بزدار دور میں مفاد اٹھانے والے اور اپنی تجوریاں بھرنے
والے تمام بیوروکریٹ / سیاستدان / مقامی چٹ پوش آج کہاں گئے ہیں؟ راجن پور،
تونسہ، جام پور اور کچہ کے علاقے اس وقت تباہ ہوچکے ہیں۔ ان متاثرہ بستوں
میں آج ہزاروں افراد بے یار و مددگار ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ کہیں
ادویات نہ ہیں تو کہیں کھانے کو روٹی میسر نہیں۔ پھٹے پرانے کپڑے، ننگے
پاؤں، پانی ، کیچڑ اور موسم کی سختیوں کا مقابلہ کرنے والے یہاں کے باسیوں
کے صبر پر قربان ۔۔۔۔۔ اور قربان اُن ماؤں پر جن کے بچے پانی کی نظر ہوچکے
ہیں۔ قربان اُن معصوم کلیوں پر جو بنا کھلے مرجھا گئی ہیں۔ تونسہ کی بستیوں
میں تو انتہائی رقت آمیز اور دل دہلادینے والے مناظر ہیں۔ ایک طرف لونی /
دریائی / پہاڑی پانی اوپر سے برستے بادلوں کی گھن گرج میں نہتے غریب ، جن
کا کوئی ولی وارث نہ ہے، اپنے کھنڈرات بنے گھروں کے ڈھیر پر کھلے آسمان تلے
کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ منگروٹھا بستی سے ایک عزیز نے بتایا کہ مچھر،
کیڑے، مکوڑے، اور پانی کے ساتھ آنے والے سانپ، کالے بچھو بھی لوگوں کی
جانیں لے رہے ہیں۔ علاقہ میں امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، الخدمت
فاؤنڈیشن کے رضا کار پہنچ رہے ہیں تاہم متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ
متاثرین تک بروقت ریلیف پہنچنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لوگ بھوک اور پیاس سے
جانیں دے رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی بھی نہ ہے۔ کئی بستیوں میں لوگ گندلا
اور سیلابی پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سالوں کی جمع پونجی، بچیوں کا جہیز،
شیرخوار بچوں کا دودھ، ادویات ، اجناس، مال مویسی پانی بہا کر لے گیا ہے۔
رہی سہی کسر شہروں سے آنے والے بھکاریوں نے پوری کردی ہے۔ سیلاب متاثرین کی
بجائے ہر آنے والے امدادی قافلے کے آگے رونا دھونا شروع کردیتے ہیں جس سے
امدادی ریلیف مستحق افراد تک نہیں پہنچ رہا۔ کل شام کے وقت مریم نواز صاحبہ
کی طرف سے کچھ راشن، ادویات اور دیگر سامان تو پہنچا ہے مگر خیمے، چادریں،
مچھر دانیاں، جوتوں، کپڑوں کی ابھی بھی قلت ہے۔ کئی بستیوں میں غذائی قلت
کے باعث بچوں کی چیخ و پکار ہے۔ ان علاقوں میں ہونے والے جانی مالی نقصان
کا فی الوقت تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے۔
امداد کے نام پر کئی چٹ پوش بہتی گنگا میں نہانے کا گناہ کررہے ہیں۔ کیمپوں
کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے۔ تاہم ایسے میں ایک اللہ کا بندہ اپنے
ساتھ امدادی ساز و سامان، ادویات لیے پچھلے دو دن سے متاثرہ علاقے میں
موجود ہے۔ یہ اللہ کا بندہ اپنی ذاتی حیثیت مطابق متعدد گاڑیوں، امدادی
سامان سے بھرے ٹرکوں کے ہمراہ مسلسل متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں۔ یہ
خاندان ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور سے اپنے ساتھ ساز و سامان اور امدادی
گاڑیاں لیے اس وقت راجن پور، جام کی متاثرہ بستیوں میں موجود ہے۔ شرافت،
ایمانداری، رکھ رکھاؤ، حب الوطنی، انسان دوستی میں اُن کا ثانی نہیں۔ ایک
ایسے وقت میں جب وفاق اور صوبے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں،
امدادی سرگرمیوں کی بجائے سرکاری وسائل سیاستدانوں کی خوشنودی کے لیے
استعمال ہورہے ہیں ، ایسے میں یہ خاندان غریبوں کے لیے مسیحا بن کر آیا ہے۔
دیپالپور کی سیاست اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے جانے والے انسان دوست
میاں محمد یوسف وٹو اس وقت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اُن کی ہمراہی
پنجاب کے ہر دلعزیز آفیسر محمد زمان وٹو چیئرمین پنجاب کواپریٹیو بورڈ
کررہے ہیں۔ اپنی ایمانداری، حب ولوطنی اور فرض شناسی میں نام کمانے والے
محمد زمان وٹو نے بطور کین کمشنر پنجاب کسانوں کی آواز بن کر شوگر مافیا کو
نکیل ڈالی، بطور ڈپٹی کمشنر بھی اُن کا ٹریک ریکارڈ پنجاب کی بیوروکریسی
میں صف اول میں رہا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ متعدد غیر مقبول محکمے
اُن کی تعیناتی کے بعد عوام میں مقبول ہوئے۔
متاثرہ علاقوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
سیلابی ریلوں میں سب سے پہلے ریسکیو کرنے والوں میں الخدمت کے رضاکار شامل
ہیں۔ عوام اور مخیر حضرات کی طرف سے زیادہ سے زیادہ عطیات بھی الخدمت کے
توسط سے پہنچائے جارہے ہیں گویا کہ الخدمت اپنی خدمت کے عوض عوام میں
اعتماد کا رشتہ قائم کرنے والا فلاحی ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ متعدد سیاسی ،
مذہبی ، فلاحی تنظیمیں خصوصاً تھل رائٹس موومنٹ اپنی استعاعت کے مطابق
امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت آئی، سیلاب ہو یا زلزلہ ، اہلیان بھکر
نے ہمیشہ دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطیر رقم، امدادی سامان، عطیات
متاثرین تک پہنچائے ہیں۔ دیگر فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ کالج اور سکول
ونگ نے ہمیشہ امدادی سرگرمیوں میں صف اول کا کردار ادا کیا ہے۔ طلباء و
طالبات کا جذبہ او روطن سے محبت دیدنی ہے۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج بھکر شعبہ
انگریزی کے نوجوان اُستاد اور شاعر عمران راہب سب سے پہلے سیلاب متاثرین کی
آواز بنے۔ سیلاب کے ستائے بے سہارا عوام کو جاکے سہارا دیا۔ نوجوانوں کو
متحرک کیا اور بالاخر نوتک کا یہ نوجوان "راہب" بن کر مسیحا ئی کرداروں میں
اپنا نام کماگیا۔ اویس تابش، جواد مہدی سمیت اُن کی پوری ٹیم اب تک جان
لڑانے میں مگن ہے۔ اسی کالج کے شعبہ سوشل ورک کے اساتذہ بھی مسیحائی علم
اٹھائے سیلاب متاثرین کی امداد میں جان لڑانے نکلے ہیں۔ ذیشان خان نیازی
برستی بارش اور پسینے سے شرابور ہوکر متاثرہ بھائیوں کی معاونت کے لیے جہد
مسلسل کررہے ہیں۔ عمیر فاروق رانا، جاوید امجد تلوکر ، عابد حسین اعوان بھی
نئے جذبے کے ساتھ نکلے ہیں۔ نوجوان شاعر مومن مولائی ، سید آفتاب برنی
(صحافی) بھی سیلاب متاثرین کی معاونت میں پیش پیش ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل کے
سادات قبیلے کا شاعر اور سرائیکی وسوں کا بڑا نام سید مخمور قلندری پانیوں
اور کیچڑ سے لڑتے ہوئے سیلاب زدہ لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچارہے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں، جاگیرداروں، وڈیروں سے تو بچے بھی اچھے ہیں
جو اپنی جیب خرچ کے دس روپے بھی روزانہ کی بنیاد پر سیلاب فنڈ میں جمع
کروارہے ہیں۔ بچوں کی ہمت، جذبہ اور وطن سے محبت دیدنی ہے۔
افواجِ پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اگر ملک یا
قوم کو قدرتی آفات کا سامنا ہو تو بھی یہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتی
دکھائی دیتی ہے۔ اکتوبر2005 کے زلزلے ‘ 2010 اور پھر2011 اور اب موجودہ جان
لیوا سیلاب کی آفات میں افواجِ پاکستان نے جس طرح آگے بڑھ کر حالات کو
سنبھالا اور اپنے ملک کے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے انہیں رہائش‘
خوراک اورطبی سہولتیں بہم پہنچائیں‘ وہ قابل ستائش ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کو حکم دیا کہ وہ ’فارمل
آرڈرز‘ کا انتظار کئے بغیر جہاں جہاں ضرورت ہے‘ سیلاب زدگان کی مدد کو
پہنچیں اور اُن کی بحالی کے لئے کام کریں۔الغرض پاک فوج متاثرہ علاقوں سے
لوگوں کو فوری ریسکیو کرنے، پانی نکالنے اور خوراک، ادویات پہنچانے میں
کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔ بلاشبہ فوج اور عوام کی یہ محبت مضبوط دفاع اور
روشن پاکستان کی ضمانت ہے کہ افواج جنگیں لڑتی ہیں تو قوم اُن کی پشت پر
کھڑی ہوتی ہے‘ جب قوم کو کسی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو افواج اُن کی دادرسی
کے لئے ان کی دہلیز پر موجودہوتی ہیں۔ پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان ہر
مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں جو پاکستان کے استحکام کی عکاسی کرتی
ہے۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔ پاک فوج پائندہ باد
|