اس کے رسول سے جا ملو کیونکہ میں حوض پر ہوں گا، انصار
نے کہا ہم عنقریب صبر کریں گے،حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:قیامت والے دن جب اﷲ تعالیٰ تمام
مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا! صبر کرنے والے کہاں ہیں؟
فرمایا: کچھ لوگ اُٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنت کی
طرف جائیں گے، راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو اُن سے پوچھیں گے، ہم آپ
لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، آخر آپ
ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم اہل صبر ہیں، فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے
کس بات پر صبر کیا؟ وہ جواب دیں گے ہم نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت پر اور گناہوں
سے بچنے پر صبر کیا اُس وقت اُن سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائیں،
بے شک صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے(علامہ ابن القیم، عدۃ الصابرین)حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین اوقات حالت صبر
میں پائے ہیں (امام احمد،کتاب الزہد)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبیﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر رو
رہی تھی، تو آپ نے فرمایا کہ اﷲ سے ڈرو اور صبر کرو، عورت نے کہا کہ دور
ہوجا، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے اور نہ تو اس مصیبت کو
جانتا ہے، اس نے آپ کو پہچانا نہیں، اس سے کہا گیا تو وہ نبی ﷺ کے دروازے
کے پاس آئی اور وہاں دربان نہ پائے اور عرض کیا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہ
تھا، آپ نے فرمایا کہ صبر ابتداء صدمہ کے وقت ہوتا ہے( صحیح بخاری:جلد
اول:حدیث نمبر 1206)حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انصار
کی ایک جماعت نے رسول اﷲﷺسے کچھ مانگا۔ آپ نے ان کو دیدیا یہاں تک کہ جو
کچھ تھا آپ کے پاس ختم ہوگیا تو آپ نے فرمایا میرے پاس جو کچھ بھی مال
ہوگا، میں تم سے بچا نہیں رکھوں گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے تو اﷲ اسے
بچا لیتا ہے جو شخص بے پروائی چاہے تو اسے اﷲ تعالی بے پرواہ بنا دے گا اور
جو شخص صبر کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے
بہتر اور کشادہ تر نعمت نہیں ملی(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1382) عطاء
بن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ میں
تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں، میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے کہا کہ یہ
کالی عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی آتی ہے
اور اس میں میرا ستر کھل جاتا ہے، اسلئے آپ میرے حق میں دعا کردیں، آپ ﷺنے
فرمایا تجھے صبر کرنا چاہئے، تیرے لئے جنت ہے اور اگر تو چاہتی ہے تو تیرے
لئے دعا کر دیتا ہوں کہ تو تندرست ہوجائے، اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں
گی پھر کہا اس میں میرا ستر کھل جاتا ہے، اسلئے آپ دعا کریں کہ ستر نہ
کھلنے پائے، آپ نے اس کے حق دعا فرمائی(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر
611)حضر ت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺکو فرماتے ہوئے
سنا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں
یعنی دو آنکھوں کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو
میں اس کے عوض اس کو جنت عطا کرتا ہوں(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر
613)،صبر کی شرائط میں سے ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کیسے صبر کریں گے، کس
کے لیے صبر کریں گے اور صبر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صبر کے لیے ہمیں
نیت کو درست کرنا اور اس میں اخلاص لانا ہوگا ورنہ ہمارے اور جانور کے صبر
میں کوئی فرق نہیں ہو گا کیونکہ اُس پر جب مصیبت آ جاتی ہے تو وہ بھی
برداشت کرتا ہے مگر اسے اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ اُ س پر مصیبت کیوں
نازل ہوئی اور اُس سے کیسے نمٹنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا،اﷲ رب العزت
سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
|