ٹرانس جینڈر؛ تعصبات اور تحفظات کے بیچ

خلاصہ یہ کہ ہر شخص اپنے ماحول میں فٹ ہونا چاہتاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کی طرح نارمل دکھائی دے، اور ان تمام اعزازات اور مراعات سے جن سے دوسرے لوگ بحیثیت انسان مستفید ہو رہے ہیں وہ بھی فائدہ اٹھائے۔اسلام ان جذبات اور احساسات کی قدر کرتا ہے، اور یہ مانتا ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر شخص سے جڑے تمام رشتے اور تعلقات تبھی خوشی اورسکون کا باعث ہو سکتے ہیں جب اس کو اس کا جائز مقام ومرتبہ دیاجائے۔
لہذاٹرانس جینڈر کے معاملہ میں تحفظات کی رعایت رکھتے ہوئے اور تعصبات اورغیرمعقول خدشات سے گریز کرتے ہوئے ہمیں معاشرے میں ایسے حضرات کا اعتماداور شناخت بحال کرنا چاہئے۔اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر بنیادی انسانی حقوق دلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اور اس سیاق میں ایسی قانون سازی کرنی چاہئے کہ جس میں مدنظر یہ ہو کہ سماجی امتیاز ،منفی نظریات اور برےرویوں سے گھبرا کرجو لوگ غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں اورابہام کا فائدہ اٹھا کر اخلاقی جرائم میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو۔
نیز وہ لوگ جوجنسی شناخت کے مسئلہ میں مغربی نظریات وروایات کی نقالی میں اپنی معیاری اسلامی اقدار وروایات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور ان کے خوش کن آزادی اور مساوات کے نعروں سے متاثر ہو کر محض خیالی مفروضہ، نفسیاتی واھمہ اور نفسانی داعیہ کی بنیاد پر جنس کی تبدیلی اورجنسی شناخت کو ہر انسان کا ذاتی حق مانتے ہیں، کی تعلیم ،تنبیہ اورآگہی کا فریضہ سرانجام دینا چاہئے۔

ٹرانس جینڈرکی اصطلاح ایسے افراد کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی موجودہ جنسی شناخت یا جنسی اظہار ان کی پیدائشی جنس سے مختلف ہو۔گویا کہ ایسے لوگ اپنی سوچ اور ظاہری وجود میں مناسبت نہیں پاتے۔ایسے لوگوں کو معاشرے میں مختلف نام دئے جاتے ہیں جن میں سے لیزبین، گے،پین سیکشوئل، خواجہ سرا، مخنث اور خنثی عام ہیں۔

ایسے لوگوں کاعلاج اگر نفسیاتی طریقہ سے ممکن نا ہو تو سرجری کے ذریعہ سے بھی علاج کیا جانا اب قانونی طور پرجائز ہے۔اس میں آپریشن کر کے ان کی جنس کی تبدیلی کا عمل کیا جاتا ہے۔اور ضرورت کے مطابق ان میں پلاسٹک سرجری کے ذریعہ مردانہ اور زنانہ اعضاء اور علامات کو پیدا کیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسے کیا داخلی یا خارجی جذبات اور حالات پیدا ہوجاتے ہیں جو اس انتہائی اقدام پر مجبور کردیتے ہیں۔ایسے مخلوط جنس افراد کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے ظاہر وباطن میں تضاد اور دوئی پاتے ہیں، اور ناچاہتے ہوئے بھی منافقانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔جس سے رفتہ رفتہ وہ جھنجھلاہٹ اور فرسڑیشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دوسری جانب ایک کردار معاشرتی اور سماجی دباؤ کا بھی ہے۔ایسے لوگوں کو معاشرہ نارمل لوگوں کے طور پر قبول نہیں کرتا۔لوگ انہیں معیوب نگاہوں سے دیکھتے ہیں، اور بعض حالات میں مشکوک نظر سے دیکھتے ہوئے ملازمت اورتجارت کے معاملات میں ان سے امتیازی برتاؤ سے پیش آتے ہیں۔

ٹرانس جینڈر کے لئے ان تعصبات اور تحفظات کے برعکس ظاہر ہے ہر شخص اپنے ماحول میں فٹ ہونا چاہتا ہےوہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ لوگوں میں عجیب یا نرالہ لگے۔لیکن جب وہ اپنے ماحول کو اپنے خلاف پاتے ہیں، اور لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے نفرت اور دھتکار محسوس کرتے ہیں تو ڈپریشن اور کمپلیکس کا شکار ہوکر یوتھیشیا (قتلِ رحم ) اور خودکشی تک کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔

تاہم یہاں ایک فیکٹر دھوکہ اور فراڈ کا بھی ہے۔وہ معاشرے جہاں مرد ہونا فخر کی علامت سمجھی جائے اور عورت ہونا ایک سٹگما (عار) کہلائے۔تونفسانی خواہشات اورسرمایہ دارانہ زندگی کے منہ زور تقاضہ جات کو پورا کرنے کے لئے عورتیں بھی مردوں کا بھیس اختیار کرتی ہیں اور مردبھی عورتوں کے بھیس میں اپنی معاشی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔

مغرب تو اس معاملہ میں کلیئر ہےاس کے آدرشوں کے مطابق ہر انسان کو آزادی اور مساوات حاصل ہے۔وہ اپنی مرضی کا مالک ہے وہ جیسے جذبات اور تاثرات رکھتا ہو اس کے مطابق اپنے لئے جنس کی تبدیلی کا آپشن استعمال کرسکتا ہے۔لیکن اسلام کی نظر میں مردانہ اور زنانہ خصوصیات خدا کی پیدا کرد ہ ہیں، جن میں تبدیلی علاج کی نیت سے تو درست ہے لیکن ٹرینڈ یافیشن کی بنیاد پر ناجائز ہے۔

تحفظات
صحت وتندرستی بہت بڑی نعمت ہے۔قدرت کی عطاء سے زیادہ تر لوگ دلی ،دماغی اورجسمانی اعتبار سے تندرست وتوانا پیدا ہوتے ہیں۔تاہم ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں اپنی پیدائش سے ہی کسی بیماری یا نقص کی شکایت ہوتی ہے۔کسی ظاہری جسمانی نقص کو تو سب جان لیتے ہیں لیکن وہ نقص جو دماغی یا نفسیاتی ہو اس کو سب نہیں جان پاتے ، اور خاص طور پر جب اس کا تعلق شرم وحیاء سے ہو تو اس پر ابہام کے دبیزپردے حائل ہوجاتےہیں۔

جنس کی شناخت اور تعین کے مسائل میں مبتلاء لوگوں کی اکثریت اسی شرم وحیاء اور کمپلیکس کے مارے ایک مدت تک یہ طے نہیں کر پاتی کہ ان کی جنسی شناخت کیا ہے۔اور اس کے مطابق ان کا جذباتی اور سماجی رویہ کیا ہونا چاہئے۔وہ نسوانی وجود رکھتے ہوئے بھی لڑکیوں کی کمپنی میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے، ان جیسے کپڑے اور رویے اپنانے میں سکون نہیں محسوس کرتے ۔یانامکمل جنسی اعضاء کی وجہ سےخود کو مرد کہلانے پر ہتک محسوس کرتے ہیں۔

وہ ایک مدت تک شناختی کارڈ ،پاسپورٹ،ڈرائیونگ لائسنس جیسی بنیادی دستاویزات نا ہونے کے باعث سفری اور رہائشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔لوگوں کا تعصب اور تضحیک اس کے سوا ہوتا ہے۔اس تذبذب اوردل ودماغ کے ادھیڑ بن اور کنفلکٹ میں وہ دوہری شخصیت کے مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں، اور مناسب اور بروقت نفسیاتی علاج نہ کروانے کے باعث طویل عرصہ تک ذہنی کرب سے گزرتے ہیں اوربالآخر ڈپریشن اور خودکشی تک کا آسان شکار ہو جاتے ہیں۔

تعصبات
اخلاقی گراوٹ میں مبتلاء ہمارا سماج اور معاشرہ بھی ٹرانس جینڈرز کے لئےمثبت کردار اداء نہیں کرتا۔لوگ جس شخص کو خود سے کچھ مختلف یا آڈ محسوس کرتے ہیں اسے ٹرانس فوبک نکتہء نظر سےطرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں، اسے اس کی کمزوری کا احساس دلاتے ہیں، تعصب اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں، یا ان کو ایک مخصوص نکتہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔گویا کہ ان کی نظرمیں ایسے لوگوں کی جگہ نارمل معاشرے کی بجائے کسی خاص انڈسٹری سے ہے۔جس کے لوگ گانے بجاناےاور رقص وسرود کی محفلیں جمانے کے سوا اورکسی کام کے لائق نہیں ہوتے۔

نتائج
خدشات،تحفظات اور تعصبات کی اس پیکار میں ٹرانس جینڈرز میں سے کچھ لوگ تو مایوسی اور شکست خوردگی اور ناانصافی کے باعث زندگی کی بازی ہار دیتے ہیں تو کچھ لوگ دجل وفریب اور دھوکہ فراڈ کو اپنالیتے ہیں۔یہ لوگ مردوں کے دیس میں مردوں کے بھیس کا اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ وہ قانونی، سماجی اور اقتصادی مساوات کے لائق ہو سکیں۔

اورکبھی ٹرانس جینڈر لوگ انٹرٹیمنٹ انڈسٹری سے اپنی معاشی حالت کو منسلک کر کے عورتوں کے بھیس کو اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اور ہر دو صورتوںمیں ایک غیرفطری زندگی اختیار کرلیتے ہیں۔

مغرب اور ٹرانس جینڈر
ٹرانس جینڈر اور ان کے حقوق کے معاملہ میں مغرب اپنا موقف طے کرچکا ہے۔وہ تعصبات اور تحفظات سے ورے اپنی ایک پوزیشن لے چکا ہے۔خدا اور وحی کو اپنی زندگی سے بے دخل کر کے طے کر چکا ہے کہ وہ اپنا خدا خود ہے، اور اپنے بھلے برے کا فیصلہ کرنے کا مجاز بھی وہی خود ہے، کوئی اور نہیں۔
بےخدا تہذیب میں مقدس کتاب کی حیثیت ھیومن رائٹس کو حاصل ہے ۔اور بالاتر اقدار کا مرتبہ آزادی، مساوات اور انصاف کو حاصل ہے۔چنانچہ ان کی روشنی میں ان کے نزدیک مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں چہ جائیکہ ٹرانس جینڈر اور ان میں تعصبات یا تحفظات کے دائرے حائل ہوسکیں۔

اہل مغرب کے نزدیک ہر انسان جیسا محسوس کرتا ہے اور جیسا رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے اسے اس کی آزادی ہے۔وہ چاہے تو مذکر کی شناخت اختیار کرے چاہے تو مونث کی اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

تبصرہ
خدا کو بھلا کر مغرب نے وہ بڑی غلطی کی ہے جس کے خمیازہ میں اسے لبرل ازم اور سیکولر ازم جیسے مصنوعی اور خانہ زاد نظام فکرتراشنے پڑے۔اور ان کو جھوٹی مساوات اور سرمایہ دارانہ معاشیات کے غیر متوازن نظریات نے سہارادینے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں فیمینزم اور ویمن امپاورمنٹ (عورتوں کو بااختیار بنانے جیسے)انتہاء پسندانہ خیالات اور رجحانات پیدا ہوئے۔

جنس کے امتیاز کو بھلا کرتحفظات اور تعصبات کی کشمکش میں مغرب نے ٹرانس جینڈر اورعورت کو مرد کے مقابلہ لا کھڑا کیا ہے اور مرد کی فطری حیثیت اور اختیارات کو محدود یاختم کر کے دونوں پر ظلم کیا ہے، ان پر ایسا بوجھ ڈالا ہے جس کے وہ مستحق نہ تھے۔

اب عورت یا ٹرانس جینڈرکو مرد کی طرح اپنے سروائول کے لئےاپنے کیرئر کی فکر کرنا ہے، اقتصادی دوڑ میں حصہ لینا ہے،جنگ میں ہتھیار اٹھانے ہیں، زراعت اور تجارت میں جفاکشی اور کمپیٹیشن کے ساتھ قدم جمانے ہیں۔اور اس کے لئے خانگی اور خاندانی زندگی کو داؤ پر لگانا ہے۔

آج عورت ، مرد بننے پر فخر کیوں کرتی ہے ،کیونکہ اس کا عورت ہونا جدید نظام نے ایک برائی بنا دیا ہے۔انہوں نے تعلیم میں ایک جنس یعنی اسٹوڈنٹ کو متعارف کرایا ہے، یونی سیکس لباس اور حتی کہ بچوں کے کھلونے بھی ایک قسم کے بنا دئے ہیں۔سوشل میڈیا مرد عورت کے ساتھ ٹرانس جینڈر سب کو مساوی آپشن کے طورپر دیکھتا ہے۔ان کی نقالی میں مستشرقین کے مشرقی عقیدت مند،دیسی لبرلز نے بھی جن کے نزدیک علم وحکمت کا ہر موتی یونان کی کان سے نکلتا ہے،انہی کی اقدار اور روایات کو بے سوچے سمجھے اپنانا شروع کر دیا ہے۔

اسلام اور ٹرانس جینڈر
اسلام کی نظر میں انسان اپنی جنسی شناخت کے معاملہ میں جن خصوصیات اور امتیازات کا حامل ہوتا ہے وہ اس کے خالق کی ودیعت اورتدبیر کا نتیجہ ہیں۔اس نے اپنے علم وحکمت کے مطابق انسان کو جیسا چاہا بنایا ۔اور اسے احسن تقویم (بہترین سانچہ ڈھانچہ) قرار دیا۔

خداوند متعال نے ازل سے انسان کو دو جنسوں (مردو عورت) میں تقسیم کیا اور اس فرق کے ساتھ ان میں امتیازی خصوصیات ودیعت کیں۔ اور ان صلاحیتوں کے مطابق ان دونوں کے لئے فطری ذمہ داریاں تفویض کیں۔

اسلام انسان کو اس حیثیت سے دیکھتا ہے کہ وہ ظاہر وباطن کے مجموعہ کا نام ہے۔جسم وجاں ، جذبات وفکر کی ہم آہنگی اس کی نظر میں خدا تعالی کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔اور اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان میں سے کسی ایک میں کمی ،نقصان یا ڈس آرڈر میں مبتلا ہوتا ہے۔

لوگ کبھی جسمانی اعتبار سے ناقص اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ، اور کبھی ماحول اور موروثی اثرات کے باعث فکر وخیال میں بےقاعدگی اوربگاڑ کے حامل ہوتے ہیں۔اسلام ایسے مستثنیات کو مستقل حیثیت دینے کی بجائے ایک مرض کے طور پر دیکھتا ہے،جس کے علاج ومعالجہ کی ضرورت ہے۔

ٹرانس جینڈرکے بارے میں تعصبات اور تحفظات سے بالاتر ہو کروہ سمجھتا ہے کہ انسان اگر مردانہ خصوصیات کا حامل ہوتے ہوئے نسوانی میلانات رکھتا ہے، یا نسوانی خصوصیات رکھتے ہوئے مردانہ رجحانات رکھتا ہےتو یہ فطرت کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

طبیعی رجحانات میں کبھی بےقاعدگی اور تضاد پیدا ہوتا ہے تو اس کے خارجی اسباب ہو سکتےہیں، جن میں سے بری صحبت یا ایک تسلسل سے بدعادات واطوارکا اپنانا ہو سکتا ہے۔جو بعد ازاں فطری کجی کی جانب لے جاتے ہیں۔ایسے میں مناسب تعلیم وتربیت اور نفسیاتی تھیراپیز اور ہارمونز ریپلیسمنٹ کے ذریعہ اس کے فاسد مزاج کو بحال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کبھی جنسی اعضاء کا ناقص یا نامکمل ہونا بھی ذہن وفکر کو متاثر کرتا ہے۔ایسے میں دیکھا جائے گا کہ اگر نسوانی علامات زیادہ ہیں جیسے پیریڈز کا ہونا اور چھاتی کے ابھار تو اس صورت میں میڈیکل علاج اور پلاسٹک سرجری کا سہارا لیتے ہوئے زائد یا ناقص اعضاء کا علاج کروایا جا سکتا ہے، اوربعض مردانہ علامات جیسے بال وغیرہ کا آنا یا دو جنسی اعضاء کا ہونا اسے عورت کی صنف سے خارج نہیں کرتا۔
ایسے ہی اگر مردانہ علامات زیادہ ہوں جیسے احتلام کو ہونا اور داڑھی کے بال آنا آواز بھاری ہونا تو اس میں بعض نسوانی علامات کا پایا جانا اسے مردوں کی صنف سے خارج نہیں کرتا ۔اسے بجائے ٹرانس جینڈرقرار دینے کے مرد مانتے ہوئے اپنے طبی علاج کا کہا جائے گا۔

طبی علاج سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نامکمل پن کو ادویات یا ہارمونز ریپلیسمنٹ کے ذریعہ ممکن حد تک مکمل کر لے، یا اگر کوئی چیز اس کی جنسی شناخت کے خلاف اس کی ذات میں بدنمائی کا باعث بن رہی ہے تو پلاسٹک سرجری وغیرہ کےذریعہ اس کا ازالہ کر لے۔

البتہ مشکل تب پیدا ہو سکتی ہے جب کسی ٹرانس جینڈر میں مردانہ اور زنانہ دونوں خصوصیات ایک جیسی نسبت سے پائی جائیں ، ایسا کیس نہایت نادر ہوتا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق ایسی صورت کا صفر اعشاریہ سات سے صفر اعشاریہ پانچ کا چانس ہوتا ہے اور ایسے کیسز برسوں میں آتے ہیں۔

اسلام کی نظر میں یہ ایک مستثنی کیس ہے جسے خنثی مشکل کہا جاتا ہے۔اور صرف یہی ایک صورت ایسی ہے جس میں ایک تیسری صنف ماننا پڑتی ہے۔خنثی مشکل کے حوالہ سے پہلی ترجیح تو یہ ہے کہ اگر کامیاب میڈیکل ٹرانزیشن کے ذریعہ سے وہ کسی ایک صنف مرد یا عورت کا چناؤ کر لے تو اس کا شمار اسی جنس میں ہوگا۔اور اس پر اسی صنف کے شرعی احکام لاگو ہوں گے۔اور اگر ایسا ممکن نا ہو تو اس پر تیسری صنف خنثی مشکل کے احتیاطی احکام لاگو ہوں گے۔

ان احتیاطی احکام میں سے یہ ہے کہ وراثت میں اسے کم تر حصہ کا حامل سمجھا جائےگا۔اسے خواتین کی طرح دوپٹہ سے سرچھپا کر نماز پڑھنا چاہئے، خواتین کو اس سے پردہ کرنا ہوگا، نامحرم مرد یا عورت سے تنہائی میں نہیں مل سکتا، وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ جو معاشرے میں ایک پریکٹس عام ہو رہی ہے کہ فیشن اور ٹرینڈ کی فالوینگ میں ٹرانس جینڈرزغیر ضروری اور مصنوعی طور پرجنس کی تبدیلی کرواتے ہیں وہ اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا اور اسے چیلنج کرنا ہے۔احادیث میں ایسے مردوں اور عورتوں کو سختی سے کنڈم کیا گیا ہے جو اپنی صنف مقابل سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

خلاصہ
خلاصہ یہ کہ ہر شخص اپنے ماحول میں فٹ ہونا چاہتاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کی طرح نارمل دکھائی دے، اور ان تمام اعزازات اور مراعات سے جن سے دوسرے لوگ بحیثیت انسان مستفید ہو رہے ہیں وہ بھی فائدہ اٹھائے۔اسلام ان جذبات اور احساسات کی قدر کرتا ہے، اور یہ مانتا ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر شخص سے جڑے تمام رشتے اور تعلقات تبھی خوشی اورسکون کا باعث ہو سکتے ہیں جب اس کو اس کا جائز مقام ومرتبہ دیاجائے۔

لہذاٹرانس جینڈر کے معاملہ میں تحفظات کی رعایت رکھتے ہوئے اور تعصبات اورغیرمعقول خدشات سے گریز کرتے ہوئے ہمیں معاشرے میں ایسے حضرات کا اعتماداور شناخت بحال کرنا چاہئے۔اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر بنیادی انسانی حقوق دلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اور اس سیاق میں ایسی قانون سازی کرنی چاہئے کہ جس میں مدنظر یہ ہو کہ سماجی امتیاز ،منفی نظریات اور برےرویوں سے گھبرا کرجو لوگ غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں اورابہام کا فائدہ اٹھا کر اخلاقی جرائم میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو۔

نیز وہ لوگ جوجنسی شناخت کے مسئلہ میں مغربی نظریات وروایات کی نقالی میں اپنی معیاری اسلامی اقدار وروایات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور ان کے خوش کن آزادی اور مساوات کے نعروں سے متاثر ہو کر محض خیالی مفروضہ، نفسیاتی واھمہ اور نفسانی داعیہ کی بنیاد پر جنس کی تبدیلی اورجنسی شناخت کو ہر انسان کا ذاتی حق مانتے ہیں، کی تعلیم ،تنبیہ اورآگہی کا فریضہ سرانجام دینا چاہئے۔


 

Nadeem Arif
About the Author: Nadeem Arif Read More Articles by Nadeem Arif: 4 Articles with 1923 views Follow me on
albseerah.com
I am a shariah expert and have been providing scholarly and visionary works about the different aspects of Islam for mor
.. View More